۱۵ فروری ۲۰۱۷ ء کی یخ بستہ صبح کے6 بجے میںاپنے دوساتھیوں کے ہمراہ مولانا انور شاہ کشمیری ہوسٹل(MAK) سے کشمیر یونیورسٹی کے بابِ رومی(Rumi Gate)کے لئے روانہ ہوا، جہاں یونیورسٹی کے شعبہ سماجی بہبود (DSW)کی گاڑی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے ہم قریب 30طلباء و طالبات شمالی ہندوستان کے مختلف علاقوں کے دورے پر جا رہے تھے۔ شعبہ اُردوسے ہم تین طلبہ آزاد راتھر ، با نی عمر اور راقم الحروف دورے میں شرکت کر رہے تھے۔ باب رومی پر دیگرطلبہ وطالبات بھی گاڑی میں سوار ہو رہے تھے۔فجرکاوقت قریب تھا، راقم السطور آزاد بھائی کے ہمراہ حضرت بل سفرشروع کرنے سے قبل بارگاہِ ایزدی میں نمازدوگانہ اداکی ۔روشنی ظاہر ہو چکی تھی، تند و تیز ٹھنڈ کے تھپیڑے ہمارے جسموں سے ٹکرا رہے تھے۔ گاڑی میں کمبل لپیٹ کر طلبہ مختلف ٹولیاں بنا کر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور اس طرح سے پہلی دفعہ جموں و کشمیر کی حدود سے باہر جانے کے اس سفر کا آغا زہوا۔ ہماری گاڑی صبح کے ٹھیک 7:15 پر بابِ رومی سے روانہ ہوئی۔ رعنا واری اور ڈلگیٹ میں مزید کچھ طالبات گاڑی میں سوار ہوئیں۔ شعبہ سماجی بہبود( DSW) کی جانب سے ہمارے نگران و ذمہ داران محمدسلطان میر صاحب، شاہ نواز صاحب ، داوؤد بھائی اور ڈرائیو رمحمد شفیع صاحب تھے۔ کڑاکے کی ٹھنڈ کو چیرتے ہوئے ہماری گاڑی رواں ہوئی اور قاضی گنڈ کے مقام پر نمکین چائے نوش کرنے کے لئے رکی۔ 10:49 پر ہم نے ڈھائی کلو میٹر لمبے جواہر لعل ٹنل کو 5 منٹ میںطے کیا۔ چاروں طرف سے برف پوش پہاڑ نظر آ کر حسین منظر پیش کر رہے تھے اوراللہ کی تخلیق وکاریگری کودیکھ مشامِ جاں کومعطر کررہے تھے۔
ٹنل کو پار کرتے ہی ہم صوبہ جموں میں داخل ہو چکے تھے۔ لیکن بانہال پہنچے ہی تھے کہ ہماری گاڑی خراب ہو گئی ۔ گاڑی کے آگے بڑھنے کے مواقع کم نظر آئے۔ چنانچہ ذمہ داروں نے یونیورسٹی سے رابطہ کر کے دوسری گاڑی منگوائی اور قریب ۲ گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ہم ایک نئی گاڑی میں سوار ہوئے جسے زبیر نامی ڈرائیور چلا رہے تھے۔رفتہ رفتہ گاڑی آگے بڑھتے ہوئے ۳ بجے ناشری رام بن پہنچی جہاں ایشیا کا سب سے بڑا ’ناشری چنینی روڈ ٹنل‘ (جس کا افتتاح وزیر اعظم ہند نے 2 اپریل کو کیا) تعمیر کیا گیا ہے۔مذکورہ ٹنل۱۰ کلو میٹر لمبا ہے اورکشمیر کو جموں سے ملانے میں۳۰کلو میٹر کی مسافت کم کرتا ہے۔ گاڑی اب ہوا سے باتیں کر تے ہوئے پٹنی ٹاپ کے سیاحتی مقام سے گزر کر سمرولی کے مقام پر رُکی جہاں ہم نے ایک گوجر ہوٹل میں کشمیری چائے پی اور لذیذپراٹھوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ نمکین چائے کشمیر ی تہذیب و تمدن کاجزوِ لاینفک ہے۔ غیر کشمیری سردرد کورفو کرنے اور ذہن میں تازگی پیدا کرنے والی اس نعمت سے بے بہرہ ہیں۔ پٹنی ٹاپ ایک سیاحتی مقام ہے اور موسم گرما میں دنیا بھر کے سیاح یہاں چُھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ لیکن ہم بد قسمتی سے موسم سرما میں پتنی ٹاپ دیکھ رہے تھے،لہٰذا گاڑی رکائے بغیر ہی اونچائی سے رفتہ رفتہ ہم جموں کی ہموار اور سپاٹ سرزمین کی اور بڑھنے لگی۔ جموں کی اور بڑھ ہی رہے تھے کہ گرم ہوائوں کا سلسلہ شروع ہو چُکا تھا ۔ موسم میں ایک تغیر محسوس ہو رہا تھا، گاڑی سے باہر کے نظارے خوبصورتی کامنظر پیش کر رہے تھے۔ اِن نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بالآخر شام کے ۸ بجے ہم ادھمپور پہنچے۔ ادھمپورجدید طرز پر قائم کیا ہوا ایک شہر ہے۔شہر کی تعمیر وترقی دیدنی تھی اورجدید سڑکوں اور عمارتوں سے مزین یہ شہر رات کو حسین نظارہ پیش کر رہا تھا۔ ادھپمور سے ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے بالآخر شام کو 9بجے ہماری گاڑی جموں ریلوے اسٹیشن توی پر رُکی، جہاں ہم نے ہوٹل کالیکا دھام(Kalika Dham) میں قیام کیا۔ ایک مقامی ہوٹل میں رات کا کھانا کھایا اور مسجد شریف ریلوے اسٹیشن جموں میں دن بھر کی نمازیں ادا کیں۔ موسم میں قدرے تبدیلی محسوس ہو رہی تھی، ہم ایک سرد علاقے سے گذر کر ایک گرم علاقہ میں آئے تھے۔ بچپن میں اُردو کی نصابی کتاب میں ’جموں سے سرینگر تک ‘کا سفرنامہ پڑھا تھا، لیکن آج از خود اِس سفر کا تجربہ حاصل ہو گیا۔
۱۶ فروری جمعرات کا دن، موسم خوشگوار تھا، پروگرام کے عین مطابق ہم سارے طلبہ و طالبات جموں یونیورسٹی گئے ۔ ہم اُردو طلبہ شعبہ اُردو گئے اور وہاں کے صدر ِشعبہ سے ملاقی ہوئے۔ علاوہ ازیں دیگر اساتذہ اور کلاس میں طلبہ و طالبات سے بھی اُردو زبان و ادب کے متعلق گفتگو ہوئی۔ یونیورسٹی سے باہر آتے ہی ہم شہر جموں دیکھنے نکلے۔ بکرم چوک، رگوناتھ مارکیٹ اور توی علاقوں سے گزہوتے ہوئے ہم جموں بس اسٹینڈ پہنچے جہاں ہم نے ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ کھانا کھا کر ہم جموں کے سیاحتی مقام ’باغِ باہو ‘کے لئے ایک گاڑی میں سوار ہوئے۔ باغ دریا توی کے کنارے پر ایک پہاڑی پر جدید طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں پر پانی کے چھوٹے چھوٹے جھرنوں کے علاوہ جدید صلاحیتوں سے مزین ہندوستان کا سب سے بڑا مچھلی ایکویریم(Fish Aquarium)بنایا گیا ہے۔ راجا جامبو لوچن کے نام سے منسوب یہ باغ ڈوگرہ حکمرا ن مہاراجہ گلاب سنگھ نے انیسویں صدی میں تعمیر کرایا تھا۔ یہ ایک سیاحتی مقام ہے جہاں مقامی باشندوں کے علاوہ غیر مقامی باشندے بھی آتے ہیں۔ شام کو ہم ریلوے اسٹیشن بھی گھومے جہاں سے ہندوستان کے مختلف ریاستوں کے لئے ریلیں چلنے کے لیے تیار تھیں۔جموں ریلوے اسٹیشن کشمیر ریلوے اسٹیشن کے مقابلے میں کافی پرانا ہے۔ یہ ریلویں اسٹیشن انگریز سامراج کے دور میں 1897ء میں بنایا گیا اور تقسیم ہند کے بعد یہ بند ہو گیالیکن 1975 ء میں اسے از سر نو شروع کیا گیا۔
اگلے روز صبح ساڑھے پانچ بجے ہماری گاڑی امرتسر کے لئے روانہ ہوئی۔ پٹھان کوٹ میں صبح کی چائے پی۔ ہم گاڑی میں دو گروپس تھے، ایک گروپ’’ آزاد خیال‘‘ جب کہ دوسرا اسلامی حدود و قیود کا پابند ۔آزاد خیال والے گاڑی میں بالی ووڈ کے رومانوی، بھانگڑے اور ریمکس نوعیت کے نغموں کو ٹیپ پر چلانے کے خواہاں تھے جب کہ اسلام پسند اس کے برعکس اخلاقیات پر مبنی کلام کو ٹیپ پر چلانے پر اصرار کرنے لگے۔اِس موضوع پر بس میں ان دو گروپس کے درمیان اختلاف ِ رائے تھا اور ہلکے پھلکے دلائل اور جوابی دلائل کادور بھی چلا ۔ اسلام پسندوں کی تعداد گروپ میں چونکہ قلیل تھی، لہٰذا گاڑی کے ڈرائیورزبیر نے جمہوریت کے اصول کو عملا کر آزاد خیال کی خواہشوں کا پاس کر کے ٹیپ کو حرکت دی اوراسلام پسندوں نے مجبوری کے تحت اپنے اپنے کانوں میں ائیر فون ڈال کر اپنے من پسند اخلاقی نغمے سننا شروع کیے۔
امرتسر کے لئے جو ں جوں ہماری گاڑی آگے بڑھ رہی تھی ، گرم ہوائوں کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ ہندوستان کے امرتسر کی اس سرزمین میں گھومنے کا ایک عجیب احساس اُجا گر ہو رہا تھا۔ قریب 12 بجے ہم گورونانک دیو یونیورسٹی امرتسر پہنچے۔ ہمارے قیام کا انتظام یونیورسٹی کے بوائز ہوسٹل میں ہوا ، طالبات کے لئے گرلز ہاسٹل الاٹ ہوا لیکن ابتداء میں لڑکیوں نے وہاں قیام کرنے سے انکار کر دیا ، کیونکہ وہاں پرگند تھی اور مرے ہوئے چوہوں سے پیدا شدہ بد بو بھی آ رہی تھی۔ چنانچہ ذمہ داروں سے بات کرکے وہاں خوب صفائی کرائی گئی اور لڑکیاںبالآخر وہاں منتقل ہوئیں۔ یونیورسٹی کے بوائز ہوسٹل دیکھ کر ہمیں اپنے ہوسٹل کے حالات یاد آئے جو طوعاً وکرہاً تعمیر تو کرا دیے گئے ہیں لیکن اِن ہوسٹلز کو مینٹین کرنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیاہے۔ لیکن گورو نانک دیو یونیورسٹی کے یہ ہوسٹلزہر لحاظ سے قابل دید تھے۔ ہوسٹلز کی تعمیر اعلیٰ اور معیاری تھی ، کمرے کشادہ اور صاف تھے اور طالب علم کو پڑھائی کے لیے متعدد سہولیات میسر رکھی گئیں تھی۔ہوسٹل میں کچھ دیر آرام کر کے ہم سارے امرتسر میں سکھ مت کے مشہور و معروف روحانی مقام ہر مندر صاحب (گوردوارہ)کے لئے روانہ ہوئے۔ ہر مندر صاحب یا دربار صاحب کو عام طور پر گولڈن ٹیمپل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔سکھ مت کے گورو رام داس اور امر داس نے سولہویں صدی عیسوی میں اِس گوردوارے کو تعمیر کرایا تھا۔ ہم سارے طلبہ و طالبات الگ الگ ٹولیوں میں گوردوارے کو دیکھنے گئے۔گوردوارے میں داخل ہونے کے لیے چار دروازے ہیں اورگوردوارے کے وسط میں ایک جھیل بھی ہے جس کے پانی کو لوگ متبرک سمجھتے ہیں۔ گوردوارے میں نظم و ضبط اور صاف صفائی کا خاص اہتمام تھا۔ گوردوارے میں ہم نے ایک انوکھی بات یہ دیکھی کہ دروازے پر ننگے سر ہمیںاندر جانے سے منع کیا گیا اور ہمارے سروں پر ایک رومال رکھوایا گیا ۔راقم نے مندر کے اندر کچھ وقفہ کے لئے سر سے رومال اُتارا ہی تھا کہ دفعتاً وہاں کے رضا کار میرے پاس آئے اور سختی سے مجھے رومال پہننے کا حکم دیا۔ راقم نے اس معاملے میں اُن سے استفسار کر کے کہا ’’یہ سخت روش آپ کسی غیر سکھ کے ساتھ کیونکر برت سکتے ہیں؟ غیر سکھوں کو یہاں آزادی ہونی چاہیے۔‘‘ اس سوال پر سکھ مت کا جوشیلا پیرو کار کوئی منطقی جواب نہیں دے پایا۔گولڈن ٹیمپل میں ہمیں سکھ بھائیوں سے بات کر نے کا موقع بھی ملااور ہم سے وہ پوچھتے رہے: کشمیر میںآتنگ واد کیوں ہے؟بچے پتھر بازی کیوں کرتے ہیں؟آپ ایک خطرناک علاقے میں کس طرح زندگی گزارتے ہو؟ وغیرہ وغیرہ ۔گوردوارے سے باہر آتے ہی ایک اور غیر معمولی تجربہ ہوا۔ ہوا یوں کہ ہم دو دوست ایک سکھ دکان پر گئے جہاں تلواریں اور نیزے فروخت کے لئے لٹک رہے تھے۔ دُکان پر لٹکتی تلواروں کی دھا رموٹی تھی۔ چنانچہ میرے ایک ساتھی عمرساحل نے دکان دار سے پوچھا کہ اِس تلوار کی دھار موٹی کیوں ہے؟ جواب میں دکاندار نے ترش روی سے کہا ’’ ہم اس تلوار کو پیار و محبت بانٹنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، جب کہ آپ مسلمان اسے خون خرابے کے لئے استعمال کرتے ہیں‘‘ یہ متعصبانہ اور غیر حقیقی بات سن کر ہمیںسخت ناگوار گزرا۔ راقم نے اُس سکھ بھائی کو حقیقت پر مبنی جواب دینا چاہا لیکن موقع و محل دیکھ کر چپ سادھ لینے میں ہی عافیت سمجھی۔خیر ۱ گھنٹہ گولڈن ٹیمپل میں گزار کر ہم اپنی قیام گاہ کی اور چل دیے۔
اگلے روز سنیچرہونے کے سبب یونیورسٹی بند تھی اور ہم اپنے اپنے شعبوں میں نہیں جا سکے۔ چنانچہ صبح ناشتہ کر کے ہم اپنی گاڑی میں واگہہ بارڈر، جو کہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں پر واقع ہے، کے لئے روانہ ہوئے۔ہندوستان کے پنجاب اور پاکستان کے لاہور کو جوڑنے والا یہ بارڈر ایک اہم علاقہ ہے جہاں پر ہندوستانی اور پاکستانی فوجی عسکری تقریب روزانہ منعقد کرتے ہیں۔ راستہ میں ہماری گاڑی کی پیشانی پر ٹانکے گئے بینر’’ کشمیر یونیورسٹی‘‘ دیکھ کرراہ گیر عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کشمیر چونکہ اپنی گونا گوں حیثیتوں سے پوری دنیا میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اوراس بات کا احساس ہمیں پورے دورے میں ہوا کہ ہماری گاڑی جہاں بھی جاتی تھی ، گاڑی پر لگے بینر پر’ ’کشمیر ‘‘کا نام پڑھتے ہی لوگ ہماری گاڑی کو مختلف نظروں سے دیکھتے تھے۔ واگہہ بارڈر پر پہنچ کرہم نے دیکھا کہ پاکستان چند قدم کے فاصلے پر ہی ہے ۔ اگر چہ پاکستان میں دہشت گردی عروج پر ہونے کے سبب انسانی جانوں کا متواتر زیاں ہو رہا ہے لیکن کلمہ کی بنیاد پر بننے والے مملکت خداداد سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُنسیت ہے۔
واگہہ بارڈر پر گذشتہ کئی سال سے فوجی پریڈ تقریب بلاناغہ منعقد کی جاتی ہے جسے پاکستان اور ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ اس تقریب کے دوران فوجی اپنے اپنے ملک کے جھنڈوں کو سلامی پیش کر تے ہیں اوردونوں ممالک کے فوجی ایک دوسرے سے مصافحہ بھی کرتے ہیں۔ اُس روز دونوں جانب سے یہ تقریب الگ الگ طریقوں سے شروع ہوئی۔ہندوستانی فوجیوں نے ایک بڑے ٹیپ پر بالی ووڈ کے نغمے چلائے جس پر عورتیں ، کم سن اور جوان لڑکیاں کھلے میدان میں رقص کرنے لگیں جب کہ پاکستان کی جانب سے ٹیپ پر تلاوت کلام اللہ اور نعت رسول مقبولﷺ چلائے گئے۔ تقریب پورے ایک گھنٹہ جاری رہی۔ہندوستانی ہجوم میں کئی کشمیری بھی موجود تھے جو اپنے مخصوص خدو خال سے بآسانی پہچانے جاتے تھے۔پاکستانی ہجوم میں مرد اور عورتیں الگ الگ قطاروں جب کہ ہندوستانی ہجوم میں مردوزن خلط ملط بیٹھے تھے۔ تقریب کے بعد ہم نے بارڈر لائن بھی دیکھی جہاں سے پاکستان کے لہلاتے سر سبز و شاداب کھیت صاف نظر آتے تھے۔شام کے 6 بجے ہم ہوسٹل واپس لوٹے۔
اگلے روز ہماری منز ل جلیاںنوالا باغ مقرر ہوئی، جہاں ہم دن کے ۱ یک بجے پہنچے۔ گولڈن ٹیمپل کے بالکل ساتھ ہی واقعہ اس باغ کوہندوستان کی برطانوی سامراج کے خلاف برپا کردہ تحریک ِآزادی میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قریب ایک صدی قبل ۱۹۱۹ء میں انگریز ی فوج کی بربریت کے نشانات آج بھی وہاں محفوظ ہیں۔جلیانوالا باغ ایک عوامی باغ ہے جہاں 13 اپریل 1919 ء کو جنرل ڈائر کے حکم پر انگریزی فوجیوں نے صرف 10 منٹو ں میں سینکڑوں حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔یہ حریت پسند اُس روز انگریزی سرکار کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ باغ کے متصل ہی’خلیفہ رضا مصطفی ‘نامی ایک چھوٹی سی مسجد ہے جہاں عمر ساحل اور راقم نے نماز ظہر ادا کی۔ اس غیر مسلم آبادی میں ایک مسجد کا وجود اپنے آپ میں ایک منفرد احساس دلا رہا تھا۔ نماز ادا کر کے ہم امرتسر کے مختلف بازاروں میں گھومے پھرے۔ اس غیر مانوس ماحول میں ہمیں گاہے گاہے کشمیری بھی دِکھ جاتے جس سے فرطِ محبت کے جذبات اُبھر آتے تھے۔ یہ کشمیر ی وہاں تجارت کی غرض سے مقیم ہیں۔ بازاروں میں صفائی کا اہتمام دیدنی تھاجس سے امرتسریوں کی صفائی پسندی کا خوب ادراک ہوتا ہے۔بازاروں میں گھومتے گھومتے ہی نماز عصر کا وقت آ گیا تو ہم نے راہ گیرروں سے پتہ معلوم کر کے ایک مسجد کی راہ لی۔مسجد ویران تھی ، عمارت قدیم اور بوسیدہ۔ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی دیواریںآ گریں گی۔میرے ساتھیوں میںبانی عمر نے نماز کے لیے اذان دی جب کہ عمر ساحل نے جماعت کی امامت کروائی۔ مسجد کی خستہ حالت سے ہم تینوں کے دل رنجیدہ ہوئے اور اقبال کا یہ مصرعہ گنگنانے لگے ع
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
شام کو نماز مغرب گورو نانک دیو یونیورسٹی کے گرائونڈ میں ادا کر کے ہم سبھی یونیورسٹی گاڑی میں دہلی کے لئے روانہ ہوئے۔ رات کا سفر تھا، لہذا بہت سے طلبا و طالبات سو گئے، رات کے ساڑھے دس بجے ہم نے لدھیانہ بلور میں ایک ڈھابہ میں چائے پی۔رات بھر سفر کر کے ہم صبح کے 7 بجے دہلی پہنچے اور پہاڑ گنج میں ایک ہوٹل بُک کر کے وہاں قیام کیا۔ سفر کی وجہ سے تھکاوٹ اپنے عروج پر تھی ، لہٰذا نمازیں ادا کر کے ہم اپنے کمرے میں سو گئے ۔دوپہر کو نیند سے بیدار ہوئے اور باہر ایک چائے والے کی دکان پر چائے پینے گئے۔ ہوٹل سے باہر کی چہل پہل اور سرگرمیوں کو دیکھنے لگے اور دہلی کے متعلق ذہن میں موجود تصورات و خیالات اُجاگر ہونے لگے۔ فروری کے موسم میں دہلی میں اچھی گرمی پڑ رہی تھی جو کہ ہمارے لئے ایک انوکھی بات تھی کیونکہ فروری کے مہینے میں کشمیر عموماً شدید ٹھنڈ کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ نماز ظہر کے بعد ہم اوکھلا وہار گئے جہاں میرے ایک ساتھی کی بہن قیام پذیر تھی۔ موصوفہ نے کشمیری کھانوں سے ہماری تواضع کی اور کشمیری نمکین چائے بھی پلائی۔ کئی دنوںکے بعد کشمیری چائے نوش کر کے ہمارا ذہن ترو تازہ ہو گیا۔دہلی میں ہمارا قیام پورے ایک ہفتہ تک رہا۔ ہندوستان کی راجدھانی میں ہمیں کئی چیزوں کا مشاہدہ ہوا۔ سڑکوں پر لوگوں کی آمد و رفت بہت زیادہ تھی، ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مصروف تھا اور سڑکوں پر رقص کررہی گاڑیوں سے ماحول میں آلودگی کے باعث ہوامکدرتھی جس سے بے چینی واضطراب بڑھتی گئی۔ شہر دہلی میں گنداور غلاظت اتنی دیکھی کہ اکثر جگہوں پر سر چکرا جاتا تھا۔ اگرچہ راجدھانی کی تاریخ سازعمارتوں اور سرکاری جگہوں پر صفائی کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن متعدد جگہوں پر گندگی کے انبار لگے ہوئے دکھے۔ دہلی میں اپنے قیام کے دوران ہم نے کئی راہ گیروں خصوصا رکشہ والوں سے دہلی کی سیاست، ماحول ، لوگوں کے طرز زندگی اور دیگرکئی چیزوں کے بارے میں گفتگوں کی۔ علازہ ازیں کشمیر اور کشمیر کے حالات کے متعلق بھی وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے۔
(بقیہ بدھوار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
……………………..
رابطہ :متعلم شعبۂ اُردو ، کشمیر یونیورسٹی
9622093275