بیس فروری کو تقریباً بارہ بجے دن میں ہم لوگوں نے مکہ کا ہوٹل خالی کر دیا۔ اب مدینہ واپسی کا قصد ہے۔ عمرہ کرنے آئے تھے۔ وہ مکمل ہو گیا۔ مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے راستے میں ایک ہوٹل سے کھانا لیا گیا۔ مسجد عائشہ کے عقب میں واقع پارک میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ وہاں دیکھا تو بہت سے لوگ احرام میں نظر آئے۔ دراصل مسجد عائشہؓ حدود حرم سے عین باہر ہے۔ اس لیے کچھ لوگ یہاں آکر احرام باندھ لیتے ہیں اور پھر عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں۔ جب کہ بعض لوگ جعرانہ جاکر احرام کی چادریں اوڑھ لیتے ہیں۔ احرام باندھنے کے لیے میقات جانا پڑے گا۔ جدہ کی طرف سے جانے والوں کا میقات یلملم ہے اور مدینہ کی طرف سے جانے والوں کا ذوالحلیفہ ہے۔ بہر حال کھانے کے دوران دیکھا کہ اچانک دس بارہ بلیاں نمودار ہو گئیں جو وہیں پارک میں ٹہل رہی تھیں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو گئیں۔
خیمو ںکا غیر آباد شہر
ہماری پہلے سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ جب بھی غیر ایام حج میں یہاں آنا ہوگا تو وادی منیٰ، مزدلفہ اور عرفات وغیرہ کی بھی سیر کریں گے۔ یہاں سے نکلے تو جمرات ہوتے ہوئے منیٰ میں داخل ہو گئے۔ دس سال قبل جب ہم نے حج کیا تھا تو جمرات پر منزلیں نہیں بنی تھیں مگر اب کئی منزلیں بن گئی ہیںجس کی وجہ سے بھیڑ کنٹرول میں رہتی ہے اور رمی جمار کرنے میں آسانی رہتی ہے۔یہاں سے ہم آگے بڑھے تو دیکھا کہ وادی منیٰ خالی پڑی ہے۔ یہ وہی وادی ہے جو حج کے موسم میں لاکھوں انسانوں سے آباد ہو جاتی ہے۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی مگر اس وقت سناٹا ہے، لیکن اگر آپ عالم تصور میں پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ کو اس وقت بھی یہاں لاکھوں انسانوں کے سر نظر آئیں گے۔ چونکہ ہم نے اس وادی کو دو سفید چادروں میں ملبوس لاکھوں انسانوں سے آباد دیکھا ہے اور اس میں چار روز تک قیام کیا ہے، اس لیے ہمیں انسان ہی انسان نظر آئے۔ پہلے یہاں عارضی خیمے نصب کیے جاتے تھے جن میں آتش زدگی کے حادثات ہو جاتے تھے مگر اب مستقل خیمے نصب کر دیے گئے ہیں جو کہ فائر پروف بھی ہیں۔ ان میں اے سی بھی فٹ ہیں۔ اسے خیموں کا شہر کہا جاتا ہے لیکن اس وقت یہ غیر آباد ہے۔ ارے وہ سامنے مسجد خیف ہے۔ یہ ایک وسیع اور شاندار مسجد ہے۔ اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے۔ یہ مسجد وادی منیٰ کے آخری سرے پر اور خانہ کعبہ کی جانب جانے والے راستے کے کنارے پر واقع ہے۔ اس کے اونچے مینار اس کی خوبصورتی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔
ہماری گاڑی یہاں سے نکل کر میدان عرفات کی جانب چل پڑی۔ میدان عرفات سے قبل مزدلفہ پڑتا ہے۔ یہ وہی میدان ہے جہاں حاجی حضرات عرفات سے نکل کر آتے ہیں اور مغرب اور عشا کی نماز ایک ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں چنتے ہیں۔ کچھ دیر آرام کرتے ہیں اور نماز فجر سے قبل منیٰ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔یہاں دیکھا تو کنکریوں کی بھرمار ہے۔ منیٰ سے پہلے مسجد مشعر الحرام ہے جس میں فجر کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ ہم یہاں سے نکلے تو عرفات پہنچ گئے۔ اس میدان کو بھی ہم نے لاکھوں انسانوں سے آباد دیکھا ہے اور آج یہ غیر آباد نظر آرہا ہے۔ پہلے یہ ایک بہت وسیع چٹیل علاقہ تھا۔ کئی سال قبل اس علاقے میں درخت لگائے جانے لگے۔ جب ہم حج کرنے آئے تھے تو درخت لگانے کا ابتدائی زمانہ تھا۔ درخت چھوٹے چھوٹے تھے۔ انسانی قد سے ذرا سے بڑے۔ لیکن اب یہ کافی بلند ہو چکے ہیں۔ اب یہ چٹیل علاقہ نہیں رہ گیا بلکہ جگہ جگہ سایہ دار درختوں نے اس کی شکل بدل دی ہے۔ اسی میدان میں دیکھٔے وہ مسجد نمرہ ہے جس میں یوم عرفہ کو ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں لاکھوں افراد یکجا نہیں ہو سکتے اس لیے بہت سے حاجی صبح ہی آکر اس مسجد میں بیٹھ جاتے ہیں۔ باقی حجاج اسی جگہ نماز میں شریک ہوجاتے ہیں جہاں وہ ٹھہرے ہوتے ہیں۔ اس مسجد کا کچھ حصہ حدود عرفات سے باہر ہے، جس نے اس بیرونی حصے میں نماز ادا کی گویا اس نے حدود عرفات سے باہر نماز پڑھی۔ جب کہ یوم عرفہ کو حدود عرفات کے اندر موجود ہونا ضروری ہے۔ ہر حاجی کو ان حدود کے اندر پہنچنا ہوتا ہے اور جو کوئی ان کے باہر رہ گیا اس کا حج نہیں ہوا۔ اسی میدان میں وہ دیکھٔے جبل رحمت ہے۔ یہاں وہ ریلوے اسٹیشن بھی نظر آ رہے ہیں جو حج کے موسم میں آباد ہو جاتے ہیں۔ سعودی حکومت نے حجاج کی سہولت کے لیے ٹرین سروس شروع کی ہے۔ یہ ٹرینیں صرف ایامِ حج میں چلتی ہیں غیر ایام حج میں نہیں۔
ان وادیوں سے نکل کر ہم مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔ راستے میں رُک رُک کر چائے پانی وغیرہ بھی پیتے رہے۔ ارے یہ کیا؟ مدینے سے کچھ پہلے بہت زور کی بارش ہونے لگی۔ مکہ میں موسم قدرے گرم ہے جب کہ مدینہ میں کافی سرد ہے۔ اس بارش نے موسم کو اور بھی خنک کر دیا ہے۔ جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو بارش کا نام و نشان نہیں پایا لیکن سردی کا وہی عالم ہے جو ہم چھوڑ کر گئے تھے۔ سرد ہوائیں چل رہی ہیں جو جسم کو کپکپا دے رہی ہیں۔ رات میں تقریباً آٹھ بجے ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ یہ گاڑی چونکہ دو رات اور دو دن کے لیے لی گئی ہے اس لیے اسی سے اگلے روز مدینہ کے اہم مقامات کی زیارت کا بھی پلان بنا لیا گیا۔
بچی تو پیچھے ہی پڑ گئی
اگلے روز یعنی21 ؍فروری کو ہم لوگ بعد نماز ظہر زیارت کے لیے نکل پڑے۔ مسجد قبا اور مسجد قبلتین گئے۔ یہ مسجد قبلتین ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جس میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم صادر ہوا تھا۔ اس کے بعد سے ہی بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی جانے لگی۔ ہاں یہ مسجد قبا ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے پر سب سے پہلے تعمیر کیا تھا۔ اس مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔ وہ دیکھٔے مسجد کے دروازے پر اس تعلق سے ایک بورڈ بھی آویزاں ہے جس پر عربی اور انگریزی میں لکھا ہے کہ اس مسجد میں نماز ادا کرنے سے ایک عمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے۔ حجاج کرام اور زائرین یہاں ہر حال میں آتے ہیں اور دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ اس میں بھی آب زم زم کا انتظام ہے جس سے نمازی سیراب ہوتے ہیں۔ یہاں عورتوں کے لیے نماز ادا کرنے کی الگ جگہ ہے۔ ہم لوگوں نے دو رکعت نماز ادا کی اور باہر نکل آئے۔ اب اس مسجد کے پاس ایک قسم کا چھوٹا سا بازار لگنے لگا ہے۔ چھوٹی چھوٹی عارضی دکانیں لگی ہوئی ہیں۔ دیکھا تو کچھ لوگ خریداریوں میں مصروف ہیں۔ ہم لوگوں کو کچھ لینا نہیں تھا اس لیے آگے بڑھ گئے۔ اسی اثناء میں ایک چھ سات سال کی بچی اپنے ہاتھوں میں تسبیح کا گچھا لے کر ہم لوگوں کی طرف بڑھتی ہے۔ مولانا شعیب بھی ہم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ بچی نے عشرہ ریال یعنی دس ریال کہتے ہوئے وہ تسبیح ان کو دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے لینے سے انکار کر دیا لیکن وہ پیچھے پڑ گئی ہے۔ مولانا شعیب ہنس ہنس کر اسے تسبیح واپس کر رہے ہیں اور وہ بڑی سنجیدگی اور خاموشی کے ساتھ ان کے ہاتھوں پر رکھے جا رہی ہے۔ وہ بالکل ہی پیچھے پڑ گئی۔ بالآخر انھوں نے دس ریال اسے دے دیا اور تسبیح بھی اسے واپس کرنے لگے لیکن اس بچی نے ریال تو لے لیے لیکن تسبیح واپس نہیں لی۔ انھوں نے اسے واپس کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مانی اور اس نے اپنا راستہ پکڑ لیا۔ آخر میں جب انھوں نے دوڑ کر پھر تسبیح اسے تھمانے کی کوشش کی تو وہ اسے ان کے پیروں میں پھینک کر چلتی بنی۔ ہم لوگوں نے اسے اٹھا لیا اور اپنے ساتھ لے آئے۔ یہاں سے نکلے تو کھجورو ں کے باغات نظر آئے جنھیں دیکھ کر مجھے اپنے والد کی ایک نعت کا مطلع یاد آگیا ؎
ہو کھجوروں کا جھرمٹ رات ہو مدینے کی
تذکرہ ہو احمدؐ کا بات ہو مدینے کی
یہاں سے نکل کر جبل احد گئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں جنگ احد ہوئی تھی اور جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کی انجانے میں خلاف ورزی کی پاداش میں مسلمان جیتی ہوئی جنگ ہار گئے تھے اور ۷۰ صحابہ ٔ کرام شہید ہو گئے تھے۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے تھے۔ اسی جنگ میں آپ کے چچا حصرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے تھے۔ وہ پہاڑی قدرے چھوٹی اور نیچی ہے جس پر اللہ کے رسول نے بعض صحابہ کرام کو تعینات کیا تھا تاکہ وہ مخالف سمت پر نظر رکھیں۔ اس جگہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام جہاں مدفون ہیں، کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔ اس چھوٹے سے قبرستان کو پہلے لوہے کی ریلنگ سے دیوار بنا کر گھیرا گیا اور اس کے بعد اس دیوار پر شیشے کی دیوار فٹ کر دی گئی۔ یہ دیوار کافی اونچی ہے۔ در اصل بہت سے لوگ یہاں شرک و بدعات میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ اپنے نام کی پرچی قبر پر پھینکنے کی کوشش کرتے۔ کچھ لوگ خطوط پھینک دیتے۔ جہاں صحابہ کرام ؓدفن ہیں وہ ایک میدان سا ہے۔
کھجور، اسکارف اور نبی بوٹی
یہاں بھی ایک چھوٹا سا بازار لگا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بازار میں زیادہ تر دکاندار خواتین ہیں۔ مسجد قبا کے پاس بھی خواتین دکاندار زیادہ نظر آئی تھیں۔ ان خواتین میں زیادہ تر پاکستانی اور بعض حبشی ہوتی ہیں ، پاکستانی خواتین اردو زبان میں آوازیں لگاتی رہتی ہیں۔ کسی خاتون نے ہماری اہلیہ سے نبی بوٹی لانے کی فرمائش کی تھی۔ یہاں نبی بوٹی بک رہی ہے۔ دس ریال میں ایک چھوٹی سی گڈی۔ جیسے پودینے کی گڈی ہو۔ دو گڈیاں خریدی گئیں۔ خاتون دکاندار بار بار اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ یہاں بہت سی اشیا ملتی ہیں جن میں کھجوروں کے علاوہ اسکارف اور کھلونے وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔
حج اور عمرہ کے لیے آنے والے حضرات یہاں کے دیگر تاریخی اور مقدس مقامات کی بھی زیارت کرتے ہیں بلکہ عمرہ پر لانے والے ٹور آپریٹرس پیکج میں زیارت کو بھی شامل کرتے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اہم مقامات پر زائرین کو بذریعہ بس لے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ انھی کی زبان میں تفصیلات بتانے والا ایک گائڈ بھی ہوتا ہے جو بس کے چلنے کے ساتھ ہی بولنا شروع کرتا ہے اور سفر کے اختتام پر چپ ہوتا ہے۔ وہ تاریخی مقامات کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے جن میں کچھ حقائق ہوتے ہیں اور کچھ سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔یہاں سے نکل کر ہم ایک ایسی وادی کی زیارت کے لیے نکل پڑے جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ یہ حیرت انگیز مقام ’’وادیٔ جن‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ مدینہ منورہ سے 35 کلومیٹر شمال مغرب میں ہے۔ اس وادی تک جانے کے لیے جبل احد سے گزرنا پڑتا ہے۔ جبل احد غالباً مدینہ کا سب سے بڑا پہاڑ ہے۔ گاڑی سے کافی دیر تک اس کے دامن میں چلنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد پرانی اشیاء کا ایک بہت بڑا مارکیٹ آتا ہے۔ اسے کباڑی بازار کہہ سکتے ہیں۔ یہاں ہر قسم کا سامان انتہائی سستی قیمت پر دستیاب ہے۔ اس بازار سے گزرنے کے بعد کھجوروں کے باغات پڑتے ہیں۔ یہاں پھر مجھے مذکورہ بالا شعر یاد آنے لگا بلکہ پوری نعت یاد آنے لگی۔ انھیں باغات میں ایک باغ حضرت زبیر بن عوام ؓکا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی تھی جس کے بعد صرف انھی کے باغ پر بارش ہوئی تھی۔ اس واقعہ کی یاد کو قائم رکھنے کے لیے باغ کے کنارے لب سڑک ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔ یہاں سے کچھ دور آگے بڑھیے تو ایک چھوٹا سا تالاب پڑتا ہے۔ اس کے آگے ایک اور تالاب ہے جو قدرے بڑا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس سنگلاخ سرزمین پر دو دو تالاب کیسے بن گئے۔ ہم نے بڑے تالاب کے پاس گاڑی رکوائی اور اس کے ساحل پر جاکر بغور اسے دیکھا۔ ایسا لگا کہ وہ گہرا نہیں ہے۔ چھچھلا سا ہے۔ البتہ اس کے کناروں پر اور کچھ اس کے اندر بھی جھاڑ جھنکھاڑ سے اُگ آئے ہیں۔
(باقی باقی)