پلوامہ//جنوبی کشمیر میں ایک سنسنی خیر واقعہ میں ایک جواں سال کشمیری فوجی آفیسر کو شادی کی ایک تقریب کے دوران اغوا کرنے کے بعد ہلاک کیا گیا۔فوج نے قتل کے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسکا بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے۔مقامی لوگوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہرات کے قریب ساڑھے چھ بجے تین افراد ،جو ہتھیاروں سے لیس تھے،لیفٹنٹ عمر فیاض پرے کے ماموں کے گھر واقع ہند بٹہ پورہ نزدیک بہی باغ شوپیان میں داخل ہوئے، اور سیدھے مکان کی دوسری منزل پر چلے گئے، جہاں انہوں نے لیفٹنٹ کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لیا۔اس موقعہ پر اسکے گھر میں ماموں کی بیٹی کی شادی ہورہی تھی۔جاتے ہوئے اسلحہ برداروں نے گھر والوں اور وہاں موجود دیگر لوگوں کو دھمکی دی کہ پولیس کو اس بارے میں اطلاع کی کوشش نہ کی جائے۔بدھ کی رات ہی عمر فیاض کی گولیوں سے چھلنی لاش 3کلو میٹر دور حرمین چوک شوپیان میں پائی گئی۔اسکے سر،پیٹ اور دیگر جگہوں پر گولیوں کے نشانات تھے۔چنانچہ پولیس کو اطلاع دی گئی جنہوں نے لاش اپنی تحویل میں لی اور فوج کو بھی مطلع کیا گیا۔مذکورہ آفیسر کی لاش پہلے شوپیان ضلع اسپتال پہنچائی گئی اور وہاں ضروری لوازمات کی ادائیگی کے بعد اسکے ورثا کے حوالے کی گئی۔عمر فیاض کی عمر قریب22برس کی تھی اور وہ پرے محلہ سڈسن کولگام کا رہنے والا تھا۔عمر فیاض 8جون1994کو پیدا ہوئے تھے اور اس نے جواہر نوودھیالیہ سکول عیشمقام سے تعلیم حاصل کی اور اسکے بعد وہ نیشنل ڈیفنس اکیڈمی پونے میں داخلہ لیا۔اس نے دسمبر2016میں کمیشنڈ حاصل کیا تھا جس کے بعد وہ2راج رائفلز اکھنور جموں میں تعینات کئے گئے۔اسے ستمبر میں ینگ آفیسرس کورس کیلئے بھی منتخب کیا گیا تھا۔وہ نوکری حاصل کرنے کے بعد پہلی بار رخصت پر آگئے تھے لیکن یہ انکی زندگی کا آخری سفر بھی بن گیا۔اسے 12مئی کو دوبارہ ڈیوٹی پر جانا تھا۔عمر فیاض پہلا کشمیری فوجی آفیسر ہے جو رخصت پر آنے کے دوران مارا گیا ہے۔دریں اثناء جب اس کی ہلاکت کی خبر اسکے ماموں کو دی گئی تو شادی کی تقرین ماتم میں تبدیل ہوئی۔ہر طرف آہ و بکاہ کا ماحول تھا،گائوں میں خوف و ہراس لیکن مذکورہ گھر میں خواتین کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ادھر سڈسنوکولگام میں اس سے زیادہ غم زدہ ماحول تھا۔یاری پورہ کولگام کے نزدیک اس گائوں میں عمر کے گھر میں ہر طرف ماتم چھایا ہوا تھا، لوگ دم بخود تھے۔اسکی لاش اسکے والد فیاض احمد پرے اور اسکے چاچا منظور احمد نے اپنے کندھوں پر لائی تھی۔گھر کے صحن میں ایک خیمہ لگایا گیا تھا جہاں عمر کی لاش رکھی گئی تھی۔اسکی ماں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، اسکے دوست ا احباب پیٹ پیٹ کر رو رہے تھے،قریب ایک ہزار لوگوں نے اسکی نمازہ جنازہ میں شرکت کی۔اسکے چاچا منظور احمد نے بتایا ’’ گذشتہ چار سال میں وہ 12دفعہ گھر آیا لیکن کبھی فوج کی طرف سے دی جانی والی رعایت کا فائدہ نہیں اٹھایا۔وہ دس روز قبل آیا تھا، ہم نے اسے کہا تھا کہ حالات خراب ہیں مت آجاو، لیکن اسکی بہن کی شادی تھی کیسے نہ آتا‘‘۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ لاش پر تشدد کے نشانات تھے،گردن ، کمر، گھٹنوں اور ریسٹ توڑے ہوئے تھے، ایک دانت بھی توڑا گیا تھا۔اسکے علاوہ جسم پر اور بھی تشدد کے نشانات تھے۔اسکی لاش جب گھر لائی گئی تو فوج کے اعلیٰ آفیسر بھی وہاں پہنچ گئے جس کے بعد اسے فوجی اعزاز کیساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ دریں اثنا وزارت دفاع کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے فوجی افسر کے قتل کو بزدلانہ حرکت قرار دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نامعلوم جنگجوؤں نے غیرمسلح فوجی افسر کو اغوا کرکے قتل کردیا۔ انہوں نے بتایا ’لیفٹنٹ عمر اپنے خاندان میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی غرض سے چھٹی پر آیا ہوا تھا‘۔ کرنل کالیا نے بتایا کہ ’فوج سوگوار کنبے سے تعزیت ظاہر کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ اس گھناونے فعل کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘۔