موالا سید ابو الا علی مودودیؒ25 ستمبر 1903ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے مولانا مودودیؒ مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعتِ اسلامی کے بانی تھے بیسوی صدی کے سرکردہ اسلامی مفکرین میںسے ایک تھے۔ ان کی فکر سوچ اور تصانیف نے دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء پر گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ آپ کا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ تھا۔ مولانا ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیںمدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آ ٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔1914ئمیں مولوی کا امتحان پاس کیا ۔اس وقت مولانا کے والدین اورنگ آباد سے حیدآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودیؒ کو مولوی کے درجے میں داخلہ ملا ۔ دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہیؒ تھے، تاہم والد کے انتقال کے بعد مولانا دارالعلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔ ان میں لکھنے کی خداداد قابلیت تھی اور ایک صحافی کے طور اپنی علمی زندگی کا آغاز کیا ۔ آپ نے متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میںاخبار ’’مدینہ ‘‘(بجنور اُتر پردیش) "تاج" جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا ترجمان’’ الجمعیۃ‘‘ دہلی خصوصی طور شامل ہیں۔1922ئمیں ہندو مسلمان فسادات ہوئے کیونکہ ایک انتہا پسند شخض سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد تھا جبراً مسلمانوں کو ہندوبنانا تھا۔1926 ء میں اس کا کسی نے قتل کردیا جس کے بعد دشمنان اسلام نے دین ِ حق کو تشدد سے جوڑنے کی مہم شروع کی ۔اس سے عام مسلمانوں کو سخت پریشانی ہوئی، اسی دوران ایک جمعہ کے موقع پر مولانا محمد علی جوہر ؒنے دہلی کی تاریخی جامع مسجد میں اپنے خطبہ میں کہا کاش کوئی ایسا شخص ہو جو ان جھوٹے الزامات کو اسلام کی روشنی میں رد کر دے۔ جامع مسجد میں 24 سالہ مولانا مودودیؒ خطبہ ٔ جمعہ کو غور سے سنتا رہا تھا اور مولانا جوہر کی اس آرزو پرپہلی کتاب الجہاد فی الا سلام لکھ ڈالی جس میں اسلامی جہاد کے معانی ومفہوم اور تقاضوں کا احاطہ کیا ۔ اس کتاب کوشاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے دیکھا تو فرمایا : اسلام کے نظریۂ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف ہے اور میںہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں وہ اس کا مطالعہ کرے۔علامہ اقبالؒ کو مولانا مودودیؒ سے اُنس و محبت بھی تھی۔بقول میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ ’’اقدام‘‘) علامہ اقبالؒ مولانا کے جریدہ ’’ ترجمان القران‘‘ کے مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے ۔ان مضامین ہی سے متاثر ہو کر علامہ اقبالؒ نے مولانا مودودیؒ کو حیدر آباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی ۔ اسی دعوت پر مولانا1938ئمیں پنجاب آئے۔ میاںمحمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ یہ خط علامہ اقبالؒ نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا۔ مولانا ئے مرحوم بیسوی صدی کے معروف اسلامی قائد رفیع الشان مفکر اور بلند پایہ مصنف تھے۔انہوں نے تمام بندگانِ خدا تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی ۔ اپنے نصب العین کو منظم انداز میںسر انجام دینے کے لئے انہوں نے جماعت اسلامی کی بنیاد 1941ء میں ڈال دی اور پوری یکسوئی و دردمندی کے ساتھ اقامت ِدین کی راہ پر گامزن ر ہے۔ غلبۂ اسلام کی سعی و کوشش میں آپ پر طرح طرح کے مصائب آئے اور کئی بار جیل بھی جانا پڑا ۔1953ئمیں ختم ِنبوت کے تعلق سے ایک کتا بچہ لکھنے کی پاداش میں انہیں پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی لیکن ان کے پائے استقامت میں تزلزل پیدا نہ ہوا توپھانسی کی سزا عمر قید میںتبدیل کردی گئی۔ مولاناؒ نے تحریک اقامت دین کی دعوت کو عام کرنے کے لئے سو 100 سے زائد کتابیں لکھیں جن میں تفسیرتفہیم القران (جلد اول تا جلد ششم) خطبات، الجہاد فی الا سلام، رسالہ دینیات، تفہیمات، سیرت سرور عالم ﷺ، رسائل و مسائل، خلافت و ملوکیت، شہادت حق، پردہ وغیر اہم تصانیف سمجھی جاتی ہیں اور کم وبیش چالیس زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کا لڑیچر پوری دنیا میں چھایا ہوا ہے ،ان کی کچھ کتابیں مسلم ممالک یونیورسٹیوں میں بطور سیلبس پڑھائی جاتی ہیں۔25 مختلف زبانوں میں’’تفہیم ا لقران‘‘ کا ترجمہ کیا جا چکا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر’’ تفہیم ا لقران‘‘ ہے۔مولانا مو دودی ؒکے لڑیچر نے ہزاروں محققین اور مصنفین بھی دنیا بھر میں پیدا کئے اور مولانا کی غیر معمولی دینی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں عالم ِاسلام کا سب سے بڑا تمغۂ اعزاز شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا ۔مولانا مودودیؒ کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ فرقہ و مسلک پرستی سے بالاتر ہوکرصرف کلمتہ اللہ کے موقف پر چل کر خلافت علی منہاج النبوۃ پر پوری اُمت مجتمع ہو۔ مولاناؒ نے مسئلہ قادنیت پر ایک معرکتہ الآراء کتاب تحریر کرکے اس فتنے کا سدباب کر نے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اسلام کو دل نشین اور جامع انداز میں پیش کرنے کی جو خداداد صلاحیت مولانا مودودیؒ کو حاصل تھی وہ محتاج بیان نہیں۔ مسلم معاشرے کے کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد جن میں پیروجوان، مرد وخواتین ان تحریرات سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نور ایمان سے منور کر چکے ہیں اور اپنی زندگیاں بدل چکے ہیں۔ بہر حال حق اور باطل کی جاری کشمکش میں اس مردِ قلند ر کی انمول خدمات کا اللہ کے حضور کتنااجر وثواب ہوگا ہم اسے تصور میںبھی نہیں لاسکتے۔
کسی عالم دین یا مفسر ومحدث پر علماء ومحققین کا جائز ومعقول انداز میں خلوص نیت کے ساتھ علمی تنقید کر نا کوئی جرم ہے اور نہ ہونا چاہیے ۔ صرف انبیائے کرام ؑ ہی معصوم عن الخطاء ہیں۔ کسی بھی مجتہد ومفسر کا کوئی بھی خیال و اجتہاد ا ورآراء اُسی وقت قابل قبول ہوسکتی ہیں جب وہ قرآن وسنت سے لگاکھاتی ہوں۔سید مودودیؒ کے بارے میں عالم اسلام کے بطل جلیل اور مصر کے مشہور عالم دین علامہ یوسف القر ضاوی رقم طراز ہیں کہ مولانا مودودیؒ جیسا عظیم انسان، جو مفکر بھی ہو مجدد بھی، ایک اسلامی تحریک کا داعی بھی ہو اور اس کا خالص اپنا سوچنے کا انداز بھی ہو، اپنا خاص مزاج بھی ہو اور اس نے اپنی فکر کسی سے ادھار بھی نہ لی ہو، ایسے عظیم انسان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ناقدین اور مخالفین نہیں ہوں گے، اس لئے مولانا مودودیؒ کے حامیوں کی طرح ان کے مخالفین بھی ہر دور میں رہے ہیںاور آج بھی موجود ہیں لیکن سید کی یہ مخالفت سید کے حق میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ثابت ہوتی رہی ہے۔بہرحال صبراوراستقامت کے پہاڑ مولانا مودودیؒ22 ستمبر1979ء کو 76 ؍برس کی عمر میں اس دینا فانی کو خیر باد کہہ گئے اور انہوں نے اپنے پیچھے جو علمی ذخیرہ چھوڑ اوہ امت کے لئے ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہوگا ۔ آپ نے امریکہ کے ہسپتال میں میں وفات پائی اور پہلا جنازہ بفیلو ریاست نیویارک میں پڑھا گیا ، پھر آپ کا جسد خاکی پاکستان لایا گیا تو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں لاکھوں لوگوں نے آپ کاجنازہ اداکیا۔ قطریویورسٹی کے وائس چانسلر سابق صدر اخوان المسلمون شام علامہ یوسف القر ضاوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔
دھنی سیداں اُوڑی کشمیر،فون نمبر:9622400499
e-Mail:[email protected]