نئی دہلی //سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ مسلمانوں میں رائج طلاق بدعت(تین مرتبہ طلاق کہنے )اورحلالہ کی آئینی موزونیت پر ہی سماعت کرے گا،تعدد ازواج پرفی الوقت غور نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس جگدیش سنگھ کیہر کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ میں کیس کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔ آئینی بنچ کے چار دیگر جج ، جسٹس کورین جوزف، جسٹس روھگٹن ایف نریمن، جسٹس ادے امیش للت اور جسٹس عبدالنذیر ہیں۔ بالترتیب سکھ، عیسائی، پارسی، ہندو اور مسلم کمیونٹیز کے ایک ایک جج کو آئینی بنچ میں شامل کرکے عدالت نے اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اس معاملے میں کسی بھی آخری فیصلے پر مذہب کی بنیاد پر سوال نہ کھڑے کئے جائیں۔ سائرہ بانو، آفرین رحمن، گلشن پروین، عشرت جہاں اور عطیہ صابری نے تین طلاق، حلالہ اور تعددازواج کی آئینی و قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے ۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر سماعت کرے گا کہ طلاق بدعت اسلام کا اصل حصہ ہے یا نہیں؟ سماعت کے دوران سائرہ کے وکیل نے کہا کہ تین طلاق مذہب کا لازمی حصہ نہیں ہے ۔ انہوں نے دلیل دی کہ کسی مذہب کا لازمی حصہ وہ ہوتا ہے ، جس کے حذف ہونے سے اس مذہب کی شکل ہی تبدیل ہو جائے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالسٹر جنرل پنکی آنند نے دلیل دی کہ حکومت درخواست گزار کی اس دلیل کی حمایت کرتی ہے کہ تین طلاق غیر آئینی ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک اسے ختم کر چکے ہیں اور اسے ہندوستان میں بھی ختم کیا جانا چاہئے ۔ جسٹس نریمن نے کہا کہ تین طلاق کے معاملے کی آئینی و قانونی حیثیت کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، " ایک بار میں تین طلاق کے معاملے میں سماعت ہوگی، لیکن تین ماہ کے وقفے پر دی گئی طلاق پر غور نہیں کیا جائے گا۔" عدالت عظمی نے عرضی گزاروں اور مدعا علیہان کے وکلاء کو آگاہ کر دیا کہ وہ کسی ایک ہی نکتہ کا بار بار اعادہ نہ کریں ۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں روک دیا جائے گا۔ عدالت نے سماعت کے دوران یہ بھی جاننا چاہا کہ مسلم پرسنل لاء کیا ہے ؟ یہ شریعت ہے یا کچھ اور؟ قابل ذکر ہے کہ مارچ 2016 میں اتراکھنڈ کی سائرہ بانو نام کی خاتون نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے تین طلاق، نکاح حلالہ اور متعدد شادیوں (تعدد ازواج) کی شرعی حیثیت کو غیر آئینی قراردئے جانے کی مانگ کی تھی۔ سائرہ بانو نے مسلم پرسنل لاء (شریعت) ایپلی کیشنز قانون 1937 کی دفعہ دو کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے ۔ اپنی درخواست میں سائرہ نے کہا ہے کہ مسلم خواتین کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان پر طلاق کی تلوار لٹکتی رہتی ہے ۔ وہیں شوہر کے پاس ناقابل تردید طور پر لامحدود اختیارات ہوتے ہیں۔یہ امتیاز اور عدم مساوات یکطرفہ طور پرتین طلاق کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ جے پور کی آفرین رحمن نے بھی عرضی داخل کی ہے ۔میٹرومونیئل ویب سائٹ کے ذریعے سے شادی کرنے والی آفرین کو اس کے شوہر نے اسپیڈ پوسٹ سے طلاق کا خط بھیجا تھا۔ انہوں نے بھی 'تین طلاق' کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ مغربی بنگال کے ہاوڑا کی عشرت جہاں نے بھی تین طلاق کو غیر آئینی اور مسلم خواتین کے باوقار زندگی گزارنے کے حق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ عشرت نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اس کے شوہر نے دبئی سے ہی فون پر اسے طلاق دے دی اور اس کے چاروں بچوں کو زبردستی چھین لیا۔ اتنا ہی نہیں اس کے شوہر نے دوسری شادی بھی کر لی ہے ۔