عالم اسلام ا ور عالمی امن ایک ایسا موضوع ہے جس میں دنیا بھر میں بحث جاری ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ اِس موضوع پہ جو کتابیں رقم ہو رہی ہیں جو مقالات لکھے جا رہے ہیں ،عالمی محفلوں میں جتنا تذکرہ ہو رہا ہے شاید ہی کسی اور موضوع نے اِس حد تک توجہ مرکوز کی ہو۔عصر رواں میںعالمی امن کے قیام میں جو مشکلات در پیش ہیں ،اُس کے بارے میں اکثر و بیشتر مسلم انتہا پسندی کو مورد الزام قرار دیا جا تا ہے اور کبھی کبھی تہذیبوں کے تصادم کا عنواں دیا جا تا ہے۔ جہاں تک مسلم انتہا پسندی کا تعلق ہے اُسے گہرائی میں جانچا جائے تو بھی اہل مغرب خاص کر امریکہ کی عالمی سازشوں کا شاخسانہ ہے جہاں جہاد افغانستان کے دوران اپنے عالمی حریف سوؤیت یونین کو نیچا دکھانے کے لئے امریکہ نے پاکستان اور سعودی عربیہ کی وساطت سے مسلمین کے صفوں کی ترتیب اپنے عالمی اہداف پورے کرنے کیلئے دی۔بعد ازیں جب کچھ مسلم تنظیمیں امریکی عالمی احداف کے خلاف ہو گئیں تو مسلم انتہا پسندی کا عنواں عالمی سیاست پہ چھانے لگا۔اِسی کے ساتھ عالمی امن کو منتشر کرنے کا الزام بھی مسلم تنظیموں پہ لگنے لگا۔یہ بھی کہا جانے لگا کہ گر چہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہی نکل آتا ہے۔ چونکہ عالمی مطبوعاتی اداروں پہ اُنہی منفی قوتوں کا ہاتھ ہے جو مسلمین پر الزامات لگانے سے نہیں تھکتے، اس لئے ان عالمی قوتوں کی بات بے چوں و چرا مانی جاتی ہے۔
عصرحاضر میں تہذیبوں کے تصادم کے بارے میںبہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن اِن رقم شدہ تحریروں میں حالیہ کچھ برسوں میں سموئیل ہن ٹنگٹن کی تصنیف تہذیبوں کا تصادم[Clash of Civilizations:Samuel P Huntington]سب سے زیادہ موضوع بحث بنی رہی ہے۔مصنف کا یہ دعوہ کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم نا گزیر ہے گر چہ نیا نہیں البتہ تصنیف ایک ایسے زمانے میں رقم ہوئی جبکہ مسلمین کے احیای نو کی کئی تحریکوں نے جنم لیا ہے ۔بر خلاف اینکہ اُسے منجانب مسلمین عالمی محفلوں میں اپنا مناسب مقام تلاش کرنے کی سعی مانا جائے اِسے ایک اور ہی عنواں دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمین عالم اپنے شاندار ماضی کی باز یافت میں یا ایسا کہیں ماضی کے اُس دور کو منظر عام پہ واپس لانے کی تلاش میں ہیں جبکہ مسلمین کا اقوام عالم میں افضل ترین مقام تھا۔ہن ٹنگٹن کی طرح کئی اور مغرب کے اہل قلم و دانش مغربی دنیا کو خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ اِس سے پہلے ایسا اتفاق پیش آئے اُس کے تدارک کی اُس کو روکنے کی حتّی المکان سعی کی جانی چاہیے۔
عالم اسلام میں مسلمین کے لئے ہدایت کا منبع جہاں قران کریم ہے وہی آنحضورؐ کا اسوۂ حسنہ مشعل راہ ہے۔قران کریم میں مسلمین کو امت وسط کہا گیا ہے، بنابریں کسی بھی جہت کی شدت پسندی مسلمین پر ممنوع قرار دی گئی ۔ ثانیاََ آنحضورؐ کا اسوہ حسنہ افہام و تفہیم کی تعلیم دیتا ہے ثالثاََ کسی بھی بے گناہ کے قتل کو اسلام میں انسانیت کا قتل مانا گیا ہے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ کسی بھی دہشت گرد حملے میں بے گناہوں کے قتل کی مذمت جہاں دنیا بھر میں ہوتی ہے، وہیں مسلمین کی اکثریت مطلق اُس کی مذمت کرتی ہے چاہے وہ مملکتی طور پہ ہو جماعتی طور پہ ہو یا انفرادی طور پہ لیکن پھر بھی مسلمین کی یہ مذامت ظاہر داری مانی جاتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ سب ہی مسلمین کو ایک ہی پلڑے میں جانچا جا تا ہے۔عالمی مطبوعاتی اداروں کی یلغار میں مسلمین کی آواز دب کے رہ جاتی ہے۔یہ سلسلہ گر چہ کئی دَہائیوں سے جاری ہے لیکن امریکہ میں جو دلدوز واقعات 21ویں صدی کی شروعاتی سالوں (2001) میں 9/11 کو پیش آئے اُس کے رد عمل میں عالم اسلام پہ ایک قیامت ٹوٹ پڑی جس کا اثرات نمایاں ہیں ۔امریکہ کی رہبری میں مغرب کا یہ رد عمل اُنہی تنظیموں تک محدود رہتا جو شدت پسندی کی لسٹ میں آتی تھیں تو شاید اُسے حق بجانب ماننے کی گنجائش رہتی لیکن اِس رد عمل کی لپیٹ میں سارا عالم اسلام آ گیا ہے ۔دجلہ و عرفات کے آبی راہگذروں سے شام کے سبزہ زاروں سے لے کے لیبیا کے ریگزاروں تک ایک ایسی آگ لگی ہوئی ہے جو کہیں بھی بجھتی نظر نہیں آتی ۔اِس خونریز تصادم کے ابتدائی سالوں میں یہ بھی سننے کو ملا کہ مشرق وسطی میں ایک جمہوری نظام کے قیام کی اشد ضرورت ہے لیکن بہ گذشت زماں یہ حقیقت ظاہر ہونے لگی کہ یہ صرف و صرف ساحر مغرب کی عیاری پہ مبنی ایک خالی خولی نعرہ تھا اور حقیقت یہی رہی کہ عالم اسلام کے توانائی کے ذخائر پر مغرب کے تسلط کو قائم رکھا جائے۔
مسلمین کے سنہری دور کی سیاسی اہمیت و فوجی حیثیت کھونے کے بعد پچھلی کئی صدیوں سے مسلمین میں وہ دم نہیں رہا کہ وہ اپنے اساسوں کا تحفظ کر سکیں اور اِن میں جیسا کہ ظاہر ہے توانائی کا تحفظ شامل ہے جو کہ عالم اسلام میں فراواں تو ہے البتہ اُس کے تحفظ کی مسلمین کی منجملہ حالت و حثیت در حال حاضر متحمل نہیں ہو سکتی ۔مسلمین کے پاس توانائی کے بیشمار ذخائر ہونے کے باوجود اُن کا شمار کسی قطار میں نہیںبلکہ سچ تو یہ ہے کہ عالمی سیاست میں مسلمین کے لئے کوئی با اثر رول دیکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ تقدیر امم کا وہ راز جاننے و سمجھنے سے وہ قاصر ہیں جس کی نشاندہی علامہ اقبال ؒ کر چکے ہیں ؎
میں تم کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
شمشیر و سناں کا یہ مطلب نہیں کہ ہر آں دست بہ شمشیر رہے بلکہ یہ ہے کہ اقوام کے تحفظ کیلئے ہر وہ امکان مد نظر رکھا جائے جو ضروری ہو اور اُس پہ بر وقت عمل کرنے میں ہی قوموں کی سلامتی کا را ز مضمر ہے۔شمشیر و سناں کی جگہ سیاسی و فوجی تحفظ کو یقینی بنانے کے بجائے مسلمین نے مدت دراز سے طاوس و رباب کو چن لیا ہے جہاں روپے پیسے کی ریل پیل تو ہے البتہ تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔مسلمین کا عالم امن کی بر قراری میں کوئی رول در حال حاظر ہو نظر تو نہیں آتا البتہ رول کیا ہونا چاہیے اور ایک بااثر رول ادا کرنے کیلئے مسلمین کو کیا کچھ کرنا پڑے گایہ موضوع فکر انگیز ہے۔جہاں تک عالمی امن کو در پیش چلینج کی بات ہے تو اِس میں سر فہرست توانائی کی فراہمی ہے ۔ مشرق وسطی میں جنگ جاری رکھنے کی وجہ توانائی کے ذخائر کی آساں فراہمی کو یقینی بنانا ہے ۔پچھلے کئی سالوں سے جنگی کیفیت ہونے کے باوجود پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل کمی اِس کا عیاں ثبوت ہے۔جہاں ہر جنس کی قیمت رو بہ افزائش ہے وہاں پٹرول کی گرتی قیمتیں اچھنبے کا باعث ہے ۔ عالم اسلام کے توانائی کے ذخائر ہیں غیروں کے شکنجے میں ہیں۔ 20ویں صدی کی شروعات میں علامہ ا قبال ؒ کی وہ دعا قبول ہوئی جو اُنہوں نے بہ حق مسلمین کی تھی ؎
تری قدرت کی نہ کوئی حد نہ حساب
تو جو چاہے تو سیلی زدہ ہو موج سراب
موج سراب پٹرول کی شکل میں جسے کالا سونا بھی کہا جاتا ہے سیلی زدہ ہونے لگی ۔عرب کے صحراؤں میں خلیج کے ساحلی علاقوں میں اعراب مالا مال ہونے لگے ۔ ابتدائی تحقیقات میں جونہی غربی دنیا کو یہ پتہ چلا کہ تیل کے وسیع ذخیرے اسلامی دنیا کے ممالک میں موجود ہیں تب ہی بین المسلمین تفرقہ اندازی کی سازشوں کے تانے بانے غربی دنیا کے جاسوسی اداروں نے بننے شروع کیا ۔لارنس آف عربیہ جن کا شمار برطانیہ کے معروف ترین جاسوسوں میں ہوتا ہے اورجان گلب جنہیں گلب پاشا کہا جاتا تھا جیسے افراد نے اِس میں کلیدی رول انجام دیا۔1922ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا البتہ اُس سے پہلے خلافت کے وزیر طلعت نے فلسطینی منڈیٹ کیلئے راہ بنائی تھی جس کی حمایت شریف مکہ حسین نے کی جس کے صلحہ میں اِس مکی خاندان کو اردن اور عراق کی حکومت نصیب ہوئی۔ منڈیٹ میں فلسطین کے جملہ اختیارات تاج برطانیہ کو حاصل ہوئے ۔منڈیٹ کا اصلی حدف، مدعا و مقصد یورپی یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری تھی اور1917ٗء کے بالفور اعلانیہ (Balfour Declaration)میں برطانوی وزیر بالفور نے یہودی آباد کاری کو ممکن بنایا اوریہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اعلانیہ کی اطلاع راتھ چائلڈ خاندان کو دی گئی ۔ راتھ چائلڈ خاندان یہودیوں میں امیر ترین مانا جاتا ہے جس کی خاندانی شاخیں یورپ کے اعلی ترین ممالک میں پھیلی ہوئیں تھیں۔ 1947ء میںآباد کاری نے یہودی ریاست اسرائیل کی شکل لیاور فلسطنیوں کا انخلاعملایا گیا اور عالم اسلام کے قلب میں آج تک اسرائیل ایک خنجر کی شکل لئے موجود ہے۔یہودی ریاست کے قیام کا ہدف ہی یہی تھا کہ عالم اسلام کے رول کو عالمی محفلوں میں اِس حد تک سمیٹا جائے کہ مسلمین کے لئے کوئی بھی رول نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔
اقتصادی ذخائر کی اِس وسیع دریافت سے مسلمین کیلئے وسیع تر عالمی رول کی جگہ بن سکتی تھی بشرطیکہ ترجیحات کا تعین احسن طریقے سے ہونے کی راہ ڈھونڈھی جاتی ۔اِس میں پہلے دقت یہ رہی کہ تیل سے مالا مالا اسلامی ممالک اِس دولت کو غریب مسلم ممالک کے ساتھ بانٹنے کیلئے تیار نہیں ہوئے ۔تیل سے مالامال خلیجی ممالک و شمالی افریقائی ملک لیبیا جو کہ لسانی اعتبار سے غربی عرب ہے ،مصر ،شام ، اردن و ٹیونس جیسے ممالک کو معمولی امداد کے بغیر وہ امداد فراہم نہ کر سکے جس کی امید روا رکھی جا سکتی تھی ۔اتفاقاََ اِن ممالک میں گر چہ اقتصادی پسماندگی تھی اور اب بھی ہے البتہ وہ خلیجی ممالک سے تعلیم میں پیشرفتہ تر تھے جبکہ مجموعی طور پہ مسلمین عالم کی تعلیمی صلاحیت کافی پسماندہ ہے ۔اسلامی ممالک کے باسواد افراد کی کمی مسلمین عالم کا سب سے بڑا المیہ ہے اور ایمان قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا حصول مسلمین کی اہم ترین ضرورت ہے اور اِس ضمن میں آنحضورؐ کے اسوہ حسنہ پہ عمل کا فقدان صاف نظر آ رہا تھا ۔آپ نے تعلیم کے حصول پہ جو اصرار کیا وہ جمع مسلمین کے مد نظر رہتا تو اُن کی حثیت اتنی خستہ نہ ہوتی جتنی کہ صاف نظر آ رہی ہے۔عالمی امن کی بر قراری میں مسلمین تب ہی اپنا رول نبھا سکتے ہیں جب اُن میں تکنیکی اعتبار سے اتنی صلاحیت آ سکے جہاں اپنے اساسوں کو چرخانے کے لئے خارجی طاقتوں کے مرہون منت نہ رہیں۔مسلمین کے پاس توانائی کے ذخائر تیل و گیس کی صورت میں میسر ہیں لیکن تیل کی صنعت کو چرخانے کیلئے جو فنی صلاحیت ہونی چاہیے اُسکا فقدان واضح ہے ۔اِس صنعت کے تین اہم پہلو ہیں ایک تو موجودہ کنوں سے تیل کا ستخراج ثانیاََ نئے کنوں کی تلاش ثالثاََ عالمی بازار میں تیل کی فروخت سے متعلق مسائل جہاں تولید اتنی ہی ہونی چاہیے جس سے قیمتیں متوازن رہیں جبکہ کئی سالوں سے تولید ضرورت سے زیادہ ہے جس سے قیمتیں گرتی ہیں ۔تولید زیادہ ہونے کا سبب تیل کی صنعت میں غنی مسلم ممالک میں عدم ہم آہنگی ہے ۔
مسلم ممالک کی عالمی تنظیم موتمر عالم اسلام کو خالی خولی قرادادیں پاس کرنے کی تنظیم کے بجائے ایک فعال و متحد و سرگرم سیاسی وسفارتی محاز بنانا امر مہم ہے تاکہ یہ مسلمین کا ایک متحدہ ادارہ بن جائے ۔اِس کے علاوہ نا خواندگی مسلمین کی ایک واضح کمزوری ہے۔یہ ایک ایسا ضعف ہے جس سے مسلمین کی عالمی حیثیت متاثر ہو گئی، لہٰذامسلم ممالک میں تعلیم کا فروغ ایک منصوبہ بند طریقے سے ہونا چاہیے جس میں سرمایہ کاری مسلمین عالم کا ہدفِ اول ہونا چاہیے ،ثانیاََسائنسی تحقیقات کیلئے سرمایہ کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ تکنیکی صلاحیت رو بہ افزائش رہے ثالثاََعمرانیات سوشل سائنسز کا فروغ انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاکہ سیاسیات،اقتصایات ،عالمی تعلقات کے علوم میںفروغ حاصل ہو سکے۔اِس کے علاوہ سیاسی و فوجی تحفظات کا حصول ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔فہرست بے شک لمبی ہے لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں چونکہ غیر ازیں مسلمین اُسی ضعف سے دوچار رہیں گے جو عصر حاضر میں اُن کی شناخت بن چکی ہے۔
Feedback on: [email protected]