بر ِ صغیر کے ممتاز صوفی غزل گو پروین کمار اشکؔ کی غزل کوئی اور شخصیت پر دربھنگہ یونیورسٹی (بہار) کی ایک طالبہ ناصرہ خاتون کو یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی سند تفویض کی گئی ہے۔ تقریبا ً دو سو پچاس صفحات پر مشتمل اِس تحقیقی مقالے میں پروین کمار اشکؔ کی غزلیہ شاعری کے امتیازی پہلوئوں کو خوب روشن کیا گیا ہے ، جس میں اشک کی صوفیانہ شخصیت کے کئی گوشے خوش ظہور ہوئے ہیں۔
دربھنگہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور ناصرہ خاتون کے نگران ڈاکٹر احتشام الدین نے یہ خبر فون پر سنائی ۔ اِس خبر سے اردو ادب کے با ضمیر اور سچے پرستاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ہم سب پروین کمار اشک صاحب کو اِس ادبی فتح یابی پر ڈھیروں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
پروین کمار اشک گذشتہ چالیس برسوں سے اپنے ممتاز صوفیانیہ غزلیہ اسلوب اور منفرد موضوعاتی پیش کاریوں کے توسط سے اردو ادب کے سنجیدہ و غیر گروہ بند حلقوں میںاپنی خدا داد تخلیقی قوتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اشک ؔ صاحب کے کوئی دو سو سے زائد اشعار بڑے بڑے غزلیہ انتخابوں ، مضامین اور تذکروں کے توسط سے پوری دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں۔جدید ادب کے مشاہیر ، شاعروں اور نقادوں ، جن میں احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا ، گوپی چند نارنگ ، ستیہ پال آنند ،شمس الرحمن فاروقی ، ڈاکٹر انور سدید ، ساقی فاروقی، محمد علوی، ندا فاضلی، بشر بدر، صابر ظفر، امجد اسلام امجد،ایوب خاور اور عطا الحق قاسمی جیسے نام قابل ِ ذکر ہیں ۔ موصوف کی شعری خدمات پر باکمال تاثرات قلمبند کے ہیں۔پروین کمار اشکؔ نے اردو غزل کو پہلی بار محرب مراقباتی روحانیت سے آشنا کر کے صوفیانہ مکتب ِفکر عطا کیا ہے۔