پہلی دفعہ بدعنوانی کا آغاز کب ہوا ،وثوق سے نہیں کہا جا سکتالیکن موجودہ دور میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہیکہ اکثر وبیش تر اقتدار ہی بدعنوانی کامنبع اور محرک ہوتاہے۔دماغ پر ذرا سا زور دینے پر پتہ چل جائے گا کہ یہ بدعنوانی کیسے شروع ہوتی ہے ۔اقتدار کسی بھی طرح کا ہو مگر خوفِ خدا،خوفِ عوام اور خوفِ گرفت و جوابدہی نہ ہو تو صاحب ِاقتدار کو بدعنوان ہونے سے کوئی چیز نہیںروک سکتی۔خود اس کی فطرت بدعنوانی کے لئے موزوں ہوتی ہے ۔اگرچہ صاحبِ کردار کا مالک ہونا اس دور میں بہت مشکلہے لیکن پھر بھی اس بھری پُری دنیا میں چند ایک لوگ مل جاتے ہیں ۔سرکاری اور غیر سرکاری بدعنوان افراد کی تشخیص ممکن ہے لیکن بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں جن کا ارتکاب ہوتاہے، اس میں زیادہ تر حکومتی ہستیاں اور انتظامی مشینری ہی دخیل ہوتی ہیں ،لیکن اس میں ہائی کمان یعنی حکومت میںسب سے اعلیٰ پوزیشن پر متمکن شخص کے ملوث ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔چند اصحاب یہ تاویل پیش کر سکتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی ذات بدعنوانی اور برائی سے ماوراء ہوتی ہے جیسے ’’گنگا کا پانی‘‘ لیکن یہاں بھی ایسا سوچتے ہوئے لوگ غچہ کھا جاتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ روپے ،پیسے ،جائداد اور عہدے کی ہیرا پھیری ہی بدعنوانی کی نشانیاں اور علامات ہوںبلکہ ایک شخص کی بے ضمیری بھی بدعنوانی ہے۔ اگر اس کے عمل اور کارکردگی سے انارکی پھیلتی ہو کیونکہ یہ انارکی بدعنوانی کا عمل انجام دئے بغیر ممکن نہیں۔اس طرح کی بدعنوانیوں کو اخلاقی بدعنوانی کہا جا سکتا ہے۔
بی جے پی ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کو تہس نہس کرنے والی ایک ایسی پارٹی کے روپ میں اُبھرتی جا رہی ہے جس کی سیاست کا انداز سراسرجارحانہ ہے۔اسی کے ساتھ معاملات اور حالات پر حاوی ہونے کا انداز بھی اس کے وطیرے میںشامل ہے۔چونکہ انہی طور طریقوں کو اپنانے سے اسے انتخابی کامیابیاں ملتی جا رہی ہیں ،اسلئے وہ اسے درست بھی سمجھ رہی ہے۔اگرچہ یہ طریقے منفی اور غیر اخلاقی ہیں لیکن’’ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ‘ ‘ کے ساتھ اب’’ سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہے ‘‘کو اپنا اصول بناتے ہوئے بی جے پی ہر وہ کام کر رہی ہے جو اخلاق سے گراہوا ہے ۔ اس کا مقصد ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔اقتدار پر قابض ہونا اور مد مقابل کو نیچا دِکھانا۔اپنی کارکردگی کا بیان کرکے نہیںبلکہ مد مقابل کی ناکارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹ کر۔عوام کو گمراہ کر کے جمہوری نظام میں ووٹ حاصل کرنا ،اس کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔دہلی کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے بی نے ثابت کر دیا ہے کہ چناؤ موضوعات پر نہیں بلکہ حکمت عملی سے لڑے جاتے ہیں۔انتخابات میں اگر جارح اور حاوی ہونے والے انداز اپنائے جائیں تو حکوت کی گزشتہ ناکامیوں پر بھی پردہ ڈالا جاسکتا ہے اور اگر مذہبی جذبات اُبھار دئے جائیں تو بہت آسانی سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکتی ہے۔بی جے پی نے اسی انداز کو اپنا کر دہلی کا میونسپل انتخاب بھاری اکثریت کے ساتھ جیت لیا کہ گزشتہ ایوان کے اپنے ایک بھی کونسلر کو اِس دفعہ ٹکٹ نہیں دیا۔ظاہر ہے کہ لوگوں کا غصہ کونسلروںسے ہی تھااور اس تجربے کو لوگوں نے قبول کیااور ایک بار پھر بی جے پی کو گلے لگا لیا۔بھولے عوام کو بہکانے کے لئے دوچار خواب ہی کافی ہیں ۔
بہرکیف یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد عوام کے اس فیصلے کو دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کے خلاف پیش کرنے میں بی جے پی نے وہ انداز اختیار کیا جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔اور حقیقتاً ایسا محسوس ہونے لگا کہ کیجریوال اب چند روز کے مہمان ہیں کیونکہ انہوں نے پہلے بھی ایسے متعدد کھیل کھیلے ہیں ۔دہلی میں وزیر اعلیٰ اپنی کرسی کتنے دنوں تک بچا پائیں گے، وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کیجریوال کوئی نتیش کمارجیسے سیاسی کھلاڑی نہیں ہیں جو اخلاقی اور غیر اخلاقی،ہر طرح سے بی جے پی کو مات دینے کی طاقت ومقبولیت رکھتے ہیں ۔یاد کریں ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن کے بعد بہار میں بی جے پی کو زیادہ سیٹیں حاصل ہوگئی تھیں،جس کی وجہ سے نتیش کمار اور دیگرحضرات اپنی ساکھ بچانے میںبری طرح ناکام ہوئے تھے۔اُس وقت بی جے پی نے یہی شوشہ جارحانہ انداز میں چھوڑا تھا جو دہلی میں اِس وقت انجام دے رہی ہے کہ عوام کا فیصلہ نتیش کی حکومت کے خلاف ہے، لہٰذا نتیش کو گدّی چھوڑ دینی چاہئے۔ایسا گمان ہو چلا تھا کہ نتیش کے لوگ(ایم ایل ایز ) پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میںچلے جائیں گے لیکن نتیش نے ایک ایسا ماسٹر اسٹروک(بازی)کھیلا کہ بی جے پی چاروں شانے چتہو گئی تھی۔اُنہوں نے ایک مہا دلت جیتِن مانجھی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سونپ دی ۔اُس کے بعد کیا ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔بی جے پی نے مانجھی کو ورغلا دیا جس کی وجہ سے مانجھی کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں تھے جب کہ نتیش نے انہیں یہ عارضی طور پر سونپی تھی۔بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک الگ پارٹی بنا کر بی جے پی کے ساتھ ہو لئے ۔
جو حکمت عملی نتیش نے اپنائی تھی وہ اروند کیجریوال نہیں اپنا سکتے کیونکہ اروند اپنی ذات کے حصار میں قید ہیں ۔ کمار وشواس کی شکل میں ان کے پاس کئی مانجھی ہیںاور یہ سب آر ایس ایس کے حامی قرار دئے جاتے ہیں۔کبھی کبھی تو یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ کہیں کیجریوال بھی تو’’ پریوار‘ ‘والے نہیں کیونکہ اُن کی اب تک کی کارکردگی اور عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے پریوار کو فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ ان کے استاد محترم انا ہزارے کی قلعی تو خیر اب پوری طرح سے کھل چکی ہے۔وہ اب موقع بہ موقع آر ایس ایس کوفائدہ پہنچانے کے لئے ہی نمودار ہو تے ہیں ۔یہ بات اس لئے کہی جا رہی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے اپنے قیام کے بعد ملک کے اُن حصوں میں چناؤ لڑا، یا آگے ارادہ رکھتی ہے جہاں پر کانگریس کی پوزیشن مضبوط ہے۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ جہاں پر وہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے ،مثلاً پنجاب ،گوا اور کچھ حد تک دہلی۔اس طرح یہ پارٹی وہاں چناؤی میدان میں نہیں اُتری جہاں پر کانگریس کی خاطر خواہ حیثیت نہیں ہے۔مثلاً بہار،یوپی،ہریانہ وغیرہ۔غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ ان ریاستوں میں بی جے پی اور اس کے اتحادی مضبوط پوزیشن میں ہیں ۔حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ دہلی سے متصل یو پی میں ۵۰-۱۰۰ سیٹوں پر یہ آرام سے انتخابی میدان میں اُتر سکتی تھی اور اس میں سے ۲۵-۵۰ سیٹیں تو یہ جیت بھی سکتی تھی۔کیجریوال کی پارٹی جلد ہی گجرات کا الیکشن بھی لڑے گی تاکہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکے۔
اب کمار وشواس کو اپنے پالے میں رکھنے کے لئے عام آدمی پارٹی نے انہیں راجستھان کا انچارج بنادیا ہے جہاں پر یہ ۲۰۰؍ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔یہ وہ پردیش ہے جہاں پر آئندہ ہونے والے الیکشن میں کانگریس، بی جے پی کو زوردار ٹکر دینے کی پوزیشن میں ہے۔مسلم اکثریتی اوکھلا حلقے سے عام آدمی پارٹی کے مسلم ایم ایل اے امانت اللہ خان کے مطابق ہر ایک ایم ایل کو ۳۰؍کروڑ روپیوں کے عوض بی جے پی خرید رہی تھی تاکہ وہ اروند کیجریوال کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنا سکے اور ممکن ہے کہ پارٹی توڑ کر اروناچل پردیش کی طرح ہی بی جے پی میں تمام کو شامل کر لے اور اس کے لئے کمار وشواس رابطہ کارکا کام انجام دے رہے تھے۔خدا کرے کہ امانت اللہ کا یہ الزام، الزام ہی رہے لیکن لوگوں کو وشواس ہو چکا ہے کہ کمار وشواس کچھ نہ کچھ گل کھلائیں گے ہی۔امانت کے ساتھ پارٹی نے خیانت کر کے اور کمار وپر وشواس کر کے کیجریوال نے اُٹھتے دھواں پر صرف پانی ڈالنے کا کام کیا ہے لیکن یہ دھواں پھر کب پھیلنے لگے،کچھ کہا نہیں جا سکتا۔اس بیچ اروندکیجریوال کے ایک اور ساتھی کپل مشرا نے اُن پر اُنہی کے کابینہ کے ایک وزیر ستیندر جین سے ۲؍کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام لگا دیا ہے۔یہ سب کچھ بی جے پی کے منصوبے اور حکمت عملی کے تحت شاید انجام پا رہاہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے کیجریوال کو ٹھکانے لگانے کی پوری اسکرپٹ تیار کر لی ہے۔وہ اپنے انداز کی حکمت عملی کے تحت میڈیا کی مدد سے کیجریوال کی مٹی پلید کر دے گی ،جس کی وجہ سے کیجریوال نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔اروناچل، منی پور اور گوا میں حکومت سازی کا جو نظریہ بی جے پی نے پیش کیا ہے، اسے اخلاقی بدعنوانی کے زمرے میں رکھ کر ممکن ہے عوام آج معاف کر دیں لیکن آنے والے برسوں میں بی جے پی کے لئے یہ سیاست کام نہیں کرے گی ۔عوام اسے بہت دنوں تک قبول نہیں کریں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کی اس بدعنوانی کو عوام کب تک برداشت کرتے ہیں۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883