جموں میں 6ماہ تک رہنے کے بعد دربا ر مو دفاترپیر کو سرینگر میں دوبارہ کھل گئے ۔ہر برس دربار سردیوں میں جموں منتقل ہوتا اور گرمیاں آتے ہی شاہی دربار سرینگر کی معتدل ہوائوں میں وارد ہوجاتا ہے۔سرینگر سے جموں اور جموں سے سرینگر دربار مو کے اس عمل نے اب تک اپنے145برس مکمل کئے ہیں۔ منتقلی کے اس عمل کے دوران ہر برس سیکرٹریٹ سرگرمیوں کو16دنوں تک بند رکھنا پڑ تا ہے اور اگر جائزہ لیا جائے تو اس وجہ سے ریکارڈ کے مطابق سر کاری تعطیل کے علاوہ اب تک جموں و کشمیر کی تاریخ میں2400دن ایسے گذ رے ہیں جب سیکر ٹر یٹ نے کام نہیں کیا ہے۔ دراصل ریاست میں دارالحکومت کی منتقلی کی اس روایت کو ڈوگرہ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1872 میں ایک شاہی فرمان کے تحت جاری کیا کہ سیکرٹریٹ اب گرمیوں میں چھ ماہ تک سرینگر میں سر گرم رہے گا جبکہ سر دیوں میں اس کی سر گرمیوں کا محور جموں منتقل ہو گا۔ منتقلی کے اس عمل نے ریاست میں صوبائی سیاست کو نہ صرف جنم دیا ہے بلکہ دربار مو کے آنے جانے پر سرکار کا غیر معمولی سرمایہ صرف ہوتا ہے۔1947میں جب ہندستان آزاد ہوا تو کشمیر میں بھی شخصی راج کا خاتمہ ہوا لیکن سیکر یٹر یٹ کی منتقلی اپنی تمام تر روایات کے ساتھ جاری رہی۔ مبصرین کے مطابق اس عمل کا جو پہلا ثمر نکلا وہ یہ تھا کہ یہ ریاست جو صرف’ کشمیر‘ کہلاتی تھی ،کے ساتھ ’جموں‘ کے لفظ کو جوڑا گیا اور اس طرح ’ریاست کشمیر کو ’جموں و کشمیر‘ کا نام دیا گیا ۔1987 میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی اور این سی سرپرست ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے ایک اعلان کے تحت کہا تھا کہ اب دربار مو نہیں ہوگامگر جموں کی سیاسی قو توں کے آگے اس اعلان کا نفاذنہ ہو سکا۔ شیخ محمد عبداللہ نے جب 1947 کے بعد کشمیر کے وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالاتو دربارکی منتقلی کو وہ بھی منسوخ نہ کر پائے حالانکہ اس وقت کانگریس شیخ عبداللہ کی حمایت پر موجود تھی۔ریاست میں 1947میں شخصی راج کا خاتمہ ہوگیا تھا لیکن دربارمو کی صورت میں اس دور اور نظام کی ایک جھلک موجودہ نسل تک منتقل کردی گئی ہے اورجمہوری نظام میں اگر چہ حکومت اور حاکم عوام کے خدمتگارہوتے ہیں لیکن دربار مو کے نظام میںایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی آسائش سے زیادہ سیاسی و افسرشاہی کی آسائش کوزیرنظر رکھا جاتا ہے۔حکام سرما کے دوران وادی کی سردی سے بچنے کیلئے جموں منتقل ہوجاتے ہیں اورجموں میں گرما کے دوران یہاں منتقل ہوجاتے ہیں گویا جو وقت ان دونوں علاقوں کے لوگوں کیلئے موسمی اعتبار سے سب سے مشکل ہوتا ہے اس میں ان کے منتخب کردہ حاکم ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں،اسے جدید جمہوری نظام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا سمجھا جائے۔ریاست جموں و کشمیر ایک ایسی واحد ریاست ہے جس کے دو دارالخلافہ ہیں۔ اس ریاست کی سرکار دونوں راجدھانیوں میں کام کرتی ہے، اور سرکاری دفاتر کو ہر چھ مہینے کے بعد سرینگر سے جموں اورجموں سے سرینگر منتقل کیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل پر جہاں سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کی رقم خرچ کی جاتی ہے ، وہیں ریا ستی عوام خصوصاً وادی کشمیر کے لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چنانچہ مہاراجہ کے وقت میں شخصی راج کا زمانہ تھا اور حکومت کے بنانے میں عوام کا کوئی رول نہیں ہوتا تھا اس لئے شخصی راج کے حکمران اپنی من مانیاں کرتے تھے اور عوام کی سہولیات سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح کے حکمران زیادہ تر اپنے عیش و عشرت پر ہی دھیان دیتے تھے۔ ان لوگو ں کا طرززندگی شاہانہ ہوا کرتا تھا اور یہ حکمران عوام کو زر خرید غلام تصور کرتے تھے۔اگرچہ شخصی راج کا خاتمہ ہوئے نصف صدی سے زیادہ کاعرصہ گذر چکا ہے،تاہم ہماری ریاست میں دربار مو کی روایت آج بھی قائم ودائم ہے۔ اپنے آپ کو عوامی اور چنندہ حکومتیں کہلانے والی سرکاروں نے شخصی راج کی اس ریت کو نہ صرف قایم رکھا ہے بلکہ اس پر من وعن عمل بھی کیا جاتا ہے۔ دربار مو کا یہ سلسلہ ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنی سہولیت کیلئے شروع کیا تھا۔ لیکن آجکل کے انفارمیشن ٹیکنالوجی دور میں دربار مو کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آج جہاں ہر جگہ ای گورننس کا دور دورہ ہے، ریاست جموں و کشمیر آج بھی دربار مو کے بے سود، مہنگے ،نقصان دہ اور تھکا دینے والے عمل قدیم میں مصروف ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہماری ریاست میںای گورننس کا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔ اگر اس بات کی طرف دھیا ن دیا گیا ہوتا تو دربار مو کی اہمیت ختم ہو جاتی او ر شاید اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔