ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی یاصحیح تر الفاظ میں آر ایس ایس ،جب سے مرکز سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں بحیثیت حکمران جماعت بن کر اُبھرآئی ہے ، بھارتی سوشل میڈیا نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے نجی افعال اور عائلی معاملات کے متعلق غیر ضروری موضوعات پر خواہ مخواہ بحث و مباحثوں کی جنگ اس انداز میں زوروشورکے ساتھ چھیڑدی ہے کہ جیسے یہی سوشل میڈیا ملک کے آئین و قوانین سے بالاتر ہے ۔کافی عرصہ سے تین طلاق ،بابری مسجد رام مندر تنازعہ اور گائو کشی کے موضوعات پر مبنی خوامخواہ کے معاملات پر بے جانشستوں کاسلسلہ تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ جن کے مشاہدے سے عیاں ہورہاہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کرائے جارہے ان مباحثوں کے لئے ایسے افراد کو بطور اینکر (Anchor)براجماں رکھا گیا ہے ،جن کی گفتگوکا اندازِ بیان اور اظہار خیال بخوبی ثابت کرتا ہے کہ وہ نہ صرف حاسدانہ ذہنیت کے مالک ہیں بلکہ نظریاتی طور پرمسلمانوں کے خلاف بغض وعناد اور تعصب سے اَٹے پڑے ہیں۔ظاہر ہے مسلمانوں کے لئے تین طلاق کے بارے الہامی کتاب قرآن مجید اور احادیث رسول ؐ میں صاف صاف الفاظ میں ہدایت و وضاحت درج ہے ،جن پر کسی قسم کی شک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں ،جبکہ یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں میاں بیوی کے درمیان طلاق نہایت ناپسندیدہ حرکت ہے ۔تاہم جب کبھی کسی مسلم جوڑے کے درمیان ازدواجی تنازعے کے حل میں تما م تر کوششیں ناکام پڑجائیں تو طلاق کی گنجائش موجود ہے۔الغرض دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،اس کے قوانین بالکل اٹل ہیں،جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور اگر بعض اوقات اسلام کا کوئی پیرو کاراپنی ازدواجی زندگی میں جھگڑے،تنائو یاکشیدگی کے باعث غصے، جہالت ،حرص ،حسد یا لاعلمی میں اپنی بیوی کو یکبارتین طلاق دیتا ہے تواس سے یہ اخذنہیںکیا جاسکتا کہ دین اسلام اور شرعی قوانین میں کوئی کمی ہے ۔جبکہ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج بھی ہندوستان عوام میں ازدواجی مسائل کے نتیجے میںجتنی طلاقیں ہورہی ہیں ،اُن میں مسلمانوں میں طلاق کا شرح تناسب ہندوئوں سے بہت کم ہے ۔اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ کسی مسلمان شوہر کی غفلت ،جہالت یا اپنے دین سے لاعلمی کے نتیجہ میںاس کی مطلقہ بیوی کی زندگی تباہ ہوئی یا اس کے ساتھ بلا جواز ناانصافی ہوچکی ہے ،جس میں کسی نام نہاد یا لا علم دینی عالم کا متضادفتویٰ یا کسی مسلم سماجی رہنماء کی رائے،مداخلت یا عناد و لالچ کارفرما ہو ،تو اُس سے بھی ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا ہے کہ شریعت کے نظام نعوذباللہ ایسا کوئی نقص ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔حالانکہ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ بی جے پی(آر ایس ایس)،جس کے ہاتھ میں اس وقت مرکزی سرکار بھی ہے ،کا رویہ شروع سے ہی مسلمانوں کے تئیں متعصبانہ اور مخالفانہ رہا ہے۔بی جے پی کی اس مسلم دشمن روایتی پالیسی اور ہندوتوا نعرے جس کے پس منظر میںاُس نے گائو کشی پر پابندی ، رام مندر کی تعمیراور یکسان سول کوڈبھی شامل کرلیا ہے، کا اصل مقصد یہی ہے کہ جن ہندتوا نعروں کی بدولت وہ ملک بھر میں اُبھر آئی ہے، اُن نعروںکا اُبال بہر حال کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہ سکے تاکہ وہ ایک لمبے عرصے تک ملک میں اپنا راج تاج قائم رکھ سکے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میںمسلمانوں کے نجی اور دینی معاملات کے خلاف میڈیا پر بے جا طریقے پر بحث و مباحثوںکا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے جن میںمختلف فرضی اور حقیقی واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے عام طور پر اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کیا جاتا ہے ۔شیو سینا یا سنگھ پریوار اور اس قسم کی دیگر تنظیمیں مسلمانوں کے شرعی قوانین کو عورتوں کے خلاف جتلاکر ان کو تبدیل کرنے کی بے ہودہ باتیں کرتی رہتی ہیںاور اس سلسلے میں یہ تعصب زدہ لوگ تین طلاق کو زیادہ سے زیادہ اچھال کر اسلام اور مسلمان دونوں کو بدنام کررہی ہیں ۔ تین طلاق پر روک لگانے کے لئے جس طرح کا شوروغوغا برپا کردیا گیا ہے ،وہ تو بالکل فضول ہے البتہ ملک کی مسلم قوم میں بیداری و شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ،جس کے دفاع کے لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں سادگی کا مظاہرہ کریںاور کوئی ایسا عمل ہرگزنہ ہونے دیںجو شریعت اسلامیہ کے خلاف ہو،یا زندگی پر اس مضر اثرات ہوں،اسی طرح تین طلاق کے متعلق جو بھی معاملات ہوں اُن کے مقدمات فیملی کورٹ کے بجائے شرعی عدالتوں میں پیش کئے جائیںاور وہاں سے جو بھی فیصلہ صادر ہو، اُس کو صدق دلی سے قبول کیا جائے اوراپنے وہ ذاتی افعال جو دوسروں کو ہمارے بارے میں غلط سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں اُن پر مسلکی طور پر بحث و مباحثے یامناظرے کرنے،مقالے پڑھنے یا مضامین لکھنے میں اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے عملی طور پر خود کو ایک بہتر انسان بناکر ثابت کردیں کہ ہمارے شرعی قوانین کتنے بہتر ،مثبت اور اعلیٰ ہیں ۔بھارت کے موجودہ حکمرانوںاور بی جے پی کے رہنمائوں کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کا یہ معاملہ مسلمانوں پر ہی چھوڑ دیں اور اس پر اپنی ہٹ دھرمی نہ دکھائیں۔اسی طرح بابری مسجد رام مندر تنازعہ جسے منافرت کے تحت ناحق کھڑا کردیا گیا ،ہند و کٹر پنتھ طبقہ نے اپنے سیاسی مفادات اورذاتی مقاصد کے لئے زندہ رکھا ہے ۔چنانچہ ہندوستان میں فرہنگی دور سے آج تک یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر کو مسمار کرکے ہوئی ہے یا یہ مسجد رام جنم بھومی کی اراضی پر تعمیر کی گئی تھی۔ظاہر ہے کہ اگر اتنے طویل عرصے سے بھارت کی سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ یا کسی بھی منصف عدالت میں اس بابت پختہ شہادتیںیا گواہ مل گئے ہوتے تو کیا آج تک رام مندر کی تعمیر نہ ہوئی ہوتی۔اب انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر نو اپنی جگہ ہوجائے اور رام مندر کو مسجد احاطے کے باہر تعمیر کیا جائے تاکہ ملک میںانصاف کی بالادستی کا بول بالا ہوجائے۔گائو کشی کی بات کریںتو کون ایسا بدبخت یا جاہل ہوگا جو دودھ دینے والی گائے کوبلا وجہ ذبح کرتا ہوگا ۔ اس وقت بھارت میں گائیوں کی تعداد پچیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ،ان میں کتنی گائیں ایسی ہونگی جو لاغر ،بے سود یا بوڑھی ہوئی ہوں گی،اس طرح کی ناکارہ گائیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جن کو کوئی شخص پال بھی نہیں سکتا ۔اس کے نتیجہ میںیہ لاغر ،بے سود اور ناکارہ گائیں شاہراہوں،سڑکوں ،گلی کوچوںیا بھرے بازاروں میںگھومتی رہتی ہیںاورخوراک کی تلاش میں مختلف حادثات میںلقمہ اجل بن جاتی ہیں ۔ایسی صورت حال میں نہ صرف ماحولیات آلودہ ہوجاتا ہے بلکہ اربوں روپے مالیت کا نقصان بھی ہوجاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اگر ایسی گائیوں کو باضابطہ طور ذبح کرنے کے اقدامات نہیں کئے جائیں تو جگہ جگہ مری سڑی گائیوں کے ڈھیر لگ جائیں گے ،ماحول بھی آلودہ ہوگا اور کثیر مالیت کا نقصان بھی اٹھانا پڑے گا ۔بغور دیکھا جائے تو اس وقت ہندوستان میں حالات نہایت ابتر ہیں،لاقانونیت کا دور دورہ ہے ،خواتین کی زندگی عدم تحفظ کا شکارہے ،اغوا کاری ،عصمت دری اور قتل کی وارداتیں عام ہے۔اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کوچھو رہی ہیں،ناجائز منافع خوری کا بازارگرم ہے،جس کے نتیجہ میں عام ہندوستانی کی زندگی اجیرن بن چکی ہے ۔چالیس کروڑ ہندوستانی خط افلاس کے نیچے زندگی گزار رہے ہیںان میں بیشتر لوگوں کو ایک وقت کی روٹی تک نصیب نہیں ہوتی جبکہ گرمیوں اور سردیوں میں لاتعداد لوگ بغیر چھت کے فٹ پاتھوںیا کھلے و بنجر زمینوں پر زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔اٹھارہ سے پچاس سال عمر تک دس کروڑ ہندوستانی بے روز گار پڑے ہیں ،جن میں مسلمانوں کی ایک خاصی تعدا د شامل ہے ۔سارے ملک میں منافرت کی لہر جاری ہے جس میں انسانیت دم توڑ رہی ہے ۔ایسے حالات پر قابو پانے کے بجائے ہندوسانی عوام کوخوامخواہ کے معاملات میں اُلجھا کر مسلمانوں کے خلاف منافرت میں مبتلا کرکے انہیں مزید ابتر کرنے کی کوششیں جاری ہیں،جس سے ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اورایسا لگتا ہے کہ اگر بروقت ان حالات کو بدلنے ،امن و امان قائم کرنے ، انصاف کوپروان چڑھانے ، بغیر مذہب و ملت عوام کی فلاح و بہبود ی کے کام کرنے اورملکی عوام کے مابین باہمی بھائی چارہ کو نئے سرے سے فروغ دینے میں لیت و لعل کی پالیسی برقرار رکھی گئی توجلد یا بدیر ملک کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے ،جس کا سارا خمیازہ ہندوستانی عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا ۔
Mob.9858434696