بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اپنائی ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے معاملے میں کوئی بھی نرمی روا نہیں رکھی جائے گی۔ بھارتی سفارت کار ششی تھرور کہتے ہیں کہ بھارت کی یہ پالیسی دراصل اس کی اینوائے اسرائیل سوچ کا نتیجہ ہے۔بھارت کے ہندو قوم پرست بہت اونچی فضا میں اڑ رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں بڑائی کا سودا سما چکا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ایک طرف تو بھارت انتہائی طاقت ور ہے اور دوسری طرف پاکستان انتہائی کمزور یعنی کسی بھی بڑے مناقشے کی صورت میں پاکستان کے لئے بھارت کے مقابل ٹھہرنا ممکن نہ ہوگا۔ بھارت کے مغربی اتحادیوں نے ہندو قوم پرستوں کی سوچ کو یہ کہتے ہوئے مزید مستحکم کیا ہے کہ پاکستان کے لئے چونکہ بھارت سے روایتی جنگ میں جیتنا ممکن نہ ہوگا، اس لئے اگر جنگ چھڑی تو پاکستان فل اسکیل نیوکلیئر وار کی طرف جانے میں دیر نہیں لگائے گا یعنی جوہری ہتھیار بڑے پیمانے پر اور بلاتاخیر استعمال کئے جاسکتے ہیں۔بھارتی پارلیمنٹ کے رُکن اور معروف صحافی منی شنکر ایر کہتے ہیں: بھارت کے وزیر دفاع نے سینہ پھلا کر یہ کہا ہے کہ پاکستانیوں کو منہ توڑ جواب دیا جاچکا ہے۔ منہ توڑ جواب؟ مگر پاکستانی تو ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کے منہ بھی سلامت ہیں، ان کے جوہری ہتھیار بھی برقرار ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ بھارت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، نیا دور؟ کیا کنٹرول لائن یا ورکنگ باونڈری پر جوابی کارروائی بی جے پی کی ایجاد ہے؟ یا یہ کہ ہم اب امن پسند اور امن پرور قوم ہونے کی ساکھ ختم کر کے جنگجو قوم بن گئے ہیں؟ وزیراعظم نریندر مودی نے بہت فخر سے کہا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ یعنی بولی نہیں، گولی۔ مگر کب تک؟"
ہندو قوم پرستوں نے بیرون ملک اور بالخصوص امریکا میں بھارتی اور بھارت نژاد باشندوں کی بھرپور کامیابیوں کے حوالے سے جو بلند بانگ دعوے اب تک کیے ہیں، ان کی قلعی ٹائمز آف انڈیا کے امریکا کے نمائندے نے کھول دی ہے۔ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے نمائندے چدانند راج گھاٹا نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا میں بھارتی یا بھارت نژاد باشندوں کی کامیابیوں کا ڈھول بہت پیٹا گیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس معاملے میں غیر معمولی مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ امریکا میں بھارتی ڈاکٹرز، ناسا میں بھارتی سائنس دانوں اور مائکر و سوفٹ میں بھارتی انجینئرز کی اصل تعداد پارلیمنٹ میں بتائی جانے والی تعداد سے خاصی کم ہے۔ بھارتی حکومت نے منتخب ایوان میں اس حوالے سے مبالغہ آرائی پر مبنی اعداد و شمار پیش کر کے اپنے آپ کو تمسخر کا نشانہ بنایا ہے۔"امریکا میں جی اے او نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ امریکا کے لیے بھارت کی آئی ٹی کی برآمدات کو بیس گنا بڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ امریکا میں بھارت سے تعلق رکھنے والے عارضی ملازمین کی آمدنی اور ترسیلاتِ زر کا بھی بہت ڈھول پیٹا جاتا رہا ہے۔ ان سب کی آمدنی کو بھی سوفٹ ویئر کی برآمدات میں شامل کیا جارہا ہے۔
سرد جنگ کے بعد کے زمانے سے مغربی قوتیں بھارت کو اقتصادی طور پر زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے میں معاونت کرتی آئی ہیں۔ اس عمل کا بنیادی مقصد خطے کے تمام ممالک اور باقی دنیا کو یقین دلانا ہے کہ آمرانہ حکومتوں میں جتنی ترقی ممکن ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ ترقی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن ہے۔ چین نے ثابت کیا ہے کہ جمہوریت کو اس کی تمام مسلمہ اقدار اور روایات کے ساتھ اپنائے بغیر بھی ملک کو مستحکم رکھا جاسکتا ہے اور اقتصادی طور پر غیر معمولی پیش رفت ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ ہندو قوم پرستوں کو بھرپور پروپیگنڈے کے ذریعے یہ ماننے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ بھارت غیر معمولی رفتار سے ترقی کر رہا ہے جبکہ اصل اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اب بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ غریب، ناخواندہ اور پچھڑے ہوئے لوگوں کا وطن ہے۔ ملک کے ساٹھ کروڑ سے زائد باشندے اب بھی دو وقت کی روٹی کا بمشکل اہتمام کر پاتے ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے بھارت کی کامیابیوں کا بھی بہت ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ اس معاملے میں بھی بھارت پیچھے رہ گیا ہے۔ عالمی سطح کے ٹیسٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی بچوں کی سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت اس سے کہیں کم ہے جو بیان کی جاتی ہے۔
بھارت نے اب تک اپنی طاقت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، جو بڑھک ماری ہے، اس کے جواب میں پاکستان نے کچھ نہیں کہا،بھارت اس کوپاکستان کی کمزوری سمجھتا ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو بھارتی فوج کی عددی برتری کے باوجود بعض معاملات میں ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ پاکستان کی آرمرڈ ڈویژنز بھارتی علاقوں میں دور تک جاکر کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ روایتی جنگ میں میدان مار سکتا ہے تو اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کسی ایک شعبے میں نہیں ہوتی۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا پورا اسپیکٹرم سمجھنا لازم ہے۔ بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے شعبے میں پاکستان بھارت کوبہت پیچھے چھوڑچکاہے۔ وہ تمام بھارتی علاقوںکوچندلمحوں میں خاکسترکرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے تیار کردہ میزائل روایتی اور جوہری دو طرح کے ہتھیار لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
۱۹۹۰ء میں ریگستانی علاقوں میں دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے سینٹرل کور آف ریزروز بنائی گئی تھی۔ یہ کور مکمل طور پر میکینائزڈ ہے۔ ایک طرف تو دشمن کو روکنا ہے اور دوسری طرف آگے بھی بڑھنا ہے۔ نئی تشکیل پانے والی اسٹریٹجک کور سمیت پاکستان کی دس کورز ہیں۔ پاکستانی فوج کی۲۸ ڈویژنز ہیں جو بھارت سے محض ۶ کم ہیں۔ سی پیک کی خصوصی حفاظت کیلئے مزید ۲ ڈویژنز آپریشنل ہیں اوردومزیدڈویژنزقاٗم کی جارہی ہیں۔ پاکستانی فوج کے پاس۲ آرمرڈ ڈویژنز اور خود مختار آرمرڈ بریگیڈز ہیں۔ اِس وقت پاک افغان سرحد سے ملحق علاقے میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے ایک لاکھ پاکستانی فوجی تعینات ہیں۔
دی اسپیشل سروسز گروپ(ایس ایس جی)۲ایئر بورن بریگیڈز(۲ بٹالینز)پر مشتمل ہے۔ پاکستانی فوج کے پاس۳۶۰ ہیلی کاپٹرز، ۲ ہزار سے زائد ہیوی گنز اور۳ ہزار آرمرڈ گاڑیاں ہیں۔ اس کے اہم اینٹی ٹینک ہتھیاروں میں ٹو، ٹو میک ٹو، بکتر شکن اور ایف جی ایم۱۴۸/ اے ٹی جی ایم شامل ہیں۔ دی آرمی ایئر ڈیفنس کمانڈ کے پاس ایس اے سیون گریل، جنرل ڈائنامکس ایف آئی ایم نائنٹی ٹو اسٹنگر، جی ڈی ایف آئی ایم ریڈ آئی اور کئی طرح کے سرفیس ٹو ایئر میزائل ہیں۔ راڈار سے کنٹرول کیا جانے والا اور لیکون بھی ہے جو اسٹینڈرڈ اے سی کے اے سی کے ویپن سسٹم ہے۔پاکستان کے پاس بیلسٹک میزائل انوینٹری بھی اچھی خاصی ہے۔ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے غوری سوم اور شاہین سوم کے علاوہ غوری اول، دوم، شاہین دوم اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے حتف، ابدالی، غزنوی، نصر، شاہین اول اور ایم ون ون نمایاں ہیں۔ پاکستان کے پاس موجود تمام بیلسٹک میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض میزائل کئی طرح کے ہتھیار لے جاسکتے ہیں۔ جوہری اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا بابر بیلسٹک میزائل پاکستان کی اسٹریٹجک ویپن انوینٹری میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ اس میزائل میں راڈار کو دھوکا دینے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ میزائل دکھائی دیے بغیر بھارتی علاقوں میں بہت دور تک مار کرسکتا ہے۔ بیلسٹک میزائلوں اور ہتھیاروں کے معاملے میں پاکستان اور بھارت برابر ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے پاس نیوکلیئر ڈیٹرنٹ موجود اور برقرار ہے۔
پاکستان نے اپنی میزائل انوینٹری میں حال ہی میں ایسے ٹیکٹیکل میزائل کا اضافہ کیا ہے جو چھوٹے جوہری ہتھیار لے جانے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ بیٹل فیلڈ ویپن ہے جو کسی بھی مقام پر دشمن کی افواج کے اجتماع کو تہس نہس کرسکتا ہے۔پاکستانی فضائیہ کے پاس۹۰۰ ایئر کرافٹس ہیں جب کہ بھارت کے پاس۱۸۰۰/ ایئر کرافٹس ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کی برتری دگنی ہے۔ فضائی قوت کے موازنے میں بھارت کی اصل برتری ٹرانسپورٹ طیاروں کے شعبے میں ہے۔ پاکستان کے ۲۳۰ جبکہ بھارت کے پاس۷۰۰ ٹرانسپورٹ طیارے ہیں۔ پاکستان کے پاس ۴۸/ایئر بورن راڈار ہیں جبکہ بھارت کے پاس ایسے۲۰/ راڈار ہیں۔ پاکستان کے پاس۴۸/ اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں جبکہ بھارت کے پاس۲۰/ اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔پاکستانی فضائیہ کے پاس۱۰۰/ اپ گریڈیڈ ایف سولہ طیارے اور ۲۰۰ ری بلٹ میراج طیارے ہیں جو رات کے وقت بھی دیکھنے والے نظام سے لیس ہیں۔ یہ طیارے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان تمام طیاروں کو نئے ویپن سسٹم ، راڈار اور ایویانکس سے آراستہ کیا گیا ہے۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس، کامرہ میں جدید ترین طیارے بنانے کا عمل جاری ہے۔ جے ایف۱۷ فورتھ جنریشن فائٹر ایئر کرافٹ ہے۔ ایسے ۸ طیارے فضائیہ میں شامل کیے جاچکے ہیں۔ چین کو۳۶ جے ایف ٹین طیاروں کا آرڈر دیا جاچکا ہے۔ یہ طیارہ بھارتی فضائیہ میں شامل سخوئی تھرٹی طیاروں کا ہم پلہ ہے لیکن یہاں یہ بات یادرکھناانتہائی اہم ہے کہ پاکستان اورچین کی مشترکہ کاوشوں سے ’’پی اے سی جے ایف۱۷تھنڈر‘‘PAC JF-17 Thunderکی تیاری نے اسے دنیاکی ایک اہم اورممتازائیرفورس کی صف میں کھڑاکردیاہے جس سے بھارت محروم ہے نیزامریکی اورمغربی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان نے میزائل ٹیکنالوجی جس کااس نے برملادنیابھرکے ماہرین کے سامنے عملاًتجربہ کرکے حیران کردیاہے۔
بھارتی فضائیہ کو عددی برتری ضرور حاصل رہی ہے مگر پاکستانی فضائیہ نے اپنی بہتر کارکردگی ہر جنگ میں ثابت کی ہے اور پاکستانی فائٹر پائلٹس کا شمار دنیا کے بہترین تربیت یافتہ فائٹر پائلٹس میں ہوتا ہے۔ ساؤنڈ بیریئر توڑنے والے مشہور امریکی ایئر فورس پائلٹ چک ییگر(Chuck Yeager) نے اپنی خود نوشت(The Right StuFF)’’ دی رائٹ اسٹف‘‘ میں پاکستانی ایئر فورس پائلٹس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: پاکستانی فائٹر پائلٹس کا کوئی ثانی نہیں۔۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ دو ہفتے چلی تھی۔ اِس دوران پاکستانی ایئر فورس کے ۳۴جہاز تباہ ہوئے جب کہ پاکستانی پائلٹس نے۱۰۲ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے۔ میں یہ بات اِس قدر یقین سے اِس لیے کہہ سکتا ہوں کہ میں خود روزانہ ایک چاپر )ہیلی کاپٹر)میں بیٹھ کر ملبے کا جائزہ لیتا تھا۔ پاکستانی فائٹر پائلٹس فضائی لڑائی کے تمام طریقے جانتے تھے اور ان کی کارکردگی بہت عمدہ رہی۔ وہ اپنے کام سے عشق کرتے پائے گئے۔ لڑاکا طیارہ اڑانا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ اڑان ہی سے سانس لیتے تھے"۔۱۹۶۵ء میں اے بی سی کے رائے میلونی نے لکھا: پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی فضائیہ نے بھارت کی فضائیہ کو ایک تہائی کی حد تک ختم کر دیا جبکہ غیر جانب دار مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستانی فائٹر پائلٹس اِس سے کہیں زیادہ اہلیت رکھتے ہیں"۔
بحری قوت کے معاملے میں بھارت کو پاکستان پر واضح برتری حاصل ہے۔ بھارت کے پاس مختلف اقسام کے۱۸۴ جب کہ پاکستان کے پاس۸۴ جہاز ہیں۔ بھارتی بحریہ کے پاس۲۸ جنگی جہاز ہیں اور پاکستان کے پاس۱۳ جنگی جہاز ہیں۔ بھارتی بحریہ کے پاس۱۷ آبدوزیں ہیں ، پاکستان کے پاس۱۱ ہیں۔ اس عدم مساوات کے باوجود پاکستانی بحریہ بھارتی پانیوں میں داخل ہونے اور دور تک نشانہ لگانے کی کہیں بہتراوربھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت نے ہر جنگ کے دوران پاکستان کا بحری محاصرہ کیا ہے لیکن اب وہ ایسا نہیں کرسکے گا۔ میساچوسٹیس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے کرسٹوفر کلیری نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں پاکستان کا بحری محاصرہ کرنے کی بھارتی صلاحیت کے حوالے سے لکھا: کہہ تو دیا جاتا ہے کہ پاکستان کا بحری محاصرہ مشکل نہیں مگر اب ایسا قطعاً ہے نہیں۔ بھارت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ بہت مختصر میعاد کا بحری محاصرہ بھی غیر معمولی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ ۱۹۱۱ء میں برطانوی اسٹریٹجسٹ جولین کاربیٹ نے لکھا تھا کہ کسی بھی جنگ کو محض بحری محاصرے کی بنیاد پر جیتا نہیں جاسکتا۔ کئی عشروں کے دوران مختلف نوع کی تیاریوں کے ذریعے پاکستان نے کسی بھی ممکنہ بحری محاصرے سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کی ہے جبکہ حال ہی پاکستانی بحریہ نے چھ اہم ممالک بشمول چین کی بحریہ کے ساتھ جنگی مشقوں میں اس کاعملاً مظاہرہ کرکے دنیاکوششدرکردیاہے ۔ کراچی کے علاوہ اب گوادر اور اورماڑہ میں بھی بندرگاہیں کام کر رہی ہیں۔ ان دونوں نئی بندر گاہوں سے سڑکیں بھی تعمیر کی گئی ہیں تاکہ کسی بھی مشکل صورتحال میں ملک بھر میں مال کی ترسیل جاری رہے۔ گوادر کی بندر گاہ خلیج فارس سے زیادہ دور نہیں۔ اِس علاقے سے دنیا بھر کے تجارتی جہاز گزرتے ہیں۔ محاصرے کی صورت میں بین الاقوامی تجارت متاثر ہوسکتی ہے اور ایسی کوئی بھی صورت حال بہت بڑے سفارتی تنازع کو جنم دے گی۔
مشہوربین الاقوامی امریکی دفاعی تجزیہ نگاراورمشہورزمانہ ’’ملٹری ائیرکرافٹ فیلڈ ’’ٹیل گروپ کارپوریشن کے نائب صدر’’رچرڈابولافیا‘‘(Richard Aboulafia)کے مطابق اگر بھارت اب بھی پاکستان کے خلاف کوئی روایتی جنگ جیتنے کا خواب دیکھ رہا ہے تو اسے شرمندہ تعبیر کرنے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ پاکستان سے جنگ جیتنے کے نتیجے میں اگر معاملات جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچے تو بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی۔ چین سمیت پورا خطہ جوہری جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اگر جوہری ہتھیار محدود پیمانے پربھی استعمال کیے جائیں تب بھی اس خطے پرذی نفس کاوجودباقی نہیں رہے گا۔امید کی جاتی ہے کہ بھارت حقائق کی روشنی میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے گا۔ نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو بھی اندازہ لگانا چاہیے کہ پاکستان کے معاملے میں عسکری سطح پر کوئی بھی مہم جوئی انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے اندازے کی غلطی صرف دونوں ممالک کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایسی تباہ کن ثابت ہوگی کہ ساری دنیاپتھر کے دورمیں لوٹ جائے گی۔اب عالمی طاقتوں کیلئے ضروری ہے کہ اس تباہی سے بچنے کیلئے ان دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیرکواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جلدحل کروانے کیلئے اپنی اخلاقی ،قانونی اورانسانیت کی بقاء کیلئے اپنی ذمہ داری پوری کریں وگرنہ یہ خطرہ دنیاکے سرپرمنڈلاتارہے گا۔
�