سرینگر// رواں ماہ کی 9 تاریخ کو جب سرینگر بڈگام میں ضمنی پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ ہورہی تھی کے دوران 7نوجوانوں کی موت نے شمال و جنوب میں غم و اندوہ بپا کیا ۔اسی دن کاوسہ ماگام کے 17 سالہ عادل فارق شیخ نامی نوجوان بھی فورسز کی جانب سے چلائے گئے چھروں کا نشانہ بنا اور سرینگر لے جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاکر دم تھوڑ بیٹھا ۔ علاقہ میں لوگوں خوف و دہشت میں پڑ گئے اور عادل کے گھر والوں پر مصیبت اور غموں کا ایسا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ جسکا بوجھ اسکے اہل خانہ شاید ہی برداشت کرسکیں ۔ اہلِ خانہ غموں کے پہاڑ سے ابھرنے کی ہی کوشش میں تھے،کہ اپنے لخت ِ جگر کے بارہویں جماعت کے نتائج اسکے والدین پر کرب و آنسو کا ایک اور سمندر چھوڑ گئے۔انکے ایک نزدیکی رشتہ دار نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ عادل کو گھر والوں نے پچھلے سال حالات کے بگڑ جانے کے ساتھ ہی اپنے ننیہال واقع چٹابُگ نامی گاوں بھیجا تھا ۔ عادل اپنا سیلبس مکمل نہیں کر پایا تھا اور اسی لئے اس نے مارچ ماہ میں امتحانات میں بیٹھنے کا فیصلہ اور سرما کے دنوں اس نے اچھی خاصی محنت کی تھی لیکن وہ بیالیوجی سبجیکٹ میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے اور محظ دو نمبرات سے وہ اس سبجیکٹ میں پاس ہونے سے رہ گئے لیکن عادل کے گھر والوں کے بقول انکا بیٹا دوسرے موقعے پر یہ سبجیکٹ پاس کرلیتا اگر وہ زندہ ہوتا ، انکے مطابق عادل کو تو اپنے نتائج دیکھنے کا موقع نہ ملا پھر سے یہ سبجیکٹ پاس کرنے کی تو دو ر کی بات ہے۔گھر والوں کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے بچے پر فخر تھا اور اس میں انہوں نے زندگی کے کئی حسین خواب پِروئے تھے لیکن بد قسمتی کے سبب ان سبھی حسین خوابوں کوگولیوں اور پیلٹ چھروں نے چکنا چور کردیا۔