کشمیر مسئلہ آج کا نہیں70سال پرانا،منموہن سنگھ کے10سال بھی دیکھے،دلدل سے نکالے گا تو مودی

Kashmir Uzma News Desk
5 Min Read
جموں//کشمیر میں جاری موجودہ بے چینی کو 2008,2009اور 2010کی ایجی ٹیشنوں کے دوران پیدا شدہ احساسات کا ردِ عمل قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ صرف اور صرف وزیر اعظم نریندر مودی ہی کشمیرکا مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بکرم چوک فلائی اﺅر عوام کے نام وقف کرنے کے بعد منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”مسئلہ کشمیر دو یا تین بر س کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ 70سال پرانا ہے ، اور لوگ چاہئے مجھ پر کتنی تنقید بھی کریں لیکن میرا یقین ہے کہ صرف اور صرف وزیر اعظم نریندر مودی ہی واحد ایسی شخصیت ہیں جو اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں۔“انہوں نے کہا ”چونکہ نریندر مودی کو ملک بھر میں بھاری عوامی فتویٰ حاصل ہے اس لئے وہی کشمیر کو موجودہ حالات سے باہر نکال سکتے ہیںکیوںکہ وہ جو بھی فیصلہ لیں گے وہ پورے ملک کے عوام کو قبول ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے بعد مرکز اور ریاست میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا، 2008سے لوگوں کے اندر ہی اندر ایک لاوا پکتا رہا جس کا نتیجہ موجودہ بے چینی کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔انہوں نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا”ہم نے اُس وزیر اعظم کو بھی دیکھا جنہوں نے دس سال تک پاکستان جانے کی جرات نہیں کی، حالانکہ وہ بار بار کہتے آرہے تھے کہ اپنا گھر دیکھوں گا لیکن جرات نہیں کی“۔”واجپائی کے دور اقتدار کے بعد یوپی اے سرکاربنی یاریاست میں جو حکومتیں وجود میں آئیں انہوں نے اس ضمن میں یہ باور کر کے کوئی پیش رفت نہیں کی کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اور کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے نتیجہ میں اندر ہی اندر ایک لاوا پکنا شروع ہو گیا اور نوجوان 2008,2009اور2010میں سڑکوں پر نکل آئے۔ “انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں ، یہ اسی لاوے کے باہر نکلنے کے سبب پیدا ہوئے ہیں جو اتنے برسوں سے اندر ہی اندر پک رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ واجپائی اور مفتی محمد سعید نے مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے مختصر وقت میں بہت کچھ کیا لیکن بد قسمتی سے ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس سلسلہ کو آگے نہیں بڑھایا۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’اس دوران سرحدیں پر امن تھیں ،جنگ بندی معاہدہ کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی تھی، ملی ٹینسی کا گراف کافی نیچے آگیا تھا اور سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی نے مذاکراتی عمل بھی شروع کیا تھا لیکن اس کے بعد بننے والی یو پی اے سرکار اور ریاستی حکومت نے اس ضمن میں مزید کچھ بھی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انکی حکومت کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے ”اگر کشمیر میںحالات خراب ہوتے ہیں تو اس کا اثر جموں اور لداخ پر بھی پڑتا ہے “۔انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نپٹا جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ کچھ عناصر ہیں جو امن اور ترقی کے مخالف ہیں کیوں کہ وہ سوچتے ہیں کہ اگر حکومت ترقیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہی تو انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ جموں باسیوں کو مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو اشتعال انگیزی کے باوجود قائم رکھنے کے لئے لائق ستائش قرار دیتے ہوئے محبوبہ نے عوام کو ریاست میں ترقیاتی عمل کو زک پہنچانے اور صوبے میں منافرت پھیلانے والے چند منفی سوچ رکھنے والے عناصر کے مذموم مقاصد سے خبردار رہنے کی تلقین کی۔
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *