نئی دہلی// گجرات فسادات کے دوران اجتماعی عصمت دری کی شکار اور اپنے خاندان کے 14 افراد کے قتل کی چشم دید گواہ رہیں بلقیس بانو کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ جو حیوانیت ہوئی، اسے بھلایا نہیں جا سکتا ہے لیکن پھر بھی وہ کسی سے اس کا انتقام لینا نہیں چاہتیں بلکہ اپنے اوراپنے بچوں کے لئے تحفظ اور سکون بھری زندگی چاہتی ہیں۔بلقیس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے فرقہ پرستی کے جس درد و الم کو برداشت کیا ہے وہ ناقابل بیان ہے لیکن انہیں اس بات کا اطمینان ہے کہ بمبئی ہائی کورٹ نے ظلم کرنے والوںکو سزا دے کر انصاف کا علم بلند کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ تاریخی ہے ۔ گزشتہ 15 سال تک انصاف کے لئے لڑی گئی طویل جنگ میں بلاخر اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اسے ملک کے نظامِ انصاف پر پورا اعتمادتھا اور اس میں مزید اضافہ ہوا ہے لیکن انہیں اس بات کا تھوڑا ملال ہے کہ ثبوتوں کو مٹانے میں ملزمان کا ساتھ دینے والے پولیس اہلکاروں اور ڈاکٹروں کو دی گئی سزا کم ہے ۔ واضح رہے کہ بمبئی ہائی کورٹ نے چار مئی کو بلقیس بانو معاملے میں نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے 18 ملزمان کو سزا سنائی تھی۔ ان میں سے 11 کو عمر قید جبکہ ثبوتوں کو مٹانے کے الزام میں سات پولیس اہلکاروں اور ڈاکٹروں کو بری کئے جانے کے استغاثہ کی اپیل کو منسوخ کر دیا اور ان پر 20-20 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ۔احمد آباد سے 250 کلومیٹر دور آباد رادھیکاپر گا¶ں میں مارچ 2002 کو 19 سالہ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ہوئی تھی، اتنا ہی نہیں بلکہ اس وقت وہ پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔ اس کے خاندان کے 14 افراد کابھی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا جس میں دو نوزائیدہ بچے بھی شامل تھے ۔یو این آئی