بے شک بادِ نو بہار کے آنے سے گلوں میں کیسے کیسے رنگ بھر جاتے ہیں۔گل تو گلاب کو ہی کہتے ہیں جو زیادہ پسندیدہ ہے اور اسکا سرخ رنگ ہی زیادہ دل کو موہ لینے والا ہے۔
ہمار ے کشمیر کے گلوں میں بھی تو یہی رنگ بھر دیا گیا ہے ۔وہ لعل ،وہ پھول،وہ کلیاں ،وہ گلاب اب صرف اور صرف لال رنگ میں ہی کھلتے ہیں۔یہاں کے جوان،بچے ،لڑکیاں لڑکے،سب ہی تو لال رنگ میں رنگے ہیں۔ کسی کی آنکھیں لال لہو تو کسی کا سینہ لہو لال۔اب تو یہاں کے پتوں کا رنگ بھی لال ہونے لگا ہے۔دریاؤں،آبشاروں،جھیلوں،ندی نالوں میں لال رنگ کا خون بہتا ہوا نظر آتا ہے۔آسمان نے برسنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ اس میں ایک ہی رنگ ہے وہ سفیدہے۔اور وہ سفید رنگ برسنا نہیں چاہتا ہے۔
نو بہار کی بادِنو جب آتی ہے تو کیا پیغام لے کر آتی ہے؟بہار کی خوشیاں،خوشیوں کے پیغام لے کر آتی ہے مگر کشمیر میں بہار کے ساتھ بادِ نویہاں کے گلوں اور کلیوں کے لئے موت کا پیغام لے کر آئی ہے۔یہاں کے اس باد ِنو میں زہر گھول دیا گیا ہے۔جو شخص سانس بھی لیتا ہے تو زہر نگل جاتا ہے۔یہ بادِنو نہیں زہرِنو ہے(پاوا،پپر،پیلٹ،گولی،بم ،دھماکہ)
یہاں کی مائیں خون کے آنسو روتی ہیں۔اُن کی آنکھوں کی پتلیاں اُن کے لعل،اُن کی آنکھوں کے نور ،لال لال رنگ کفن میں لپٹ کرزندگی اور خوشیوں کو خیرباد کرکے چلے گئے ہیں۔یہاں کے بوڑھے باپ یعقوبؑ کی طرح اپنے لاڈلوں کے انتظار میں اندھے ہوگئے ہیں کہ اُن کے یوسفوں کو بھی قید خانوں میں ڈالا گیا ہے اور یعقوبوں کو ان کی کوئی خبر نہیں کہ کس حال میں ہیں۔ اندھے کی لاٹھی تو اس کے بااولادہوتی ہیںمگر ان کے بیٹے کہاں کس حال میں مر رہے ہیں ،ان بے چاروں بے نواؤںکو یہ بھی خبر نہیں۔
یہاں تو بہنوں نے سنگھار کرنا چھوڑ دیا۔ان کی کلائیوں میں اب چوڑیاں نہیں کھنکتی ہیںکیونکہ انہوں نے اب سفید رنگ کے لباس پہن لئے ہیں۔ان کے شوہروں کو یا تو بے نام قبروں کے اندر سلا دیا گیا ہے یا ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔معصوموں نے کھلونے مانگنا ہی ترک دیا۔وہ گڑا گڑی کے کھیل سے نا واقف ہیں۔انہوں نے سکون،امن اور چین دیکھا ہی نہیںبلکہ مار دھاڈ،گولی بم پیلٹ ہی دیکھ لئے ہیں ۔انہوں نے ماں کی لوری کی جگہ بموں کی اور گولیوں کا شور وغوغا سناہے ۔ انہوں نے کبھی کھیل نہیں کھیلا ہے کیونکہ ان کی زندگیوں سے وقت کے راؤنوں وہ کھیل کھیلا کہ اب بلے اور گیند سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ان کو مٹی کے کھلونے سمجھ کر روند ڈالا گیا ہے۔ان کو یتیم اور بے آسرا کر کے زندگی کی شاہراہ پر اوندھے منہ پھینکا گیا۔
یہاں کی کلیاں چٹکتی نہیں بلکہ ان کو کھلنے سے پہلے روندا جاتا ہے۔ان کی چٹک تو شبنم بھی نہیں دیکھتی۔ جانے کن خارزاروںں میں آنسو بہاتی ہیں؟ جانے کن پیروں تلے کچلی جاتی ہیں۔ ایسے میں کسیی راکھشس کی ندا سنائی دے ع
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
ہممیں سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔گلشن کا کاروبار تو تب بھی چلے گا،کبھی رُکے گا نہیں، چاہے گلابوںسے خون رسنے لگے ،چاہے خون کی لالی ہر شگوفے کو پژمردہ کر ڈالے، چاہے کلیاں روندھی جائیں، زمانے کے یعقوب چاہے اندھے ہو جائیں، دہر کے یوسف چاہے وقت سے پہلے ہی اسارت میں مرجھا جائیں ، وطن کے لخت ہائے جگر چاہے کچل دئےجائیں۔۔۔میرے محبوب !تم تو آجاؤ، کچھ بھی ہو گلشن کا کاروبار تو چلے گا،کبھی تھمے گا نہیں۔ چلو ہم اپنا الیکشن کرتے ہیں۔ دل فگاروں ووٹ ڈالیں نہ ڈالیں، غم کے گھنے بادلوں کی ان دیکھی ، درد کے دریا کی چیخ و پکار کی اَن سنی کر کے ہم دودن کی عیاشی کا سامان کر لیتے ہیں۔ اپنے محلات اور بنگلے بناتے ہیں۔ تکلیفوں کی آہ وبُکا نہ سنتے ہوئے ہر تکلیف کی کوکھ سے اپناالو سیدھا کرتے ہیں۔شادیانے بجاتے ہیں ، پارٹیاں مناتے ہیں۔یہی تو گلشن کا کاروبار ہے۔ یہی تو ہمارا آبائی دستور ، اپنے کشمیر کو برے سے برے دن دیکھنے کو ملیں ، ہماراکاروبارِجہان سازی وعیاشی بند تو نہ ہو۔