کشمیر کے تعلق سے بہت سارے سوالات دنیا میں گشت کر رہے ہیں جو وادی میں عام نوجوانوں کی برہمی اور طلبہ کی شدید ناراضگی سے لے کر سری نگر میں حالیہ ضمنی انتخابات کے موقع پر فوج کی طرف سے علانیہ طورفاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال بنانے تک کے تمام واقعات کا احاطہ کر تے ہیں ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیابین الاقوامی قوانین بھی کشمیرمیں ہورہے ظلم وبربریت،کھلی توہین اوردھمکیوں پر بے بس ہیں۔مجرمین کواگراپنے ملک کاقانون بے لگام چھوڑتاہے توکیاظلم و بربریت ،کھلی توہین اوردھمکیوںکے مرتکبین کوعالمی قوانین سے بھی استثنیٰ ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے 1948کے بین الاقوامی کنونشن کی دفعہ 5کی رو سے کسی بھی فردپرجسمانی تشدد کرنے،اور عزت سے کھلواڑ کرنے کی ہرگزکوئی اجازت نہیں ہے اور بین الاقوامی قوانین برائے شہری و سیاسی حقوق1966کی دفعہ6کی رو سے چاردانگ عالم رہنے بسنے والے ہر متنفس کو جان اور عزت نفس کے تحفظ کا حق حاصل ہے ،جب کہ اسی قانون کی دفعہ7جس پر بھارت نے بھی27مارچ1979کواپنے دستخط ثبت کئے ہیں ،جس کی رُو سے کسی بھی متنفس کو جسمانی تشدد ،یا بے عزتی کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے لیکن عالم انسانیت یہ بات تسلسل کے ساتھ دیکھتی چلی آرہی ہے کہ اس عالمی قانون کی موجودگی کے باوجود کشمیرمیںبین الاقوامی طور مسلمہ قوانین اور اصولوں کی دھجیاں بکھیریں جارہی ہیں۔
آج کی دنیااپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور مہذب گردانتی ہے ، آج کی یہ دنیا اپنے آپ کو انسانیت نواز باورکرانے میں لگی ہوئی ہے اور آج کا انسان ترقی کے انتہائی اعلی مقام پر فائز ہو گیا ہے ، اس کے پاس نت نئی ایجادات ہیں ،جدید قسم کے آلات ہیںلیکن دنیاکے کئی بدقسمت خطوں جن میں ریاست جموں وکشمیربھی شامل ہے کامشاہدہ بتاتاہے کہ یہ سب دعوے غلط ہیں ۔ آج کی سسکتی اوربلکتی انسانیت اور انسان نما حیوان صفت درندے اور خونخواربھیڑئے آج پوری دنیا میں انسانیت کا اس طرح خون کر رہے ہیں اور ایسے دل سوز واقعات ہورہے ہیں کہ آئینہ عالم دکھاتا ہے کہ دنیاایک ویران جنگل ہے جس میں جنگل کا قانونِ دہشت اور وحشت نافذالعمل ہے۔جس انسان کواپنی ماں نے آزادجناہے ،اُسے غلامی کے پنجرے میں رکھ کراپنی چودھراہٹ اور برتری کا گھنائوناکھیل کھیلا جا رہاہے جس کا انسانیت اور انسانی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ۔ سامراجی قوتیں اپنے استعماری مفاد کے خاطر اپنے سے کمزوروں کو مسل رہی ہیں اوربے قصوراور معصوم شہریوں کے خون سے زمین کولالہ زار بنا رہی ہیں ۔انسانیت کے تمام حدودپھلانگتے ہوئے معصوم بچوں ، عورتوں،بوڑھوں اورنوجوانوں کوایسے خوفناک طریقے سے ہدف بناتے ہیںکہ خونین مناظر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اگرایسانہ ہوتاتو وردی پوشوں کے ہاتھوںآئے روزکشمیر میں پیش آنے والے والے انسانیت سوز واقعات سے شکم سیر نہ ہونے والی جماعت بی جے پی کے سینئر ممبر پارلیمنٹ مسلم دشمنی کے لئے بدنام سبرامنیم سوامی اہل کشمیرکے حوالے سے یہ ٹوئٹ نہ کرتا کہ ’’وادی کشمیر میں جاری بغاوت کا حل یہ ہے کہ انہیں اسی طرح وہاں سے نکال دیا جائے اور انہیں کچھ برس تامل ناڈو کے فوجی کیمپوں میں رکھا جائے ‘‘ اور نہ بھاجپا سرکارکا اٹارنی جنرل مکل روہتگی ایک کشمیری نوجوان فاروق احمد ڈار کوجیب کے ساتھ باندھ کرگائوں گائوں گھمانے کی فوجی کاروائی کو قابل تعریف عمل قرار دیتااور نہ سنگھی وزیرپرکاش چندرگنگا کشمیر یوں کو کھلی دھمکیاں دیتا۔ اگرچہ روہتگی ،سبرامنیم سوامی اورپرکاش چندر گنگا سمیت پوری سنگھ بردادی اس امرکوخوب جانتی ہے کہ دھمکیوں اور اذیت ناکیوں کے سامنے یہ قوم سرنگوں ہونے والی ہرگزنہیں۔ بایں ہمہ اقس بات میں دورائے نہیں کہ1990سے آج تک کشمیری عوام ایک ایسے فوجی کیمپ میں محصور ہیں کہ جہاں ہر7کشمیریوں کے سروں پرایک مسلح بھارتی فوجی اہلکاربندوق تانے مسلط ہے۔اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ اس عرصے کے دوران انہیں انفرادی اوراجتماعی طورپر ایک کے بعددوسری دھمکی اور توہین کاسامنا ہوتارہا لیکن افسوس کہ اس کے باوجودبھارتی نیتائوں کوتشفی ٔ قلب نہیں ہورہی ۔اس طرح کی کھلی دھمکیوں اور عداوتوں سے زعفرانی مائنڈ سیٹ ذرا کھل کر عیاں ہوتا ہے۔
بی جے پی لیڈرسبرامنیم سوامی کا کشمیریوں سے متعلق زہرآلودہ ٹوئٹ،بی جے پی سرکارکے اٹارنی جنرل روہتگی اورپرکاش چندرگنگاکی یاوہ گوئیوں اور ہرزہ سرائیوںکہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘ ایک ایسے عالم میں یکے بعد دیگرے یہ سارازہراگلاجارہا ہے کہ جب وادی کشمیرکے تمام تعلیمی ادارے فورسزکی بربریت کے خلاف ابل پڑے ۔ وادی کشمیرکے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلباء کی جانب سے یہ احتجاجی مظاہرے فورسزکی جانب سے 15 اپریل کو ڈگری کالج پلوامہ میں طالب علموں کو تختہ مشق بنانے کے خلاف منظم کئے گئے ۔ روہتگی ،سبرامنیم سوامی اورپرکاش چندر گنگا کو چاہیے تھا کہ کشمیریوں کے ہر ے زخم پر پھاہا نہ سہی کم ازکم اپنی زبان پر قفل لگاتے اور زہرآلوددھمکیوں سے اعراض کرتے۔ بہر حال اگرچہ کشمیری مسلمانوں کے لئے یہ سب کوئی غیرمتوقع بات نہیں کیوںکہ وہ بھارت سے اپنابنیادی سلب شدہ حق مانگتے ہیں، اس لئے بالادست قوت ان کے خلاف جوابی کارروائی میں کسی بھی حدتک جاسکتاہے ۔دوئم جلتی پر تیل ڈالنے والے اور دھمکی و ہتک آمیز زبان میں بات کر نے والے سنگھی لیڈروں اس کے سیاسی باس وزیراعظم نریندر مودی بطور وزیراعلیٰ گجرات اکثر کہا کرتے تھے کہ انھوں نے گجرات کا قرض توچکا دیا ہے اب انھیں ملک کاقرض چکانا ہے، تو کیا کشمیریوں کے تئیں ان کی پالیسی وہی قرضہ چکانے والی بات سمجھی جائے گی۔2014ء میں مر کز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی نے ہندو تواوادی طاقتوں کو بے لگام کردیا ہے ،اس لئے تب سے جس کے دل میں جو برسوںتھا، یک بہ یک زبان پرلایا، بلکہ تب سے ہندوانتہاپسند آتشیں بیانات اور اقدامات سے بتارہے ہیں کہ ملک میں جنگل کا راج نافذ ہے ۔ نام نہاد گائو رکشکوں کا ایک پوراگینگ بھارت میں سرگرم ہیں اور مسلمانوں پر حملہ زن ہیں ، ریاسی میں بکروال کنبے سے پیش آیا کا دلدوز واقعہ اسی مہم کا ایک حصہ ہے ۔ بھاجپا ملک کی پہلی بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ کو خوب ہوا دے رہی ہے ۔ کوئی منسٹر کہتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھین لو ، کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان بھیج دیا جائے، کوئی کہتا ہے کہ ان کی گھر واپسی کرائی جائے یعنی انہیں ہندوبنادیاجائے ، کوئی لو جہاد کے راگ الاپتا ہے اور کوئی مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ جتلاتا ہے،کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کو ہندئووں کے رحم وکرم پر جینا ہوگا ، کوئی رام مندر کی مخالفت کرنے والوں کی گردن کاٹ دینے پر مُصر ہے اور کوئی و ندے ماترم نہ گنگنانے والوں کو دھمکاتاہے۔اب سبرامنیم سوامی کشمیریوں کوکشمیرسے بے دخل کرکے انہیں تامل ناڈوں کے فوجی کیمپوں میں منتقل کرنے کی شرمناک تجویز دے رہاہے۔
2014 کا پارلیمانی انتخاب بھارت کی تاریخ کا پہلا ایسا انتخاب تھا جس میں اقتدار میں آنے والی حکمراں جماعت بی جے پی میں ایک بھی مسلمان بطوربی جے پی امیدوارالیکشن نہیں لڑرہا تھا،کیوںکہ بی جے پی نے کسی بھی مسلمان امیدوارکوٹکٹ نہیں دیا تھا۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑسے زائد ہے اس کے باوجود اس وقت بھارتی پارلیمنٹ میں بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی سوائے گانگریس کے ایک دوکے کوئی نہیں کرتاہے۔فروری 2017کے اترپردیش کے الیکشن میں یہ محض اتفاق نہیں تھاکہ بی جے پی نے اترپردیش جیسی ریاست میں جہاں 20 فی صد مسلمان آباد ہیں اورمسلمان ووٹروںکی تعدادچار کروڑ سے زائد ہے ،اس کے باوجود 403 سیٹوںکے لیے ایک بھی مسلمان امیدوار بی جے پی کے پلیٹ فارم سے کھڑانہیں کیااور اب اُترپردیش کے نئے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ رہی سہی کسرنکال رہا ہے۔ دراصل مودی ہوں یا یوگی یا ان کے قبیل کے دیگر لوگ، ان سب کا ہدف اشتعال کی انگیٹھیاں سلگاکر 2019 ء کا پارلیمانی الیکشن جیت جاناہے ۔ اس ساری صورتحال پربھارت کے ایک سابق جج جسٹس سچر کا وہ بیان صادق آتاہے جس میں انہوں نے کہا تھاکہ’’ آر ایس ایس 2019 میں ملک کو ہندو راشٹر بنانے جارہا ہے اور یوگی آدتیہ ناتھ کو اسی مقصد کے تحت اترپردیش کا وزیراعلیٰ بنایا گیا‘‘ ۔
2014 میں جب نریندر مودی نے بھارت کے و زیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا اس وقت سرکردہ ہندوتواوادی لیڈر ا شوک سنگھل نے کہاتھاکہ ہندوستان کو ہزار سال کی غلامی کے بعدپہلا ہندو حکمراں ملا ہے۔اس بیان نے بھارتی مسلمانوں کو نفسیاتی اذیت میں مبتلا کردیا تھا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی بڑے دھوم دھام سے اقتدار میں آئی۔ اب اس ٹولے کی تمام تر توجہ 2019 کے الیکشن پر مرکوز ہے اور کوشش یہ کی جارہی ہے کہ کسی طرح ایک طویل مدت تک اقتدار پر قبضہ جمایا جاسکے تاکہ انڈیا کو ہندوراشٹر بنانے کا منصوبہ تکمیل کوپہنچ جائے جوبی جے پی اورآرایس ایس نے مشترکہ طورپر بہت پہلے سے ترتیب دے رکھا ہے۔ اس وقت بھارتی سینٹرل میں بی جے پی کی حکومت ہے اوربھارتی پارلیمان کے ایوان ذیلی میں اس کو اکثریت حاصل ہے جبکہ ایوان بالاراجیہ سبھا میں اکثریت حاصل ہونے میں ایک سال سے بھی زائد کا عرصہ درکار ہ وگا۔ اس لئے ہندو تووادیوں کے نقطہ نظر سے آئیڈل صورتحال یہ ہے کہ 2019 میں دونوں ایوانوںکے ساتھ ساتھ بھارت بھرکی تمام ریاستوںمیں بھی بی جے پی کی حکمرانی کا جھنڈا لہرایاجائے۔ ایک طرف یہ لوگ اتنی سنجیدگی اورمستعدی سے اپنی منصوبہ بندی کررہے ہیں تو دوسری طرف کشمیر میں ظلم وستم کی بھٹی کومزیدتپاکربھاجپابھارتی عوام کویہ دکھاناچاہتی ہے کہ کشمیر سنگھ پریوار کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتاہے اور اسے بھارت میں ضم یا تحلیل کر کے دم لیا جائے گا ۔
ہفتہ 15؍اپریل کو فورسز کی طرف سے جنوبی کشمیرکے ضلع پلوامہ کے ڈگری کالج پردھاوابولنے،طلباء کوتختہ مشق بنانے اور کم از کم 55طلباء کوزخمی کردینے کے خلاف سوموار17؍اپریل کو کشمیر یونیورسٹی سری نگر اورطول وعرض کے ڈگری کالجزاُبل پڑے ،کشمیر یونیورسٹی سری نگر اورطول وعرض کے ڈگری کالجزمیں زیرتعلیم ہزاروں طلباء وطالبات نے ایک طرف پلوامہ کے زخمی طلبہ سے اظہار یکجہتی کیا اور دوسری طرف وہ کشمیرسے فورسز انخلاء کامطالبہ کررہے ہیں ۔ اس دوران تادم تحریر جگہ جگہ پر انہیںفورسزکی بربریت سامناکرناپڑا اور سینکڑوںطالب علم اور طالبات زخمی پڑے ہیں ، جب کہ بیسیوںکو گرفتار کیا گیا۔ فورسز کا بارباراورلگاتارکشمیریوں پرجبروقہرڈھانااس امرکوواضح کرتا ہے کہ نہتے اور بے بس کشمیری مسلمانوں کو جنگی صورتحال کا سامناہے اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ان کی زندگی اجیرن اور ٹورسٹ سیزن برباد کیا جارہاہے ۔ گزشتہ ایام میں کشمیر یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں زیر تعلیم ہزاروںطلبا اور طالبات نے نسیم باغ سے علامہ اقبال لائبریری تک جلوس نکال کر پلوامہ ڈگر ی کالج میں زیر تعلیم طلباء کو زخمی کرنے کے واقعہ کے خلاف بھر پوراحتجاج کیا۔احتجاجی طلبہ نے ہاتھوں میں پلے کارڈس لئے آزادی کے حق میںنعرے بلند کرتے ہوئے پلوامہ واقعہ کی مذمت کی اور ملوثین کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ سری نگر کے قلب میں واقع ایس پی کالج، ایس پی ہائر سیکنڈری اسکول اور مولانا آزاد زنانہ کالج سرینگر کے طلبہ وطالبات بھی پلوامہ کالج میں زخمی ہونے والے طلباء کے ساتھ کئی دن تک یکجہتی کا اظہار کرتے رہے ۔کالج احاطے میں جمع ہوکرانہوں نے نعرہ بازی کی توفورسز ان پر بلاوجہ ٹوٹ پڑی ۔ فورسزنے مظاہرین پرزبردست شلنگ کی بلکہ کالج میں داخل ہوکر احتجاجی مظاہرین کی پکڑ دھکڑ کرکے انہیں جیلوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی لیکن طلباء نے وردی پوشوں پرسنگباری کی۔ایس پی کالج سری نگر جیسی صورتحال سری نگر اوروادی کشمیرکے دوسرے بڑے کالجزاسلامیہ کالج ،گاندھی کالج ،وومن کالج ، امرسنگھ کالج میں تھی ۔ان تمام کالجزکے طلباء وطالبات نے مشترکہ طور فورسزکی بربریت کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ ڈگری کالج گاندربل ، ڈگری کالج کنگن،ڈگری کالج بڈگام ، ڈگری کالج بیروہ،ڈگری کالج سوپور، ڈگری کالج بارہمولہ، وومنزکالج بارہمولہ ، ڈگری کالج پٹن ، ڈگری کالج ٹنگرگ، ڈگری کالج بانڈی پورہ ، ڈگری کالج سمبل،ڈگری کالج ہندوارہ اور کپوارہ ، ڈگری کالج اسلام آباد، ڈگری کالج ڈورو ، ڈگری کالج شوپیاں ،ڈگری کالج پلوامہ ،ڈگری کال ترال کے طلبہ نے بھی،پلوامہ کالج پرفورسزکے بربریت کے خلاف احتجاج کیا ۔ وقت گذرتے فورسزکی بربریت جس خوفناک عنوان سے کشمیر میں اپنے مہیب سائے پھیلا رہی ہے ، کشمیرکی ہرشئے اس کی لپیٹ میں آرہی ہے۔ ناقدین کہتے ہیں یہ اجیت ڈول کی ڈاکٹرئین ہے جس پر گزشتہ سال جولائی سے عمل درآمد ہورہاہے ۔ ادھر سوشل میڈیا پر فوجی بربریت اورظلم وجبرکی ویڈیو کلپوں سے اس پرمزیدکسی گواہی کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس تناظر میںروہتگی ،سبرامنیم سوامی اورپرکاش چندر گنگا یابی جے پی حکومت کے وزراء اور نیتاؤں کی جانب سے ایسی اشتعال انگیز بیان بازیاں ہو رہی ہیںجو کشمیرکے حوالے سے دلی کی متشددانہ طرزعمل کوعریاں کررہی ہے۔ بایں ہمہ کشمیرمیں بھارتی لوک سبھاکے ضمنی الیکشن ڈرامے کے حوالے سے دلی سے سری نگرتک کی تمام کوششوں کے باوجود کم ترین پولنگ کی شرح نے دلی کے تمام دعوئوں کی قلعی کھلول کر دی کہ کشمیر میں معمول کے حالات بحال ہوئے ہیں۔ سری نگر کی پارلیمانی نشست پر الیکشن حامی بھارت نوازوں کی درگت جب منظر عام پر آگئی تو بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے ایک سال کی مدت مانگی ہے جس کے دوران کشمیر کسی جادوئی چھڑی کو گھمانے سے نارمل ہوجائے گا ۔ محبوبہ مفتی نے اس مدت کو گھٹا کر اب تین مہینے کر دیا مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے منصفانہ، مخلصانہ اور مذاکارتی حل تک کشمیر کا غم وغصہ کبھی ٹھنڈا پڑنا بعید از عقل و امکان ہے ۔ کشمیرمیں حالیہ الیکشن ڈرامے نے سنجیدہ ،فہمیدہ سلجھے اورغیر جانبدارانہ سوچ رکھنے والے طبقات کو اس صورتحال پر مثبت انداز میں سوچنے کی تحریک عطا کی ہے اور دنیاپھرمیں یہ مثبت سوچ ابھررہی ہے جوکشمیر حوالے سے انسانیت کو شرمسار کرنے والی اغیار کی پالیسی اور سوچ کا دفاع ہرگز نہیں کیا جاسکتا بلکہ دلی کو دیر سویر کشمیر حل کے لئے سنجیدہ اور قابل بھروسہ مذ اکراتی پہل کر ناہوگی اور بس۔
جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
طول غم حیات سے نہ گھبرا ،اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو