جس طرح اولاد اپنے والدین کاعکس اور ان کی پہچان ہوتی ہے، جس طرح ایک طالب علم اپنے اساتذہا اور تعلیمی ادارے کا تعارف ہوتاہے اور جس طرح ایک نوجوان اپنے ملک و قوم کے اجتماعی معیار کی تصویر پیش کرتا ہے ،عین اسی طرح شاہراہیں، گلیاں، کوچے، چھوٹی چھوٹی سڑکیں یہاں تک کہ وہاں کی پگڈنڈیاں اپنے ملک، شہر ، گاؤں ، بستی اور محلوں کے سماجی و سیاسی شعور کے قدو قامت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اولاد کے چال چلن ، ان کی بول چال، ان کی سوچ اور ان کا طرز حیات و گفتگو ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ اُن کے گھروں کا ماحول کیسا ہے، ان کے والدین کی اخلاقی حیثیت کیا ہے اور ان کے حلق سے ہوتا ہوا شکم میں پہنچنے والا لقمۂ رزق حلال ہے یا حرام، طالبانِ علم کو دیکھ کر اُن سے گفتگو کر تے ہوئے بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جس سکول ، کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے یا جہاں سے وہ فارغ التحصیل ہے وہاں کا تعلیمی نظام کیسا ہے، وہاں کے اساتذہ کی علمی حیثیت کیا ہے اور وہاں کا مجموعی ماحول کیسا ہے، جس قوم کا نو جوان تعمیری رحجان کا حامل ہووہ قوم کبھی خون کے آنسو نہیں روتی مگر جس قوم کا نوجوان گمراہی کی دلدل میں گر جائے اور ہر نکڑ پہ کھڑے سگریٹ کا دھواں اڑا رہا ہو، لڑائی جھگڑوں میں اُلجھ کراپنے معصوم ، کمزور یا حسا س طبع والدین کے لئے اضطراب اور سوہان ِ روح کی صورت حال پیدا کر رہا ہو اس ملک و قوم کا تباہ ہونا طے ہو جاتا ہے ۔ عین اسی طرح سڑکوں اور شاہراوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس بستی کی جانب یہ راستہ یا شاہراہ راہگیر کو لے جا رہا ہے، اس بستی کے لو گ کتنے ذی شعور اور کتنے سمجھ دار ہوسکتے ہیں ۔ انھیں اپنے حقوق کے تئیں کتنی آگہی ہے اور وہ عقل و دانش کے کون سے درجے پر ہیں۔
قارئین کرام! یہ ابتدائی سطور پڑھ کر ضرور کہیں گے کہ مجھے اتنے چھوٹے سے مدعے پر بات کرنے سے پہلے اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی کو ئی خاص ضرورت نہیں تھی اور میں قارئین کرام کے اس خیال سے سو فیصد متفق بھی ہوں مگر یہ عرض کرتا چلوں کہ تاریخ انسانیت میں یہ ناقابل تردید حقیقت آج بھی رُخ ِروشن کے مثل عیاں ہے کہ جب جب بھی چھوٹے چھوٹے مدعوں کو ہم نے نظر انداز کیا، تب تب رفتہ رفتہ وہی چھوٹے چھوٹے مدعے بڑی بڑی آفتیں بن کر ہم پر ٹوٹ گئیں۔ بڑی خوبصورت سی بات میں اکثر اُن بزرگوں سے سنتا آیا ہوں جن بزرگوں کو آج کا نام نہاد یونیورسٹی گریجویٹ دقیانوسی اور اَن پڑھ کہتا ہے کہ ـ ’’ اگر وقت پر ہم نے اپنے بچے کو اس کی غلطی پر چانٹا لگایا ہوتا تو وہ آگے چل کر کسی گھناؤنے جرم کے ارتکاب کے عوض میں اپنے سینے پر قانون کی گولی کبھی نہ کھاتا‘‘ ۔ غرض اور مقصد یہ کہ ہم نے جب بھی چھوٹے چھوٹے معاملات کو بر وقت نظر انداز کر نے کی نقصان دہ کوشش کی تو وہ بالآخر اپنا حجم اور وزن بڑھا کر ہم پرمصیبتوں کا پہاڑ بن کر ٹوٹ گئے۔ اس لئے میرا مدعے پر آنے سے پیشتر اتنی لمبی چوڑی گفتگو کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب میں مورخہ 16 ؍ اپریل 2017ء بروز ایتوارقصبہ درہال، راجوری کی جانب اپنے اہل وعیال کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے نکلا، توسائی گنجی صاحب ؒ کی خانقاہ سے ہوتے ہوے ہم درہال روڈ پر چلنا شروع ہو ئے ، فوراََ یہ احساس ہوا کہ ہم سے بہت بڑی بھول ہو گئی کیونکہ سڑک کی حالت اتنی دلدوز ہے کہ ہم بہت پریشان ہو گئے اور بے ساختہ درہال کے نام نہاد اور نا اہل سیاسی لیڈروں کے لئے دل سے سرد آہیں نکلنا شروع ہو گئیں۔ یہ ٹوٹی پھوٹی سڑک در ہال کے لوگوں کی مظلومانہ خاموشی اور ان کی ہمت و استقلال پر مسلسل سوالیہ نشان لگارہی تھی بلکہ ان کے سیاسی شعورکو مسلسل شک کے دائرے میں کھڑا کر رہی تھی۔ یاد رہے کہ جب میں درہال کی بات کرتا ہوں تو اس سے مرادوادی ٔ درہال ہے جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑا علاقہ ہے، جہاں لگ بھگ بیس اور پچیس ہزار کے درمیان دوٹران رہائش پذیر ہیں اورجو یہاں کی اسمبلی نشست میں ایک بامعنی کردار ادا کرتی ہیں۔ سائی گنجی صاحب ؒ کی زیارت تک تو روڈ ٹھیک تھی ،شائد اس لئے کہ اﷲ کے ولی دنیا سے پردہ کرنے کے بعد بھی عوام الناس کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے ،کیوں کہ اللہ کے دوست سیاسی لیڈر بلکہ انسانیت کے خیرخواہ ہوتے ہیں اور اپنی ذاتی قربانیاں دے کر خلقِ خدا کو آرام دیتے ہیں ۔ در ہال کے عوام اس درجہ شریف الطبع یا مایوس ہیں کہ اپنے نام نہاد سیاسی قایدین سے اس پندرہ کلو میٹر سڑک کی تعمیرو مرمت کے لئے بھی کبھی لب کشائی کی زحمت گوار نہیں کرتے۔ جو بے چارہ اس سڑک پر ایک بار چلے ، اُسے سڑک نام سے نفرت ہو جاتی ہے۔ کیوں نہ ہو ، اس کو وقہ وقفہ سے غیر ہموار سڑک اور کھڈوں کی مہربانی سے جھٹکے ایسے لگتے ہیں کہ نانی یاد آتی ہے اور ہر جھٹکے پر متعلقہ لیڈران کے لئے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں اگر وہ نیتا لوگ سن لیں تو وہ جنگلوں کی طرف بھاگ جائیں۔ پتہ نہیں کہ یہ سادہ مزاج پرورش ہے یا تہذیب و شائستگی اور صبر کا مادہ کہ جس نے درہال کے عوام کی زبانوں پر ایسے بھاری تالے لگا ئے ہوئے ہیں یا ممکنہ طور معاملہ کچھ اور ہے کہ وہ مسلسل اس سڑک پر دھکے کھانے اور اذیت بھری چلت پھرت کے عادی ہو چکے ہیں کہ تکالیف کے باوجودبھی اس کو ٹھیک کرانے کا جرأت اظہار زبان سے نہیں کرپاتے ۔ شایدا نہوں نے قرآن حکیم کی اس ایک آیت کا غلط مطلب لیا ہے جس کا مفہوم ہے ’’ اﷲصبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘مگر یاد رہے کہ اسی قرآن میںارشاد باری ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت ا س وقت نہیں بدلتا جب تک وہ آپ اپنی حالت بدلنے کے لئے میدان عمل میں کود نہ پڑے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اہالیان درہال بلا کی صلاحیت اور ذہانت ومتانت رکھتے ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ تمام ریاست میں جتنی اہلیت و قابلیت اکیلی ان میں موجود ہے ،خواہ وہ علمی میدان میں ہویا پھر سیاسی سوجھ بوجھ یا طرزِ گفتارکی لطافت کے حوالے سے ہو ، یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پوری ریاست کی 60 فیصد صلاحیت صرف درہال کے لوگوں میں بد رجہ ٔ اتم موجود ہے۔ یہ لوگ وادیٔ نطق کے بادشاہ ہیں، فنی علوم ان کے اندرکوٹ کوٹ کے بھرے ہیں، یہ لوگ کسی بھی مدعے کو نوک ِقلم پر بڑی خوب صورتی کے ساتھ تحریر میں لانے کا ہنر رکھتے ہیں، یہ ہمت و استقلال کے پیکر ہیں ۔ ان میں کوئی کمی نہیں ہے، میری دانست میں اگر کمی ہے تو یہ کہ یہ مصلحت پرست ہیں، ذات برادری اور فرقہ پرستی کے تعصب میں گرفتار ہیں اور حق و صداقت کی مشعل فروزاںکو ذاتی رشتوں اور ذات پرستی کے تابع کئے ہوئے ہیں۔ اسی لئے اتنے باشعور اور ذی فہم ہونے کے باوجود ان کا استحصال ہوتا ثلا آیا ہے جس کا ثبوت یہ پتھر کے زمانہ زیر بحث سڑک بھی ہے ۔ ان کے گھر تو بہت خوبصورت ہیں جو ان کی اپنی محنت اورحسانت کا حاصل ہیں مگر ان پر مسلط نام نہاد سیاسی قائدین نے ایک بد بودار ماحول ان کی بستی کے گرد و نواح میں قائم کیا ہوا ہے مگر یہ سازش کے اس پہلو کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں گناہ ہے اور آج کی تاریخ میں جرم بھی ہے۔ مجھے کسی پارٹی یا کسی نیتا سے نہ تومحبت ہے اور نہ ہی نفرت ہے۔ میں صرف اس نیتا کوعوام الناس کا حقیقی علمبردار اور ہمدرد سمجھتا ہوں جو سچ بولتا ہو اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھتا ہولیکن آج تک جتنے لیڈر میرے دائرۂ تعلق میں آئے ہیں ،ان میں سے بھاری اکثریت یقین شکن اور عوام مخالف نیتاؤں کی ہے۔ پہلے تویہ لوگ بہت ہی خوب سیرت ہوتے لیکن جونہی سیاست میں قدم رکھا ، نہ جانے اس کافراداد نے کیا جادو کیا کہ یہ مفلوج العقل اور ناقص العلم ہو گئے۔جھوٹ اور رفریب ان کی سیاست کے خون میں سرایت کر گیا۔ درہال کے عوام ایسے خود غرضانہ سیاست کے دور میں اپنے نیتاوں سے اُمید لگائے بیٹھے رہیں، مگر ایسا کرنا حماقت کی حد تک سادگی اور جرم کی حد تک شرافت ہے۔ باشندگان درہال کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ جو لیڈر ہر پانچ سال کے بعد ان کے دروازے پر ووٹوں کی بھیک مانگنے آتے ہیں، وہ سوائے دھوکے اور فریب کے نہ ہی انھیں کچھ دے سکتے ہیں اور نہ اس سے پہلے انہوں نے کچھ دیا۔ ان کو یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ عہد ِحاضر میں اپنے نیتاؤں سے امید رکھنا یا کام نکالنا پتھر سے دودھ نکالنے کے مترادف ہے۔ خیردوران ِسفرہجیان گاؤں میں ہم نے ایک سکول دیکھا جہاں کمپیوٹر لیب میں ایک طرف کچھ مویشی بندھے ہوئے تھے اور دوسری طرف کچھ مزدور رہ رہے تھے۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوںکہ بچوں کے مسقبل سے کھلواڑ کرنے والے یہ غاصب ابھی تک عوام کے سوالوں کے گھیرے میں کیوں نہیں آئے؟ ابھی تک عوام نے ان کا گریبان کیوں نہیں پکڑا؟ جن بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے آج بڑے بڑے ایوانوں میں تقاریرگونجتی ہیں اور بڑے بڑے بل پاس کئے جاتے ہیں ، معصومیت کے ان گہواروں کے خواب اس طرح سے منتشر ہوتے ہوں ، یہ میں کیسے دیکھ سکتا ؟ کوئی بچہ صرف کسی ایک باپ کی اولاد نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اس قوم کی تقدیر ہوتا ہے، اس ملک کا مستقبل بھی اور اپنے سماج کی آن، بان اور شان بھی۔ اس کو اس شان ِ بے اعتنائی کے ساتھ نظرا ندازکئے جانے کا بدصورت منظر کیسے دیکھ سکتے ہیں در ہال کے ملک ، میر اور چوہدری کہلانے والے خاندانی لوگ؟ ان کی باتیں سنو تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آسمان پر کمند ڈالیں گے مگر خدا کی قسم مجھے درہال کی حالت زار دیکھ کر یہاں کے لوگ مجھے کم ازکم بہت کمزور معلوم ہوئے جو اپنے حق کے لئے آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔انہوں نے صرف آپسی نفرت وکدورت میں ایک دوسرے سے دوررہنا اپنا مقدر بنا لیا ہے۔ راجپوت کشمیری کو برداشت نہیں کرتا، کشمیری گجر کو دیکھ کر پیشانی پر شکن ڈال دیتا ہے اور گجر ان دونوں کو اس طرح تاڑتا ہے جیسے ایک سوتن دوسری سوتن کو تاڑتی ہے۔ فضول کے مدعوں پر یہ لوگ اپنی ذہنی اور جسمانی قوت کو ضائع کرتے ہیں مگر کبھی یکجا ہو کر باہمی میل جول اور ہم آہنگی کے ماحول میںسانس لینا پسند نہیں کرتے اور ان کے نام نہادسیاست دان اِن کی اسی بنیادی کمزوری کا ناجائز استفادہ کر کے ان تینوں طبقوں کو پسماندگی کی تاریکی میں دھکیلے ہوئے ہیں۔کب سمجھیں گے معززین و اہالیانِ در ہال؟ ویسے تو اﷲ کی ذات نے نا معلوم کون سے گناہ عظیم کی سزا دیتے ہوئے خطۂ پیر پنجال کو ذات پرستی اور برادری ازم کے خناث میں گرفتار کر رکھا ہے لیکن مجھے اس مہلک و مفسد بیماری کے زیادہ اثرات وادیٔ درہال میں دکھائی دیتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ عوام سڑکوں پہ ُاتریں، توڑ پھوڑ کریں یا اپنے نیتاؤں کی کھال اُتاریں مگر کم سے سرکار تک اپنی بات اپنے حل طلب مسائل تو پہنچائیں۔ آج میڈیا اتنا تیزی سے کام کر رہا ہے ایسے میں پریس کانفرنسز توکریں اور اپنے لیڈروں سے اپنی وفاداری اور توجہ کا حساب تو مانگیں اور ان سے پوچھیں کہ آج تک انہوں نے جتنے ووٹ ان کو دئے تھے، بدلے میں ان ووٹوں کا صلہ کیا ہوا؟ ان سے پوچھیں کہ جو وعدے ان سے ان کے سیاسی اکابرین نے کئے تھے وہ وعدے آج تک وفا کیوں نہ ہوئے؟ یہ بے معنی اور پر یشانیوں سے آلودہ زندگی کب تک جئیں گے یہاں کے عوام؟ یہ عوام کی کمزوری اور لیڈران کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہجیان کا ایک پُل جو دریا کے آر پار دو بڑے علاقوں کو جوڑتا ہے 1965ء میں منظور ہوا اور سرکار کی قابل مذمت غفلت کا نتیجہ، مقامی قیادت کی نالائقی کی بدولت اور باشندگان ِدر ہال کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے عرصہ 51 برس کے بعد 2016 میں مکمل ہوا۔ پوری دنیا میں ایسی شرمناک مثال نہیں ملتی جہاں ایک چھوٹا سا پل اتنے طویل عرصے میں مکمل ہو ا ہو۔ یہ پُل جو دادیٔ درہال کے آر پار دو بڑے علاقوں کی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی آسائش کا سبب ہے، اتنے لمبے عرصہ کے بعد مکمل ہوا مگر عوام نے کبھی آواز بلند نہیں کی۔ اب وہ پل پچھلے لگ بھگ ڈیڑھ سال سے منتظر ہے کہ اب اس کے آس پاس کے علاقوں کو کب اس سے جوڑا جائے۔ پل کھڑا کر دیا گیا ہے لیکن اس کے دونوں طرف کوئی روڈ ابھی تعمیر ہونا باقی ہے۔ گردو نواح کے لوگوں کو ایک کلو میڑ کے بجائے آج بھی تقریباََ بائیس کلو میٹر کا لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ سرکار نے پیسہ خرچا، لوگوں کی زمین برباد کی مگر جس مقصد کے لئے یہ سب تماشہ ہوا وہ مقصد ابھی محض ناتما م خواب ہی بنا ہواہے۔ جن لوگوں نے اس پل کی منظوری کے لئے تگ و دو کی وہ اس پل کی تکمیل کو نہیں دیکھ سکے اور ایک حسرتِ ناکام لئے سپرد خاک ہو گئے اور جو اُس وقت کے کم سن بچے تھے جنہوں نے اس اس پل کی وجہ سے راحت کے خواب دیکھے تھے وہ آج بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں اور نہ جانے اس پر قدم رکھ پائیں گے یا نہیں۔ایسی نا اہل سرکاروں کو چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے۔یہ خود کو عوام کا رہبر کہتے ہیں جب کہ رہزنوں کو بھی ان کے کردار پر شرم آتی ہے۔جس بستی کی یہ حالت ِزار ہو ،وہ بستی کیا سوچ لے کر جیتی ہے میں نہیں سمجھ پایا۔ درہال کا علاقہ بہت تعلیم یافتہ علاقہ ہے، یہاں کے نوجوان بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔یہاں کے نوجوان انتظامیہ میں، عدلیہ میں ، نطام تعلیم میں حتیٰ کہ ہر شعبہ میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور سیاست میںبھی یہاں کے لوگ پیش پیش ہیں مگر شائد ان کو اپنی اس سر زمین کی قدر و منزلت کی کو ئی پہچان نہیں ہے ،جس سر زمین نے انھیںسب کچھ دیا۔ ترقی کے آسمان میں اُڑان بھر کے لئے درہال واسیوں کی مشکلات اور رُکاوٹیں مزید بڑھ جائیں گی اگروادیٔ درہال کے مکین گراں خوابی سے باہر نہ آئے تو۔۔۔۔۔
9419170136