سرینگر// حریت(گ)چیئرمین سید علی گیلانی کی خانہ نظربندی اب ساتویں سال میں داخل ہوگئی ہے اور ان کی سیاسی، مذہبی اور یہاں تک کہ نجی سرگرمیوں پر مکمل پابندی کا سلسلہ جاری ہے۔ حریت ترجمان ایاز اکبر نے چیئرمین کی مسلسل نظربندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی دہشت گردی کے اس عمل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آزادی پسند رہنما کو نمازِ جمعہ جیسے اہم دینی فریضے سے بھی محروم رکھا جارہا ہے اور سالہا سال سے انہیں مسجد شریف تک بھی جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ ترجمان کے مطابق اس زور زبردستی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نظربندی کے لیے پولیس کی طرف سے آج تک کوئی حکمنامہ اور نہ کورٹ آرڈر ہی پیش کیا جاسکا ہے۔ گیلانی کو صرف بندوق کی نوک پر یرغمال رکھا گیا ہے اور انہیں اپنے گھر کے دروازے سے کبھی باہر آنے نہیں دیا جاتا ہے۔ گیلانی کے ساتھ ملاقات کے لیے آنے والے لوگوں سے زبردست پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کو بالکل بھی ملنے نہیں دیا جاتا ہے۔ حریت ترجمان نے کہا کہ یہ ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ ہے اور اس کا کوئی آئینی یا اخلاقی جواز موجود نہیں ہے۔
حراست میں گمشدگی پُراسرار:گیلانی
سرینگر//حریت چیئرمین سید علی گیلانی نے شوپیان کے نوجوان زبیر احمد ترے کی پولیس حراست میں گمشدگی کو پُراسرار قرار دیتے ہوئے ان کی فوری بازیابی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں حراستی گمشدگی کے ہزاروں واقعات آج تک پیش آئے ہیں اور اس وجہ سے زبیر احمد کی سلامتی کے بارے میں سخت تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک بڑا سوال ہے کہ کوئی پولیس لاک اپ سے کیسے بھاگ سکتا ہے، جبکہ وہاں سیکورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ بیان کے مطابق گیلانی نے حقوق البشر کے لیے سرگرم مقامی اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائی اور کہا کہ زبیر احمد کی حراستی گمشدگی ایک سنگین معاملہ ہے اور پولیس اگر اس سلسلے میں خاموش رہتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور ان کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔