میرے نصیب میںکوئی طوفان ہے شاید
اس واسطے یہ زندگی سنسان ہے شاید
جل بجھ رہا ہے میری محبت کا دیا جو
ناشادیوں کا میری یہ سامان ہے شاید
وقتِ قضا یہ جان اٹک سی گئی ہے کیوں
جنت نہیں، جہان کا ارمان ہے شاید
اوروں کا درد دیکھ کے دُکھتا ہے مرادل
اندر مرے حیات وہ انسان ہے شاید
تحریر کر رہا ہوں حوادث پہ حوادث
تصویرِ زندگی مرادیوان ہے شاید
اُمید ہے وفا کی تجھے کن سے مسافر
اِس شہر کے مزاج سے انجان ہے شاید
چہرے کے ہائو بھائو بتاتے ہیں یہ عارضؔ
دشمن میر اُڑان پہ حیران ہے شاید
عارض ؔارشاد
نوہٹہ سرینگر
9419060276
چاندنی رات ہے چلے آئو
رس کی برسات ہے چلے آئو
پھر اُسی دھج سے چاند نکلاء آئو!
پھر وہی رات ہے چلے آئو
ساری بازی سنوارلی میں نے
ایک شہہ مات ہے چلے آئو
فصلِ گُل جاچُکی ہے گُلشن سے
اِک ہرا پات ہے چلے آئو
دم نکلتا ہے اِس کی بات نہیں
بات کی بات ہے چلے آئو
میرے دل کی اُداس وادی میں
رقصِ جذبات ہے چلے آئو
بس خُدائی ہے چاند تارے ہیں
یا مری ذات ہے چلے آئو
جانے کب سے ہمارے ہاتھوں میں
ایک سوغات ہے چلے آئو
اِک طرف ہیں سماج کے بندھن
اک طرف بات ہے چلے آئو
آخری دن تھا تم جو روٹھے تھے
آخری رات ہے چلے آئو
وہ ہی پنچھیؔ وہی ہے تنہائی
وہ ہی برسات ہے چلے آئو
سردار پنچھیؔ
259۔ فیس۔3اربن اسٹیٹ ڈگری لدھیانہ141013. پنجاب
94197091668
قطرہ قطرہ تیری آنکھوں
سے نکلتے رہنا
ہم چراغوں کا مقدر ہے کہ جلتے رہنا
منزلِ عشق فقیروں کو ملا کرتی ہے
ہم سے دیوانوں کا تو بس کام ہے چلتے رہنا
باغباں تو نے کہاں سے یہ ڈھب سیکھ لیا
اپنے پیروں تلے کلیوں کو مسلتے رہنا
موجِ دریا تو مسافر سے اْلجھتی کیا ہے
ہم نے سیکھا ہے چٹانوں سے سنبھلتے رہنا
آج شعلوں نے جو گھیرا ہے تو یاد آیا ہے
آگ کی لو پہ پتنگوں کا مچلتے رہنا
سرد موسم میں بھی ناسور پنپتے دیکھے
موسمِ گْل میں بھی زخموں کا اْبلتے رہنا
جانِ جاویدؔ جو مل جائے تو کہنا اب بھی
ہم نے چھوڑا نہیں نیزوں پہ اْچھلتے رہنا
سردار جاوید خان
مینڈھر, پونچھ
رابطہ 9697440404
ماں ہو راضی تو خدا بھی مہرباں ہو جائے گا
دھوپ میں بھی تیرے سر پر سائباں ہو جائے گا
سامنے آیا نہ کر جب میں کہانی لکھتا ہوں
تیرا قصہ لکھتے لکھتے داستاں ہو جائے گا
اْس کی سوچیں مختلف ہیں اور دل میں اک جنون
وہ اگر بڑھتا رہے گا آسماں ہو جائے گا
ایک بندہ ایک ہی پودا لگائے روز اگر
اک نہ اک دن شہر اپنا گلستاں ہو جائے گا
بار بار اپنی صفائی دو نہ اْس کے سامنے
ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا
اشک آنکھوں سے تری باہر نہ آئیں گے اگر
آخرش مہتاب ؔتیرا غم نہاں ہو جائے گا
(بشیر مہتاب) رام بن
فون نمبر … 9596955023
جبکہ میں دور نہیں ہوسکتا
کیسے مشکور نہیں ہوسکتا
اس میں تصویر تیری دکھتی ہے
آئینہ چوُر نہیں ہوسکتا
جو توکل پہ تیرے بیٹھا ہو
وہ تو مجبور نہیں ہوسکتا
قُربِ محبوب ہے جنت سے مُراد
یہ صلہ حُور نہیں ہوسکتا
وہ جسے دوست تیرا بھاتا نہیں
تم کو منظور نہیں ہوسکتا
آج بھی جاری ہے ابلیسی گماں
’’وہ آدمی نور نہیں ہوسکتا‘‘
شعر میں گرہو صداقت فاروقؔ
کیسے مشہور نہیں ہوسکتا
فاروق احمد فاروق
اقبال کالونی آنچی ڈورہ اننت ناگ
9906482111
مزے میں وہ بھی جیتے ہیں، مزے میں یہ بھی جیتے ہیں
ہماری بے بسی دیکھو نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
وہاں کا حال جیسا ہے، یہاں بھی حال ویسا ہے
یہاں بھی عام مرتے ہیں، وہاں بھی عام مرتے ہیں
خدا کا فضل ہے یاروا بھی تک جان باقی ہے
گراتے وہ رہے ہم کومگر ہم ہیں کہ اُٹھتے ہیں
بنا پائے نہ وہ اپنا ،نہ سمجھے یہ ہمیں اپنا
نہ مر ہم یہ لگاپائے، نہ وہ زخموں کو سیتے ہیں
نہ اُن کو درد ہے کوئی،نہ ان کو غم ہمارا ہے
یہ چیرے دل ہمار ا ہے، لہو وہ بھی تو پیتے ہیں
انہیں رنجش پرانی ہے، نبھاتے دشمنی ہیں وہ
مگر جنگِ سیاست میں ہم ہی گھستے ِہیں پستِے ہیں
سمجھ کر اپنا مارے وہ سمجھ کے اپنا کاٹے یہ
عجب یہ کیسی قربت ہے، عجب یہ کیسے رشتے ہیں
ہمارا ظرف تو دیکھو ہمار ا شرف تو دیکھو
ہم سستے دام ملتے ہیں ہم سستے دام بکتےِ ہیں
ذرا خاموش ہو ثاقبؔ نہیں سچ کی کوئی قیمت
تم آنکھیں بندلینا، لبوں کو ہم سبھی سیتے ہیں
ثاقبؔ فہیم
زاورہ شوپیان
9596502688
یہ دائرہ حیات کا کیا تنگ ہوگیا
دل، موم تھا جو کل تلک، اب تنگ ہوگیا
وہ باغِ کاشمر کہ کبھی رشک ِجناں تھا
اب ذرہ ذرہ دیکھ لہو رنگ ہوگیا
جو خواہشوں کے تخت پہ بیٹھا کہ دنوں میں
مٹی سے اُٹھا صاحبِ اورنگ ہوگیا
کام آئوں کسی کے میں، کوئی کام آسکے
فرسودہ نئے دور میں یہ ڈھنگ ہوگیا
اب بس بھی کرو!پیار ترا بارِ گراں ہے
مجروح مرے جسم کا ہر اَنگ ہو گیا
آزادؔ ہوائوں میں اُڑا تھا بہت اُونچا
طوفاں میں ڈولتی کٹی پنگ ہوگیا
شوکت حسین آزاد
زلنگام کوکر ناگ
9596481278