سرینگر // کتوں کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے بیچ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شہر سرینگر میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ کتوں کی نئی نسل پیدا ہونے کے باوجود بھی سرینگر میونسپل کارپوریشن کی جانب سے قائم کیا گیا نس بندی کا آپریشن تھیٹر بے کار پڑا ہے۔سرینگرشہرمیں کتوں کی بڑھتی تعداد سے جہاں عوام پریشانی میں مبتلا ہے وہیںسرکار کی جانب سے غیر ملکی این جی او کی مدد سے کتوں کی نس بندی کیلئے آج تک سپیشل سکارڈ تشکیل دیا گیا اورنہ ہی نس بندی کا فعال مرکز تعمیر کیا گیا۔ اگر کتوں کی برھتی آبادی پر قابو نہیں پایا گیا تو10برس کی مدت گذرنے کے بعد وادی میں کتوں کی تعدادکئی لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور بعد میں انہیں قابو کرنا بھی مشکل ہوسکتا ہے ۔سرینگر شہر میں آورہ کتوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے کیلئے جامع اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو وہ وقت دور نہیں جب یہاں کتوں کی آبادی انسانوں سے زیادہ ہوسکتی ہے ۔ماہرین کے مطابق 2013میں ایک این جی او کی طر ف سے کی گئی سروے کے مطابق سرینگر شہر میں کتوں کی تعداد50 ہزارتھی اور گذشتہ 3برسوں سے کتوں یہ تعداد کئی گناہ بڑھ گئی ہے ۔ماہرین کے مطابق 2013میں کی گئی سروے کے مطابق سرینگر شہر میں 50ہزار آورہ کتوں میں 15ہزار کتیا بھی تھیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک کتیا سال میں 20بچوں کو جنم دیتی ہے اور اگر مان لیا جائے کہ پیدائش کے بعد قدرتی اموات کے باعث کتوں کی تعداد میںنصف فیصد کمی بھی واقع ہوجائے تب بھی ہر سا ل ڈیڑ لاکھ آوارہ کتوں کی نسل وجود میں آجاتی ہے جو کئی بیماریوں کا سبب بننے کے ساتھ انسانی نفسیات پرمضر اثرات مرتب کر کے نظام میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔ایک طرف آئے روز کتے انسانوں پر حملہ آور ہورہے ہیں اور دوسری طرف سرینگر میونسپل کارپوریشن سائنسی و ٹیکنیکی طور پر کتوں کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہورہا ہے ۔اگرچہ کئی سال قبل کتوں کی نس بندی کے لئےSKUAST شوہامہ میں ایک سنٹر بھی قائم کیا گیا تاہم وہ اتنا فعال نہیں ہے کہ بڑھتی تعدا کو روکنے کے لئے مدد گار ثابت ہوسکے ۔مذکورہ سنٹر پر ایک دن میں صرف 10سے 15کتوں کی نس بندی کی جاسکتی ہے۔اس دوران سرینگر میونسپل کارپوریشن نے ٹینگہ پورہ علاقہ میں ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت سے تیار ہونے والے ایک جدید نس بندی مرکز کیلئے منصوبہ حکومت کو پیش کیا تاہم ٹینڈرینگ کے باوجو بھی یہ منصوبہ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہا ۔اس سنٹر کے بننے سے جہاں روزانہ ایک سو کتوں کی نس بندی کی جاسکتی تھی وہیں سینکڑوںبے روز گار ویٹرنری ڈاکروں کی تعیناتی بھی عمل میںلائی جاسکتی تھی ۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن میںویٹرنری آفیسر سرینگر ڈاکٹر جاوید احمد راتھر نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ کتوں پر قابو پانا ناممکن نہیں ہے اگر اس کیلئے جدید نس بندی سینٹر کاقیام ناگزیز ہے۔انہوں نے کہا کہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کیلئے لوگ بھی ذمہ دار ہیں جو صبح اور شام بچا ہوا کھانا اور گھر سے نکلا ہوا فضلا بجلی کے کھمبوں، گلی کوچوں اور سڑک کے کناروں پر پھینک دیتے ہیں جو آوارہ کتوں کا مرکز بن جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دیگر شہروں کو کتوں کو اس طرح غذا دستیاب نہیں ہوتا ہے جس طرح یہاں کتوں کو مل رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ شہر میں 500کھلے کوڑے دان تھے اور گذشتہ برس تک 300ایسے کوڑے دانوں کو بند کیا گیا اور دیگر کھلے کوڑے دانوں کو بند کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ شہرسرینگر میں ہر روز450میٹرک ٹن کوڑا کرکٹ نکلتا ہے جس میں 250میٹرک ٹن ایسا فضلا ہوتا ہے جو کتوں کے لئے موافق غذا ہے ۔انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کوڑا کرکٹ کو سڑکوں ،گلی کوچوں اور نکروں پر پھینکنے کے بجائے ایس ایم سی کی طرف سے لگائے گئے کوڑا دانوں میں جمع کرائیں ۔