وادی چناب کو جموںسے ملانے والی سڑک جسے جموں ۔بٹوت ۔کشتواڑ شاہراہ کہاجاتاہے ،حکام کی عدم توجہی کامنہ بولتاثبوت ہے ۔دریائے چناب کے دامن سے گزرنے والی یہ سڑک اس قدر خستہ حالی کاشکاربن چکی ہے کہ کولگاڑی کے مقام پر چٹانیں کھسکنے سے پچھلے ایک ماہ کے دوران جہاںدو مختلف واقعات میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے وہیں روڈپر اس عرصہ میں مشکل سے دس روز بھی گاڑیاں نہیںچلی ہوںگی ۔لوگ دوران سفر اپنی جانیں تک کھورہے ہیں اور انہیں پسیوں کی وجہ سے کئی کلو میٹرکا دشوار گزار پہاڑی راستہ عبور کرناپڑرہاہے لیکن متعلقہ حکام خواب غفلت میں ہیں اور اب تک اس مشکل کا کوئی حل تلاش نہیں کیاگیا ۔واضح رہے کہ بٹوت سے کشتواڑ تک کا روڈ110کلومیٹر پر مشتمل ہے جس کی ٹھاٹھری کے مقام یعنی 80کلو میٹر تک حالت قدرے بہتر ہے لیکن اس کے آگے کشتواڑ تک 30کلو میٹر کا حصہ اس قدر خستہ حالت کاشکار بن چکاہے کہ اس پر گاڑی چلانا خطرے سے خالی نہیں ۔ خاص طور پر کشتواڑ قصبہ سے 20کلو میٹر پہلے درابشالہ کولگاڑی کے مقام پر سو میٹر کا حصہ توبالکل ہی ختم ہوگیاہے ۔کولگاڑی سے روڈ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر نکالی گئی تھی جہاںسے اب چٹانیں کھسک رہی ہیں اور اسی مقام پر پچھلے ایک ماہ میں پیش آئے دو حادثات میں پانچ افراد کی جانیں تلف ہوئیں ۔یہاںسے روڈ کا نام و نشان ہی مٹ گیاہے اور حکام کے پاس اب تک کوئی متبادل بھی نہیں کہ اس سڑک کو کسی دوسرے راستے سے تعمیر کیاجاسکے۔یہ روڈ چٹانیں کھسکنے کی وجہ سے 18مارچ کو ایک ہفتہ تک بند رہی جس کے بعدکا یہ معمول ہے کہ ایک دو دن ٹریفک بحال رہ کر پھر کئی دن تک بند رہتی ہے اور اس ہفتے بھی سڑک بند ہی رہی ہے۔کشتواڑ کا زمینی رابطہ منقطع ہوجانے سے ضلع میں اشیائے ضروریہ کی قلت بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ پچھلے دنوں اشیائے خوردو نوش کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور دوکانداروں کے خود غرض طبقے نے گراں فروشی شروع کردی۔ضلع میں سو روپے قیمت والی شے کو دودوسو میں فروخت کیاگیا۔یہی نہیں بلکہ روڈ کی موجودہ حالت نے طلباء اورتعلیم یافتہ بیروزگارنوجوانوں کو بھی پریشانی میں ڈال دیاہے ۔ طلباء کو وقت پر تعلیمی اداروں میں آنے جانے میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ کئی امیدوار، جنہیں جموں پہنچ کر انٹرویو اور تحریری امتحانات دینے تھے ، بھی اپنی منزلوں پر نہیںپہنچ پائے ۔چونکہ اس مقام سے نیچے دریائے چناب بہتاہے اور اوپر پہاڑی ہے اس لئے لوگوں کو عبور و مرور میں سخت مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں مجبوراًاپنی جان جوکھم میں ڈال کر بارہ کلومیٹر کاسفر پیدل طے کرناپڑتاہے لیکن یہ کام ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کٹھن پہاڑی سے نہ عمر رسیدہ لوگ گزر سکتے ہیں اور نہ ہی خواتین اور بیماروں کو یہاںسے گزارا جاسکتاہے ۔زمینی رابطے میں حائل انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے اگرچہ حال ہی میں کشتواڑ سے جموں کیلئے ہیلی کاپٹر سروس شروع کی گئی تاہم یہ بھی ناکامی سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیوںکہ اس کاکرایہ اتنا زیادہ ہے کہ ایک عام آدمی اس سروس کا فائدہ نہیں اٹھاپاتا۔کشتواڑ سے جموں تک بذریعہ ہیلی کاپٹر بیس ہزار روپے کرایہ متعین کیاگیاہے اور باوجود اس کے کہ اس رقم پر حکومت 80فیصد سبسڈی بھی دیتی ہے۔عام لوگوں کیلئے چار ہزار روپے خرچ کرکے سفر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ضلع کے لوگوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسا راہ حل تلاش کرے کہ آئندہ اس طرح کے مسائل نہ رہیں ۔چاہے متبادل روڈ نکالی جائے یاپھر ٹنل کا منصوبہ مرتب کیاجائے لیکن کشتواڑ کے لوگوں کو ایسے راستے پر چلنے کیلئے مجبور نہ کیاجائے جو نہ صرف کٹھن بلکہ جان لیو ابھی ثابت ہو۔