Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

ہاوس ہسبنڈ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 7, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
 اللہ جلہ شانہ نیک ہدایت فرمائے اُن لوگوں کو جنہوں کے کرفیو رائج کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اُن کو بھی جنہوں نے کرفیو کا توڑ کرنے کے لئے احتجاج ایجاد کردیا۔ ان دونوں ایجادات کو جدت عطا کرنے اور وقت کے تقاصوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ان میں وقتاََ فوقتاََ تر میمات اور اصلاحات ہو تی رہتی ہیں۔ کرفیو کے ساتھ دفعہ 144 ، مکانوں، دوکانوں ، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ، مکینوں کی مارپیٹ اور گرفتاری وغیرہ۔ احتجاج میں دکانیں بند، بازار بند، جلوس، اِدھر چلو، اُدھر چلو ، نعرے بازی اور پتھرائو وغیرہ۔ دونوں فریق موقع محل کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت عملی بدلتے رہتے ہیں۔۔۔ بات بہت دنوں کی نہیں ہے کہ جب سال کا بچپن اور لڑکپن قدرے حسبِ معمول رہے لیکن جوانی جلوہ افراز ہوتے ہی چشم بد کا شکار ہوگئی، یعنی جوانی آتے ہی خزاں۔۔۔ چارسُو سناٹا اور سنسنی۔ مرد و زن، طفل شیر خوار اور کبر رسن سب کے سب محصور، چار دیواری کے اندر قید ۔ زندگی کی تمام تر سرگرمیاں معطل، سڑکیں و بازار سنسان، رسل و رسائل اور عبور مرود مؤخر۔ ایک ایسا ماحول جو کبھی کبھی اس وادیٔ گلپوش کے باسیوں کو اس امر کی آگاہی دیتا ہے کہ اس خطہ ارضی سے غیر یقینیت کی صورتحال ابھی گئی نہیں ہے۔ پہلے پہل تو اچھا لگ رہا تھا کہ چلو بند کے سبب فرصت کے لمحات نصیب ہو رہے ہیں۔ ایک دن ۔۔۔ دو دن۔۔۔ ہفتہ۔۔۔ دو ہفتے۔۔۔ اور اب مہینوں کی بات ہونے کو آئی۔ وقت گزرتے ہم عذابِ شدید میں مبتلا ہونے لگے۔ دماغ میں ایک خلاء سا پیدا ہوگیا۔ چونکہ ہمارے لائق کوئی کام تھا ہی نہیں اس لئے ہم اکتاہٹ کا شکار ہونے لگے۔ ہمارا گھر میں ایسے بے کا پڑے رہنا ہمیں بہت بُرا لگ رہا تھا۔ اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر ہم کاغذ اور قلم لے کر کچھ لکھنے کی سعی کرتے تو مجال ہے کہ ایک بھی لفظ لکھنے کو ملے۔ الفاظ گونگھے ہونے لگے۔ جب الفاظ گونگھے ہوجاتے ہیں تو آنکھیں بولنے لگتی ہیں۔یہی ہم نے اپنی بیگم میں بھی محسوس کیاکہ اُن کے الفاظ بھی گونگھے ہوگئے اور اب آنکھیں زبان کا کام کرنے کے در پے ہیں۔۔۔ اور ہمیں کچھ سمجھانے کی کوشش میں ہیں۔ چونکہ ہم حالات کے سبب بے کا ہوگئے تھے اس لئے ہم نے بیگم (بے غم) کی آنکھوں کے پیغام کو ڈی کوڈ کرنے کی تگ دو شروع کردی۔ تب یعنی آج سے بیس پچیس سال پہلے، کی اور اب کی آنکھوں آنکھوں کی باتوں میں ہم ایک واضح فرق محسوس کر رہے ہیں۔ کہاں وہ شبستانِ محبت میں حریرو پرنیاں کی سر سراہٹ اور اب تحکمانہ اور عامرانہ انداز۔ ہمیں سمجھنے میں تھوڑا وقت تو لگا، پر ہم یہ جان گئے کہ جب تک حالات میں سدھار نہ ہو اور ہم گھر سے باہر جاکر اپنے کام دھندے پر پھر سے نہ لگ جائیں تب تک ہمیں ایک نئے عہدے پر کام کرنا ہوگا۔ حالات میں بگاڑ اور بند سے قبل ایک وکیل، مدرس اور ایک سماجی کارکن کے فرائض انجام دینے میں ہم پوری تن دہی سے کام کرتے رہے، لیکن اب یہ نئی ذمہ داری ۔۔۔ ’ہاوس ہسبنڈ‘۔ ہم انتشار اور تذبذب میں پڑگئے، ایک تو نیا کام اور دوسرا نئے عہدے پر ہمیں کام اپنی بیگم کے زیر نگرانی کرنا ہوگا، جو کسی بھی مرد کے لئے لوہے کے چنے چبانے سے کم نہیں، لیکن کام کرنا ہماری مجبوری بن گیا ۔کیونکہ گھر میں ایک دم سے کچھ کئے بنا بیٹھے رہنا حماقت سے بڑھ کر ہی تھا۔ ایک بات کے سبب ہمارے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ یہ نیا کام دنیامیں کسی کسی مرد کو ہی نصیب ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہم اس نئے کام کو انجام دینے کے لئے بڑے ہی اُتاولے اور پرُ جوش تھے۔
عصر حاظر میں صنفِ نازک کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑا رکھنے کے لئے بہت ڈھول پیٹا جارہا ہے اور بسا اوقات اُن کو مردوں پر فوقیت بھی دئے جانے کی بات پرُ زور انداز میںکی جاتی ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات اب تک نہیں آرہی ہے کہ عورت کو کس طرح کی آزادی دینے کی بات ہورہی ہے؟ کیا کسی بھی فیصلے میں کوئی شوہر بیوی کے خلاف جانے کی جرأت کر سکتا ہے؟ کیا وہ بیوی کی کسی بھی فرمایش کو پس پشت ڈال سکتا ہے۔۔۔؟ کیا وہ گھر میں بیوی کے ہوتے ہوئے اونچی آواز میں بات کر سکتا ہے؟ ان سب کاجواب نہیں میں ہے! اور بھی بہت ساری باتیں ہیں، جو مشتہر کرنا مرد ذات کے تئیں شرمساری اور کوفت کا باعث بن سکتی ہیں۔
خیر ہم تو اپنے نئے کام اور عہدے کی بات کر رہے تھے۔ کام تو کام ہوتا ہے۔۔۔ ہاتھ پیر چلالو اور کام ہو گیا۔ ہماری مغز ماری نئے عہدے کے ’نام‘ پر ہونے لگی۔ اس عہدے کے لئے کوئی مناسب نام کسی بھی طریقہ سے نہیں سوجھ رہا تھا۔ اس سوچ میں کہ اس نئے عہدے کو کیا نام دیں،ہمارا کام اثر انداز ہونے لگا اور ’باس‘ کی آڑھی ترچھی نگاہوں کے تیر بھی چلنے لگے۔ کام پر پوری توجہ دینے کے باوجود بھی اس کام کے ’نام کرن‘ کا کیڑا دماغ میں پھدک رہا تھا۔ بند کی وجہ سے اب ہم اُن کاموں سے دھیرے دھیرے ناواقف سے ہونے لگے جو ہم پچھلے کئی سالوں سے کرتے آئے ہیں۔ یہ نیا کام سیکھنے میں ہمیں کوئی خاص دشواری نہیں آرہی تھی کیونکہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور مجبوری انسان سے کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ بڑی شدت اور جوش کے ساتھ ہم نئے کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر راحت محسوس کر رہے تھے کہ بس کام ہوگیا، لیکن ہر صبح یہ ہماری خام خیالی ثابت ہوتی۔ ہر روز وہی کام نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا۔ کام ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ دن بھر کوہلو کے بیل کی طرح لگے رہنا اور کام کا شیطان کی آنت کی طرح بڑھتے ہی چلے جانا سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا تھا۔ ایک کام بس ختم ہی ہوا چاہتا ہے کہ دوسرا کام ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ہم نے ایک اور خوش فہمی پال لی۔ ارے کام ہے کیا ہاتھ پیر چلا لئے تو ہوگیالیکن ہماری اس خوش فہمی کی عمر اتنی قلیل تھی کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔۔۔ ہوا یوں کہ ہم ہمارے دھلے ہوئے کپڑوں پر استری پھیرنے میں مگن تھے کہ بیگم کمرے میں آدھمکیں، گو کہ بات آنکھوں آنکھوںمیں ہوئی لیکن ہمارا ایسا حال ہوا جو دشمنوں کو بھی نصیب نہ ہو۔ ہماری قمیض ہاتھ میں لے کر بیگم ہمیں کف اور کالر دکھانے لگیں۔۔۔ ہم سمجھ گئے ۔ وہ قمیض پٹخ کر چلی تو گئیں مگر ہمارے لئے ایک اور کام کا اضافہ کر کے۔ اب ہم دھلے ، اد ھ دھلے اور بنا دھلے کپڑوں کی چھانٹی کر کے ان پر پھر زور آزمائی کرنے لگے۔ 
ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ سالن میں نمک مرچ، ہلدی مصالحہ کا تناسب بگڑا ہوا تھا۔ آنکھوں آنکھوں میں بیگم نے ہمیں وہ شکایتیں یاد دلا دیں جو ہم اکثر ان کے پکانے پروسنے میں کرتے تھے۔ اس سے بڑھ کر بھی، جب ہم ان کے کاموں میں نون میں نقطہ ڈھونڈ ہی لیا کرتے تھے۔ اب صبر تحمل سے کام لینے میں ہی اپنی خیر نظر آئی۔ چند ہی دنوں میں ہمیں احساس ہونے لگا کہ ہم اس نئی ذمہ داری کو نبھانے میں بر طرح ناکام ہورہے ہیں۔ اپنی بھر پور صلاحیت اور محنت کا مظاہرہ کرنے پر بھی ہم سے کام مکمل نہیں ہوتا، یہ ایک نا تمام سلسلہ معلوم ہونے لگا۔ مثلاََ صبح سویرے اُٹھ کر فرش کو کھرچ کھرچ کر جھاڑپونچھ کر کوڑا کرکٹ جمع کر کے ایک جگہ پر رکھ دیتا ہوں۔ سوچ لیا کرتا ہوں کہ گھر کا گوشہ گوشہ صاف ہوا، اس کے بعد لگ جاتا ہوں پکانے، پروسنے اور دھونے دھلانے میں گہری شب ہونے تک۔ لیکن صبح سویرے جب اُٹھتا ہوں تو سارے گھر میں کوڑا کرکٹ اور کچرا ویسے کا ویسا ہی پاتا ہوں۔ یہی حال ہر ایک کام کا ہے۔ گھر کا کوئی بھی کام مکمل ہو ہی نہیں پاتا۔ سردیوں کی دستک نے پہلے ہی سے زبردست بوجھ کو اور بھی وزن دار کر دیا۔ اب ہم سوچنے پر مجبور ہو ہی گئے کہ ایک عورت گھریلو کام نپٹانے کے علاوہ اور بھی کئی ایسے کام بخوبی انجام دیتی ہے جو ایک عام مرد کے لئے بے معنی ہیں، جیسے دوسروں کے معاملات میں تاک جھانک کرنا، شوشے پھیلانا، ساس بہو کی اور بہو ساس کی ’تعریفوں‘ میں قصیدے سنانا وغیرہ۔ ہم آخر اس نتیجہ پر آن کر ر کے کہ اللہ جلہ شانہ نے عورت کو انسان کی ایک ترقی یافتہ صورت ( IMPROVED MODEL) بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اس میں مرد کے مقابلے بہت ساری خوبیاں اور اوصاف موجود ہیں۔ ہمیں یہ بھی حقیقت لگنے لگی کہ مرد عورت کے بغیر ادھورا ہے۔ عورت قوت برداشت کا بے مثال شاہکار، مامتا اور محبت کا مجسمہ ، قربانی اور ایثار کا پیکر اور سب سے بڑھ کر دنیا کو قائم و دائم رکھنے والی ہستی نایاب ہے۔ اپنی ذات کو ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے پلڑے میں ’ہائوس ہسبنڈ‘ کی گھریلو ذمہ داریوں کا موازنہ کرنے پر ہم نے یہ اخذ کر لیا کہ اپنے آپ ، اپنی ذات ، اپنی برادری اور مرد قوم کی بہبود کی خاطر اپنے آپ کو ’فطرت سے تضاد‘ کا مظہرنہ ہونے دیا جائے اور گھر کی ذمہ داریوں کا تاج ’بیگم‘ یعنی ہائوس وائف‘ کے ہی سر پر رہنے دیا جائے۔ اسی میں ہماری ذات برادری کی کامیابی اور بالا دستی قائم رہنے کا راز ہے۔
 
رابطہ؛کینی ہائوس،کورٹ روڑ لال چوک سرینگر
موبائل نمبر؛9906633004
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ڈی پی زونل صدر ترال دل کا دورہ پڑنے سے فوت
تازہ ترین
سرینگر میں 37.4ڈگری سیلشس کے ساتھ 72سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
برصغیر
قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، : چیف جسٹس آف انڈیا
برصغیر
پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?