سرینگر// آج چھاتی کے مہلک مرض دمہ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں 33فیصد آبادی مختلف الرجی کی شکار ہوگئی ہے جو مذکورہ مریضوں کی زندگی کے دوران کبھی بھی دمے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں دمے کی سب سے بڑی وجہ جراحی کے ذرےعے بچوں کی پیدائش اور ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ہلدی سے ہونے والی الرجی سب سے زیادہ پائی جاتی ہے جبکہ چنار، سفیدے اور دیگر ماحول سے منسلک الرجی بھی موجود ہے جو زندگی میں کسی بھی وقت دمے کی وجہ بن سکتی ہے ۔ کشمیر میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور جراحی کے ذرےعے بچوں کی پیدائش اور ماحول سے منسلک الرجیوں کو عام شہریوں کیلئے خطر ناک قرار دیتے ہوئے صدر اسپتال سرینگر کے سینئر ڈاکٹر غلام حسن کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارت سے زیادہ دمے کے مریض موجود ہیں کیونکہ وادی کی 33فیصد آبادی مختلف اقسام کی الرجی میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں چھوٹی عمر کے لوگوں میں الرجی کی سب سے بڑی وجہ جراحی کے ذرےعے بچوں کا جنم ہے۔ ڈاکٹر غلام حسن نے کہا کہ جب بچہ قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے تو وہ جسم کے مختلف مدافعتی نظام سے ہوکر گزرتا ہے مگر جراحی سے جنم لینے والے بچوں کے مدافعتی نظام کمزور رہ جاتے ہیں اور جراحی کے ذرےعے جنم لینے والا بچہ زندگی میں کبھی نہ کبھی پہلے الرجی اور پھر دمے کا شکار ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر ڈار نے بتایا کہ بڑے لوگوں میں الرجی کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا ماحول بہت زیادہ آلودہ ہے اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے کافی لوگ پہلے الرجی اور پھر دمے کے شکار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ چنار اور سفیدے سے ہونے والی الرجی کے کئی مریضوں میں دمے کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ بیماریاں صرف کسی مخصوص جگہ پر لگ جاتی ہیں اور کشمیر میں یہ بیماری ہلدی کے استعمال سے ہونے والی الرجی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امسال ابتک 1150 الرجی کے مریضوں کو دیکھا گیا ہے جن میں 700مریضوں میں ہلدی سے پیدا ہونے والی مخصوص الرجی پائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں الرجی کے مریضوں میں 70فیصد لوگ ہلدی کی الرجی کے شکار ہیں ۔ ڈاکٹر ڈار نے بتایا کہ الرجی کی بیماری کو قابو کرنے سے دمے کی بیماری کو کافی حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجود دور میں الرجی کا علاج ممکن ہے، جدید دور میں خون کے ایک تشخیصی ٹیسٹ سے واضح ہوجاتا ہے کہ مریض کس قسم کی الرجی کا شکار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الرجی کیلئے دو قسم کے علاج دستیاب ہیں اور وہ ادویات کے ذرےعے علاج اور دوسرے قسم کے علاج کو Immune therapyکہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادویات کے ذرےعے علاج کافی مہنگا اور کافی دیر تک جاری رکھنا پڑتا ہے جبکہ Immune therapyابتک 300مریضوں میں استعمال کی گئی ہے اور تمام مریضوں میں علاج کارگر ثابت ہوا ہے۔ سرینگر کے جے وی سی اسپتال میں چھاتی کے امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر رمیز میر نے بتایا کہ اوپی ڈی میں آنے والے ہر 100مریضوں میں 25مریض دمے کی بیماری کی شکار ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دمے کے مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ الرجی کے مریضوں میں بیداری کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الرجی ہونے سے دمے تک مریضوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بیماری کے شکار ہیں ۔ سی ڈی اسپتال سرینگر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ او پی ڈی میں آنے والے مریضوں میں 20فیصد لوگ دمے کے شکار ہوتے ہیں۔