Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں! قسط60

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 5, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
20 Min Read
SHARE
  مسجد حرام کے اس شاندار کتب خانے میںیہ سوچ کر دل رنجیدہ اور جگر پاش پاش ہوتا ہے کہ مغرب کے کینہ ور اور مشرق میں ان کے پیادے اور دُم چھلے آج اسلام کو دقیانوسیت سے تعبیر کر رہے ہیں اور ہمیں من حیث الامت علم کے دشمن ، عقل ودانش کے حریف ، آگہی کے رقیب، ناخواندگی کے دلدادے ، فرسودگی کے پتلے، ذوقِ تحقیق سے خالی، شوقِ جستجو سے تہی دامن، سائنس میں پسماندہ، ٹیکنالوجی میںصدیوں پیچھے قرار دے رہے ہیں۔ یہ ہمارے حال کی تصویر کشی ہے یا نہیں، اس بحث سے صرف نظر  کر تے ہوئے یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ امر واقع یہ ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں اُمت مسلمہ بہت پیچھے ہے مگر ہمار ادرخشندہ ماضی کینہ وران ِمغرب کی ان دشنام طرازیوں پر ماتھا پیٹتے ہوئے چیختا چلّاتاہے کہ یہی وہ اُ مت ہے جس نے اقراء کی ندائے رُبانی سن کر علم کی کدال اور عمل کا پھاوڑا ہاتھ میں لئے جہل و لاعلمیت کے کوہ وجبل پاش پاش کئے، یہی وہ قوم ہے جو علم کی سرپرست اور آگہی کی متوالی تھی ، یہی وہ ملت ہے جودانائی کو مومن کی گم گشتہ متاع جان کر اس کے حصول میں سراپا تحقیق و جستجو رہی ، یہی وہ لوگ ہیں جنہوںنے’’ اے اللہ! میرے علم میں اضافہ کر‘‘(سورہ۲۰:۱۴۴) کی تین لفظی دعا کو ہمیشہ التجا ، تڑپ ، تمنا اور آرزو کی جھولی بناکر اسے معلم حقیقی کے سامنے پھیلایا کہ علم کے دشت اور عرفان کے سمندر پارکئے، حکمت کے موتی بکھیرے ،علم دوستی کی قندیلیں روشن کیں، تحقیق و تجسس کی آنچ بڑھادی اور دنیا کو مقامِ حسنہ بنانے کا عزم بالجزم کیا۔ افسوس آج ہمیں دیارِ مغرب کے رہنے والے خون کے یہ سوداگر  طعنے دیتے ہیں مسلمانو!تم عقل سے بیزار ، فہم سے عاری، تہذیب سے دور، جدیدیت کے باغی ہو، دہشت اور وحشت کے رسیا ہو ۔ یہ سراسران کا تعصب وعناد کا اندھا پن ہے۔ حق یہ ہے کہ ہم میں لاکھ برائیاں اور کروڑوں عیوب ہی سہی مگر اللہ کی اس چہیتی آخری اُمت میں خرابی ٔ بسیار کے باوجود یہ حدیث ِر سول ؐ (اس کی ثقاہت میں بعض علمائے حدیث کلام کی گنجائش پاتے ہیں ) آج بھی زبان زد عام ہے کہ’’علم سیکھو بھلے ہی اس کے لئے چین جانا پڑے ‘‘ ۔ چودہ سو برس قبل کی دنیا میں حصولِ علم کا حکمِ پیغمبرؐ  اور وہ بھی عرب دنیا سے بہت دور چین کی سرزمین سے ! ذرا سوچئے ،اول عرب ایشیا ء کے انتہائی مغرب میں اور چین انتہائی مشرق میں ہے اور دوم زمانہ بحری سفر ، اونٹ ، گھوڑے ، بیل گاڑی یا پیدل مارچ کا  مگر رسول اکرم ؐ نے مسلمانوں کو دیناوی علوم وفنون سیکھنے کے لئے چین تک جانے کی ترغیب دلائی ۔ مسعودی اس بارے میں’’مروج الذہب‘‘ میں بعض گتھیاںسلجھا کر لکھتا ہے کہ ماقبل اسلام چینی تاجر سمندری راستے عمان سے ہوتے ہوئے بصرہ تک کاروبار کے سلسلے میں آتے جاتے ،اس لئے عرب اور چینی باہم دگر نامانوس تھے نہ اجنبی۔ محمد بن حبیب البغدادی اپنی کتاب ’’المحبر‘‘ میں کہتا ہے کہ عمان کی بندرگاہ دباکے مقام پر ایک سالانہ عالمی تجارتی میلہ لگتا جس میںبحری جہازوں کے ذریعے چینی تاجرین کے قافلے بھی آتے اور ایرانی بھی ،ہندی بھی آتے اور سندھی بھی، شرق کے بھی آتے اور غرب کے بھی۔ ایام ِ رفتہ کی ان معلومات کو ملحوظ نظر رکھ کر جب ہم مسند احمد بن حنبل ؒ کی یہ روایت پڑھتے ہیں کہ قبیلہ عبدالقیس جو بحرین وعمان میں اقامت پذیر تھا ، کے بعض لوگ اسلام لانے کے لئے مدینہ تشریف لاتے ہیں تو حضرت محمد صلی ا للہ علیہ وسلم ان سے بہت سارے استفسارات فرماتے ہیں، مثلاً کیا فلاں شخص ابھی زندہ ہے ؟ کیا فلاں سردار بقید حیات ہے ؟ فلاں جگہ کا کیا حال ہے؟ یہ سوالات سن کر بحرینی وفد حیرت سے پوچھتا ہے : یا رسول اللہ ؐ ! آپ تو ہم سے بھی زیادہ ہمارے ملک کے شہروں اور باشندوں سے واقف ہیں، یہ کیسے ہوا؟ آپ ؐ فرماتے ہیں: میرے پاؤں تمہارے ملک کو بہت عرصے تک روندتے رہے ہیں۔ مطلب آپ ؐ اس علاقہ میں بغرض تجارت مقیم رہے۔ اس ارشاد گرامی سے مورخین یہ اشارہ پاتے ہیں کہ زمانہ ٔ شباب میں آپ ؐ حضرت خدیجہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کا مالِ تجارت لے کر شام اور مشرق عرب تشریف لیتے اور عمان کی بندرگاہ دباکے بین ا لاقومی تجارتی نمائش میں شرکت کرتے ۔ عین ممکن ہے کہ وہاں چین جیسے دوردراز ملک کے تجار سے بھی وہاں آپ ؐ کی ملاقاتیں ہوئی ہوں جن کی بدولت آپ ؐ کے غیر معمولی طور اَخاذ ذہن میں اہل ِچین کی صلاحیت اور مذاق ومزاج کے بارے میں بہت ساری معلومات مرتسم ہوئی ہوں۔ حصول ِعلم کے ضمن میں استعاراً چین جیسے دور افتادہ ملک تک کا سفر اختیار کر نے کا فرمودہ ناقدین ِ اسلام کے لئے ایک چشم کشا حقیقت ہے۔
 اسلام نے پنگوڑے سے لے کر لحد تک تحصیل علم کاعالمی منشور عرب و عجم کوتھما کر مسلمانوں کوحصول علم کا جو ذوق وشغف عطاکیا ، اس کی بدولت مسلمانوں نے طلبِ علم اورمعارف پروری کے وہ نادر الوجود نمونے انسانی دنیا کو پیش کئے جن پر تاریخ عش عش کر رہی ہے ۔ مسلمانوں نے کتب خانے ہی نہ بھر دئے بلکہ سائنسی تحقیقات کی تجر بہ گاہیں قائم کیں ، مطب کھولے ، کا غذ سازی کی صنعت کو فروغ دیا ، خطاطی ، نقاشی اور جلد بندی کو ترقی وترویج دی ۔ کتاب کو مسلم دنیا میں یہ شرف ملا کہ ایک عرب شاعر متبنی اپنے ایک قصیدے میں کسی جگہ کہتا ہے کہ ’’اور زمانے میں بہترین ہمدم کتاب ہے ‘‘۔ اہل اسلام نے طلب علم کا دامن بقول عیسائی مورخ جر جی زبدان اتنا پھیلا دیا کہ وہ آشور ، بابل، مصر ، یونان ، فارس اور ہندوستان کے جملہ علوم کے وارث قرار پائے۔ تاریخ اسلام میں امامان ِ علم ِجد ید اور شیدایانِ علم ِقدیم کی اتنی بہتات ہے کہ ان کا احاطہ کرنادشوارہے ۔ اسی ایک نکتے پر ذرا غور وفکر فرمایئے کہ عربی میں کتب خانہ کو مکتبہ کہتے ہیں مگر مسلمان فرط ِ ذوق کی بنا پر مسلمان کتب خانوں کو بیت الحکمت، خزائن القصور ، دارلعلم ، خزانتہ الکتب اور خزانتہ الحکمہ جیسے بہترین ناموں سے بھی یاد کر تے ہیں ۔ اگرہم قرون وسطیٰ کی تواریخ کی ورق گردانی میں تھوڑی دیر جذب ہوجائیںتو دیکھیں گے کہ مسلمانوں نے ایک ایسے دور میں جب ان کی جہانبانی ا ور کشور کشائی کا ڈنکا بج رہاتھا اور اسلامی سلطنت پیغمبر کریم ؐ کے زمانہ ٔ رسالت میں دس لاکھ مربع میل اور خلافت ِفاروقیؓ میںستائیس لاکھ مر بع میل تک وسعت پاچکی تھی، مگر ملکی فتوحات اور دنیوی گہماگہمی میں مغرب کی طرح بہکے بغیر تعلیم وتعلم بدستور مسلمانوں کا مزاج ثانی بنارہا اور وہ مطالعہ ٔ کتب، تصنیف وکتابت اور علوم کی ترویج واشاعت کو اہم دینی فریضہ سمجھ کر اس کا ساتھ تم من دھن سے نبھاتے رہے ۔ کتابوں سے ان کے قلبی تعلق اور استغراق کی ایک جھلک ہمیں اسحاق ابن سلیمان طیب کے واقعہ سے ملتی ہے۔ علم کے اس شیدائی نے عمر بھر شادی کی نہ اولاد کی تمنا کی ۔ان سے جب اس بابت دریافت کیا گیا تو جواب دیا کہ اپنی کتاب ’’حمیات‘‘ کی موجودگی میں مجھے بے اولاد ہونے کاغم نہیں۔(’’عیون الانباء فی طبقات الاطباء‘‘ از ابن ابی اصیبعہ بحوالہ ’’ علمائے سلف‘‘ از حبیب الرحمن شیروانی) تاریخ اسلام کے صفحات بے غبار گواہی دیتے ہیں کہ مکہ و مدینہ کے علمی صدر مقام کی جلومیںدمشق ، کوفہ ، بصرہ ، بغداد، قرطبہ، قاہرہ ، نیشاپور، سمرقند ، بخارا ، غزنی اور دہلی وغیرہ ممالک علم و آگہی کی آماج گاہیں بنے رہے۔ مسلم دنیا میں علم وہنر کی کیا کیا جلوتیں ہوئیں ،اس کا ایک مختصر سا خاکہ عیسائی مورخ اسکاٹ قرطبہ کی ثقافتی شان وشوکت دیکھ کر ان الفاظ میں کھینچ لیتاہے: یکایک میری چشم تصور کے سامنے اس عظیم الشان دارلخلافہ کے باشندوں کے روزمرہ کاروبار اور گفتار ورفتار آگئے جو محنت سے تھکنا نہیں جانتے تھے، جو صنعت وحرفت، تہذیب وتمدن، کمالات وتکلفات، لطافت ونفاست، اور حسن ِ اخلاق میں عیش پرست روم سے بڑھے ہوئے تھے ۔ میں محسو س کر رہا تھا کہ تمام شہر میٹھی نیند سورہاہے اور اونچے اونچے میناروں پر علماء ئے علم ِہیٔت بروج ِآسمانی کے نشے لے رہے ہیں، اجسام فلکی واجرام سمائی کے مناظر و مظاہر کا مطالعہ کر رہے ہیں، کواکب کی حرکات کو دیکھ رہے ہیں ، سیاروں کے درمیانی فاصلوں کوناپ رہے ہیں ، اور کسوف وخسوف کا حساب لگارہے ہیں، میری آنکھیں ان کتب خانوں کو دیکھ رہی تھیں جن میں ہزاروں کتابیں تھیں، ان کتب خانوں میں ا یک فوج کی فوج مترجموں کی تھی جو زمانہ ٔ قدیم کے بڑے بڑے علماء و فضلاء کی بہترین تصانیف کو عربی میں ترجمہ کر رہے تھے۔ یہ مترجم ہرا یک طالب علم کی بلالحاظ قومیت یا مذہب کے مفت خدمت کر نے کو تیار رہتے تھے، ہر ایک شہر کی یہ ممتاز کیفیت ہے، دنیا بھر میں کسی جگہ قلب انسانی کے نشوونما کے لئے ایسے ہی موقع نہ تھے، دنیا بھر میں کہیں کسی جگہ نہ علم وادب کی ایسی خدمت ہوتی تھی نہ اتنی قدر دانی ‘‘   
   تاریخ بتلاتی ہے کہ اسلام کے پہلے اعلان’’پڑھو‘‘ کی معجزہ نمائی سے جاہل وفاسد اہل جہاں میں ایک ایسا ارتعاش پیدا کیا جس کی صدا ئے بازگشت پر مسلم دنیا میں صدیوں کان دھرا گیا اور اس سے حیاتِ نو کا پیغام بھی پایاجاتارہا ۔ جب غار حرا سے علم ومعارف کا یہ جھنڈا لہرایاگیا ،اس وقت جاہلیت کی گود یوں کھلائی ناخواندگی، جاہلیت، تو ہمات، خرافات اور اَندھ وشواس کادبدبہ صرف سرزمین عرب تک ہی محدود نہ تھا بلکہ یونان وروما ، چین وہند، مصر وبابل بھی فی الحقیقت جہالت و عدم آگہی کی گہری نیند سورہے تھے۔ تاریخ کا مرقع یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان ایک عریض و بسیط صنم کدہ تھا جہاں ویدوں کا اثر کم اور برہمنوں کی خدائیت کا چرچا زیادہ تھا ۔ چین اخلاقیات کے چند ابتدائی اسباق سے آگے ایک قدم بھی بڑھاپارہا تھا، روما کا علم سے برائے نام رشتہ یونان کی وساطت سے رہا مگر یہ علمی مزاج سے یکسر خالی ایک مادہ پرست قوم تھی جسے شمشیر زنیوں سے ملک گیری کر نے اور دوسری اقوام کو غلام بنانے کے من بھاتے مشغلہ کے علاوہ اورکچھ بھی نہ آتاتھا۔ بلاشبہ یونان میں بلند پایہ مفکراور فلاسفر پیدا ہوئے کیونکہ ایتھنز میں اس کے پیش رو تمام متمدن ملکوں مصر ، بابل ، اشوریا کے علوم وفنون پناہ گزیںہوئے تھے۔ اس واسطے یونان کو علمی دنیا کا وارث ہو نے کا اعزا ز اس حدتک حا صل ر ہا کہ مسلمانوں کے عقلی علوم کا سرچشمہ بھی تادیریونان ہی بنا رہا مگرسچائی کایہ کڑوا رُخ ذرا بھی نظر انداز نہ کریں کہ یونان میں مدتوں علم ومعرفت کے پیالے صرف مٹھی افراد نوش کرتے تھے، عام لوگوں کے حصے میں خالی تشنگی آتی تھی ، نتیجہ یہ کہ علم یونانی معاشرے میں ذہنی عیاشی کا ہم معنی بنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یونان کے حکماء وفلاسفہ میں کوئی ایک بھی علمی شخصیت اپنے دور کا امام یا رہبر نہ بن سکا۔ ظاہر بین نظروں میں علمی آزادی کے باوجود یونان میں علم اور اس عالم کو برداشت نہ کیا جاتا تھا جو اُن کے مذہبی توہمات کا ساتھ نہ دیتا۔ بنا بریں سقراط جیسے جلیل القدر فلسفی کو زہر کاپیالہ نوش کر نا پڑا، افلاطون اپنے مخصوص شاگردوں کے علاوہ کسی کے سامنے اپنے علم وفکر ظاہر ہی نہ کر سکتا تھا۔یہ یونان ہی تھا جہاں سے راس الفلاسفہ ارسطو جیسی بڑی علمی ہستی کو بھاگ کھڑا ہوناپڑا کیونکہ اس کی علمیت اور فہم و ادراک اس کے ہم وطنوں کے توہمات کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا ، مستندعالم وفاضل یوری پیڈیزکو جہلا ئے زمانہ سے جان چھڑانے کے لئے وطن سے مفرور ہونا پڑا، اسقلس جیسا علم ومعرفت کا مجسمہ سنگسار ہونے سے بصد مشکل بچ پایا۔ 
مسیحیت اپنی جائے پیدائش ایشیا سے کروڑ گنا زیادہ یورپ میں پھلی پھولی۔ وہاں مسیحیت کے بال وپر دوسری صدی میں ا س وقت نکالنے کا موقع ملا جب رومی بادشاہ قسطنطین اول نے سیاسی مصلحتوں سے ۳۳۳ء میں عیسائی ہونے کا اعلان کیا اور عیسائیت رومن سلطنت میں سرکاری مذہب کا درجہ پاگئی ۔ اس سے قبل جو عیسائیت یورپ میں مظلوم ومقہور تھی ، بادشاہ ِ روم کی سر پرستی پاتے ہی خود ظالم کا روپ دھارن کربیٹھی۔ اس نے دیگر ادیان وافکار کو ہی نہیں بلکہ قدیم علوم وفنون کے درپئے آزار ہونا اپنا شغل وشعار بنایا۔ یورپ ، ایشیا،افریقہ ہر تین براعظم پر رومی شہنشاہیت کا پرچم لہرا رہاتھا اور چین ، ہندوستان ، عرب کو چھوڑ کر پوری دنیا اس کی باج گزارتھی، اور عیسائیت شاہی خانوادے کے ذوق کے عین مطابق اپنی مذہبیت کا لبادہ چھوڑ کر زیادہ سے حکومت و سلطنت کا طنطنہ بن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تلوار کی نوک پرہر غیر مسیحی چیز، عقائد ، آثار ،یادگار، فنونِ جمیلہ کو اسی طرح فنا کے گھاٹ اُتارنے کا بیڑا اُٹھایا جیسے آج کل ہند وستان میں بی جے پی اپنے سیاسی دبدبے کے بل پر تمام اقلیتوں کی شناخت وتشخص کے ایک ایک پرت کو مٹانے کا تہیہ کئے ہوئی ہے۔ حد یہ کہ مصر اور یونان رومی سلطنت کے غلام بن گئے تھے ، اس کے باوجود بھی رو میوںنے علم دشمنی کی رو میں بہہ کر اسکندریہ ( مصر) اور ایتھنز( یونان ) میں علم وفلسفہ کو ٹمٹماتے چراغوں کو تلوار وں کے سائے میں بجھا ڈالا۔ مصر کے بطلیموسی خاندان کے بادشاہ علم دوست اور ادب نواز جانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے پایہ ٔ  تخت اسکندریہ میں سات لاکھ کتابوں پر مشتمل ایک عدیم النظیر کتب خانہ قائم کیا۔اس میں دنیائے قدیم کے بعض نادر ونایاب مخطوطات بھی تھے ، مگر اولین فرصت میں جولیس سیزر نے اپنی جہالت کی دھاک بٹھاکر اس کی آدھی سے زیادہ کتابیں نذر آتش کر دیں اور باقی ماندہ ذخیرۂ کتب کو عیسائیوں نے بر سر اقتدار آکرتتر بتر کرڈالا کیونکہ ان کی نگاہ میں علم کا یہ سمندر کفر والحاد کی باقیات تھا۔ اسکندریہ میں مسیحیوں کے ہاتھوں علم وعرفان کے گہواروں کا جس طرح خاتمہ کیا گیا ، تاریخ اسے دردناک بھی بتاتی ہے اور شرمناک بھی ۔ یہاں علم کی ایک مدہم سی شمع ہائی پیشیاؔ نامی خاتون عالمہ کی صورت میں روشن تھی، مسیحیت کے علمبرداروں نے اسے ایک دن سر راہ پکڑ کر پہلے برہنہ کیا ، اس کے بعد گھسیٹتے ہوئے ایک کلیسا میں لے گئے اور یہاں مقدس عصائے پطرس سے اس کا سر مار مارکر پھوڑ ڈالا۔ لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کئے، گوشت اور پوست کو سیپیوں سے چھیلا اور ہڈیاں آگ میں جھونک دیں۔ اس عورت کا جرم صرف علم پروری تھا اور رومی مسیحیت علم وعرفان کی بدترین دشمن تھی ۔ ناقابل تردید سچائی یہ ہے کہ پوری مسیحی دنیا کو جہل کی تاریکیوں میں دھکیلنے میں جو کردارپا پائے روم نے اداکیا، وہ اپنی وحشتوں اور بربریت کے حوالے سے فرعونیت اور نمرودیت سے کسی درجہ کم نہیں ۔
  بہر کیف دنیا میں جہل مرکب ، ناخواندگی ،بدتہذیبی اور جارحیت کا یہ طوفان ِ بدتمیزی کئی صدیوں تک بغیر کسی مزاحمت اپنا سکہ چلاتا رہا مگر جونہی اسلام کا نور فاران کی پہاڑی سے طلوع ہوا تو قرآن وسنت کی ابدی جگمگاہٹوں کا آغاز ہو ا، علم و عرفان کی ضیاشیاں شروع ہوئیں، اعتدال وتوازن کی پرچم کشائی ہوئی۔
 
 بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ 
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پہلگام معاملہ پر پارلیمنٹ میں دو دن ہو بحث: کانگریس
برصغیر
کٹھوعہ سڑک حادثہ: ایک شخص جاں بحق، ایک زخمی
تازہ ترین
نیشنل کانفرنس نے 9ماہ کی حکومت میں ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا: غلام حسن میر
تازہ ترین
ریاستی درجہ ہمارا حق ہے، کسی کا احسان نہیں: ڈاکٹر فاروق عبداللہ
برصغیر

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 17, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?