اے مجید وانی احمد نگر
’’ایک سیدھا سادھا معاملہ ہے، مائی لارڈ!
تانگے والے نے نہ صرف ایک بے زبان جانور کو تانگے کی زد میں لاکر ہلاک کیا ہے بلکہ ہاتھا پائی کے دوران جانور کے مالک کو بھی زخمی کر دیا ہے۔
لہذا! قانون کی رو سے اس کیلئے جو بھی سزا مناسب ہو، اُسے ملنی چاہئے‘‘
اتنا کہہ کر سرکاری وکیل واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
یہ کچھ چالیس برس پہلے کی بات ہے کہ جب ایک روز میں کالج جانے کیلئے گھر سے باہر آیا تو تھوڑی دور جنرل روڑ پر ایک تانگے کے ارد گرد لوگوں کی ایک اچھی خاصی بھیڑ دیکھ کر میں بھی اپنی سائیکل اُسی طرف بڈھائی تاکہ دیکھوں کیا معاملہ ہے۔ وہاں دیکھا کہ ایک بطخ خون میں لت پت تانگے کے نیچے مری پڑی ہے اور گریبان سے پکڑ کر ایک عورت تانگے بان کو برُ طرح پیٹ رہی ہے۔نزدیک جاکر جو دیکھا وہ اور کوئی نہیں ہمارے محلے کی حاجی صاحب، جو علاقے کا سرپنچ بھی تھا ، کی بیوی تھی۔ اسی دوران سرپنچ بھی اپنے مکان، جو سڑک کے کنارے ہی تھا، سے باہر آیا اور بیوی کو تانگے والے سے الگ کر کے تانگے والے کی مارپیٹ کرنے لگا۔ تانگے والا اپنا بچائو کرنے لگا اور اس چھینا چھپٹی میں سرپنچ کو کچھ معمولی خراشیں آئیں لیکن تانگے والا بیچارہ برُی طرح زخمی ہوچکا تھا۔ آخر بیچ بچائو کر کے لوگوں نے تانگے والے کو آزاد تو کرا دیا لیکن سرپنچ گھوڑے کی لگام تھام کر تانگے والے سے اپنی بطخ کی قیمت کا تقاضا کرنے لگا۔
’’حاجی صاحب! میں ایک غریب شخص ہوں، مشکل سے دن بھر تانگہ چلاکر اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا ہوں، ابھی تو بونی بھی نہیں کی ہے۔‘‘
تانگے والا ہاتھ جوڑ کر سرپنچ کی منت سماجت کر نے لگا اور آس پاس جمع لوگوں میں سے بھی کچھ نے سرپنچ سے تانگے والے پر انصاف سے کام لینے کیلئے کہا، لیکن سرپنچ، جو کافی تند مزاض تھا، کسی کی سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔
اسی دوران وہاں سے معمول کے گشت پر نکلی پولیس پارٹی کا گزر ہوا اور لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر معاملے کے متعلق پوچھ تاچھ کرنے لگی۔ اُن دنوں پولیس روزانہ صبح شام اپنے علاقے کا گشت لگا کر حالات کا پوری طرح جائزہ لیا کرتی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی اوپر والی آمدنی کے انتظام میں بھی لگ جاتی۔
بہر حال! تانگے والے کو اپنے ساتھ لیکر تھانیدار نے سرپنچ سے بڑے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔
’’حاجی صاحب! آپ کو بھی تھوڑی دیر کیلئے تھانے آنا پڑے گا، تاکہ قانونی لوازمات پورے کر کے تانگے والے کے خلاف کاروائی کی جاسکے ۔‘‘
’’بہتر ہے جناب! میں بھی بس دس منٹ میں آپکے پاس حاضر ہوجائوں گا‘‘ سرپنچ بولا اور ساتھ ہی مُصافحہ کے بہانے کرارا نوٹ تھانیدار کے ہاتھ میں تھما دیا۔
شام کو کالج سے واپس آکر میں نے ایک دوست سے جب اس واقعے کی مذید جانکاری کیلئے کچھ پوچھا تو اُس نے بتا دیا۔
’’ ارے یار! کیا بتائوں، میں بھی بُری طرح پھنس گیا، تھانیدار نے تانگے والے کے خلاف چالان کردیا ہے اور گواہوں میں میرا نام بھی لکھدیا اور دو ہفتوں کے بعد اس معاملے کی اب عدالت میں سماعت ہوگی۔‘‘
سماعت والے دن میرا دوست مجھے زبردستی اپنے ساتھ عدالت لے گیا جہاں سرپنچ ، اُس کے رشتہ دار اور دوست و احباب موجود تھے اور تانگے والا بیچارہ پولیس حراست میں بالکل تنہا دور خلائوں میں نظریں جمائے کچھ تلاش کر رہا تھا۔
عدالتی کاروائی شروع ہوئی اور سرکاری وکیل کے دلائل اور گواہوں کے بیانات سُننے کے بعد جج نے تانگے والے سے پوچھا۔
’’کیا اپنے بچائو کیلئے تم نے کوئی وکیل مقرر کیا ہے؟‘‘
’’جج صاحب! تانگے والا بڑی عاجزی سے بولا۔ میں مشکل سے دن بھر تانگہ چلا کر پانچ دس روپے کمالیتا ہوں، اب آپ ہی بتائیے، میں کیسے اپنے بچائو کیلئے وکیل مقرر کر سکتا ہوں۔‘‘
’’اپنی صفائی میں تجھے کچھ کہنا ہے۔ جج نے تانگے والے سے پوچھا‘‘
’’جج صاحب! میں ٹھہرا ایک موٹی عقل والا سیدھا سادھا انسان۔ اپنی صفائی میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ بطخ ایک آبی جانور ہے اور ایک آبی جانور کو خُشکی پر پالنا نہ صرف قانونِ قدرت کے سرا سر خلاف ہے بلکہ دنیا وی قانون میں بھی یہ ایک جرم ہے اور مجھے اُمید ہے کہ میری یہ دلیل سن کر قانون میرے ساتھ ضرور انصاف کرے گا۔‘‘
تانگے والے کا یہ بیان سن کر کمرۂ عدالت میں چہ مے گوئیاں ہونے لگیں اور لوگ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے، ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی ویران جگہ پر ہزاروں مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں، جبھی کمرے میں جج کی گرجدار آواز سنائی دی۔
’’آڈر، آڈر‘‘ ۔’’ تمام گواہوں کے بیانات ، سرکاری وکیل کی دلیل اور اپنے بچائو میں تانگے والے کا بیان سن کر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تانگے والے کو باعزت بری کیا جائے اور ایک آبی جانور کو خشکی پر پالنے کے جرم میں سرپنچ کو ایک سو روپے جرمانہ اور تانگے والے کو زخمی کرنے کی پاداش میں چار گھنٹے قید کی سزا سنائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی عدالت کی کاروائی برخواست کی جاتی ہے۔‘‘
پھر باہر آکر میں نے دیکھا کہ تانگے والے کے گرد لوگوں کی ایک خاصی تعداد اُسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اگر کوئی تنہا تھا تو صرف سرپنچ جسے دو خاکی وردی والے چار گھنٹے کی قید گزارنے کیلئے تھانے کی طرف لیجا رہے تھے۔
رابطہ 9697334305