جمہوری اسلامی ایران میں یہ روایت رہی ہے کہ یہاں دد دو بار رئیسِ جمہوریعنی صدارت کی کرسی پر اُمیدوار براجمان ہوتے رہے ہیں۔ اس کی ایک اور مثال آج صدر حسن روحانی نے دوبارہ صدر منتخب ہوکر قائم ودائم ر کھی ۔ صدارتی منصب کے لئے حسن روحانی کے مد مقابل میںآیت اللہ سید ابراہیمی ایک قوی ترین حریف امیدوار کے طور پر کھڑے تھے ، ان کوتقریبا ڈیرھ لاکھ ووٹ سے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔حسن روحانی نے ۲۲ ملین سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں جب کہ سید محمد ابراہیمی ۱۵ ملین کو زائد ووٹ حاصل ہوئے ۔ اس طرح حسن روحانی نے سابقہ صدور کی طرح دوبارہ صدر بننے کی روایت کو دہرایا۔تہران میں یہ روایت آغائی محمدخاتمی سے شروع ہوئی جب کہ ایران میں اپنے دور کے معروف ترین صدراحمدی نژاد بھی دو مرتبہ صدر کی کرسی پر براجمان رہے ہیں ۔ ایران میں یہ قانون رائج ہے کہ دو مرتبہ ایک شخص صاحب ِصدر بننے کے لئے انتخابات میں نامزدگی درج کر سکتا ہے ۔ اس کے فوراً بعد وہ صدارتی الیکشن حصہ نہیں لے سکتا ہے بلکہ چند سال گزرنے کے بعد وہ دوبارہ نامزدگی درج کر سکتا ہے۔چنانچہ احمدی نژاد کو بھی صدر بنے ہوئے کئی سال گزرے ہیں ،اس حوالے سے انہوں نے اس سال تیسری مرتبہ اپنی نامزدگی درج کی تھی لیکن ایرانی مجلس یعنی پارلیمنٹ نے اسے فی الحال مصلحت نہیں کہہ کر قبول نہیںکیاجس پر احمدی نژاد نے سر خم تسلیم کیا۔ بعض سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اگر احمدی نژاد اس سال انتخابی میدا ن میں اُترتے تو حسن روحانی کا دوبارہ انتخابات جیت لینامحال ہو جاتا۔ایران کے سپریم لیڈر اور ولی ٔامر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای کا فرمانا ہے کہ اس سال پھر سے دشمن یعنی امریکہ و اسرائیل اپنی رچی ہوئی سازشوں میں ناکام ہوا ، اگرچہ امریکہ اور اسرائیل ان انتخابات کو بقول اپنے’’اصلاح پرستوں‘‘ کی جیت گردان رہا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ایران میںدو سیاسی نظریات کے دھارے اپناوجود رکھتے ہیں ، ان میں ایک مکمل طور پر اما م خمینی کے خطوط کار پر چلنے والا ہے اور دوسرگروہ اگرچہ امام خمینی کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتاہے تاہم وہ اپنی نفس کی کمزوری اور دنیا طلبی کی وجہ سے خط ِامام سے قدرے دور دکھائی دے رہاہے ۔اس کے باوجود انقلابی انہیں اپنا دشمن قرار نہیں دیتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے بارے میںانقلابیوں کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ دشمن ایران کو فوجی طاقت کے ذریعے جنگ تھوپ دے تو کم سے کم اسی خط کے نمائندہ بیشتر جوان ملک کی سرحدوں کو بچانے کے لئے فرنٹ لائن پہ آجاتے ہیں ۔اگرچہ اس نظریہ کا ہونا ایک فطری امر ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر اسی گروہ کے حوالے سے فکر میں ہے کہیں یہ دشمن کا آلہ ٔ کار نہ بن جائے۔آج سے سات سال پہلے ایران کے روایتی حریف امریکہ نے اسی گروہ کو نشانہ بنایا تھا جسے موسوی کے گروہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اس گروہ کے بانی کار موسوی کو بعد میں نظر بند کیا گیا جو کہ کسی کو غیر انقلابی کام کو انجام نہیں دے سکتا ہے ۔ آج بھی ان پر کڑی نظر رکھی جاتی ہیں ۔اس دور کو مخملی انقلاب سے یا سبز انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ امریکہ بظاہر اگرچہ ہر ملک میں اپنا نفوذجمانے ا ور روڑا اٹکانے میں کامیاب ہوا ہے، تاہم ایران میں اسے ابھی تک ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا۔امریکہ کی سب سے بڑی مشکل اسرائیل کا وجود ہے، جسے ایران قبول نہیں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے مابین ہمیشہ سے چپقلش رہی ہیں ۔ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ اس عالمی غنڈے کے علاوہ بھی کوئی اور ملک مشرق وسطیٰ میں اپنا نفوذ قائم کرے ۔مشرق وسطیٰ کوتیل اور باقیماندہ قدرتی ذخائر کی وجہ سے سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اسی وجہ سے بڑی طاقتوں نے جس میں خصوصاً امریکہ اور برطانیہ شامل ہے ، اس خطے کو ہمیشہ حریصانہ اور للچائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ر ہے ہیں ۔ دنیا میں مسلمانوں کی نااتفاقی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ ہمیشہ غیروں کے بھینٹ چڑ ھتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران تنہا ان بڑی طاقتوں کے مد مقابل کھڑا ہوا ۔اُنیس سو اُناسی میں ایران میں انقلاب کے بعد ا مام خمینی نے لاشرقیہ لا غربیہ کا نعرہ دے کر تمام مسلکی اورگروہی فکر اور تقسیموں کو بالائے طاق رکھ کر قرآنی شعار کو بلند کیا اور کہا کہ اہل کلمہ ایک اُمت بن کر باطل کے سامنے ڈٹ جائے تاکہ دنیا میں عدل الہٰی قائم ہو جائے اور ہر کوئی مسلم بھائی اخوت ، امن، محبت کے سائے میں زندگی بسر کر سکے ۔ امام خمینی نظریاتی طور پر بہت قوی الجثہ تھے جس کی وجہ سے انہوں نے ایران میں نظام ولایت فقہیہ کو قانونی طور پر ترویج دی جو بحمداللہ اب بھی رائج ونافذ ہے ۔ امام خمینی نے اپنی زندگی میں ہی امام خامنای کو اپنا نائب و پیشوا مقرر کیا تھا جنہیںدنیا ایک بڑے مدبر اورباشرع سیاست دان کی نظر سے دیکھتی ہے اور امام خامنای کی ایرانی قوم میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک قابل قدر حیثیت حاصل ہے ، یہاں تک کہ امام خامنای کی مدبرانہ سیاست اور فکری صلاحیت کاقائل خود امریکہ اور مغرب کے سب چودھری بھی ہیں کہ آج تک ان کو اس شخصیت کی سیاسی بصیرت ا ورنظریاتیآفاقیت کی وجہ سے مات کھانی پڑی ۔ امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ جب بھی ہم ایران کے بارے میں کوئی سازش رچتے تھے تو دوسرے ہی دن امام خامنہ ای کی تقریر اس سار ے پلان پہ پانی پھیر دیتی تھیں کہ ہم اپنا سامنہ لے کر رہتے ۔ واضح رہے امام خامنہ ای ایران میں رہبرعظمٰی کے نام سے معروف ہیں اور جو اپنے منصب کے ناطے عین موقع پر اور مشکل گھڑی میں ملک کو سیاسی بحرانوں اورمشکلات کے بھنور سے نجات دینے میں مشاق وماہر ہیں ۔ ایران کو سبز انقلاب کے بحران سے نکالنے والے امام خامنای ہی ہیں ۔ موجودہ صدارتی الیکشن کے بارے میں اگرچہ استعماری میڈیا یہ شوشہ پھیلا رہا ہے کہ یہ الیکشن سبز انقلاب کی ایک کڑی ہے لیکن یہ بات بالکل کمزور اور بودی دلیل رکھتی ہے ۔چنانچہ یہاں پر ولایت ِفقیہ کا نظام پورے وجود سے غیر متزلزل انداز میںکھڑا ہے ۔ اس نظام کے پیشوا اور رہبر کی حیثیت سے امام خامنہ ی کے زیر نگرانی بری ،بحری اور ہوائی فوج خطے کے مشکل ترین دفاعی اور استحکامی کام کاج کامیابی سے چلاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اسی نظام کو توڑنے کے در پے سازشیں کی ہیں لیکن وہ ابھی تک اپنے ناپاک مشن میں کامیاب نہیں ہوا۔ چونکہ یہ نظام علمائے حق کے ہاتھوںمیں ہے، اسی لئے دنیا کے مستضعفین،محرومین ، مظلومین اور ناداروں کی مدد کرنا اس کے اولین قوانین میں سر فہرست ہے ۔ اس نظام کے عقائد میں سے ایک اہم بات یہ بھی شامل ہے کہ یہ نظام امام مہدی ؑ کی آمد کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے تاکہ امام مہدی ؑ ظہور کر جائے اور پوری دنیا میں امن و عدل قایم ہو جائے ۔یہ اسی مشن کی تکمیل کی نوید ہے کہ یہاں پر پور سنی دنیا سے طلبہ و طالبات علوم اہلبیت ؑ سے آشنا ہونے کے مختلف جامعات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ان کے لئے یہاںہر طرح ک تعلیمی وتدریسی سہولیات میسر رکھی گئی ہیں ۔ حال ہی میں قم المقدس میں دنیا کے بیشتر اسلامی شعیہ و سنی جامعات سے طلبہ نے یہاں کے معروف جامعیہ علمیہ امام موسی کاظم ؑ میں منعقدہ بین الاقوامی حسنِ قرات مقابلے میں بڑھ چڑھ کر اور ذوق وشوق سے حصہ لیا جس میں ہندوستان کا چھبیسواں جب کہ ایران کا پہلا نمبر رہا ۔ اس عظیم الاثرتقریب میں مصر، ہند ،پاک ، بنگلہ دیش ،قطر،سوڈان،کویت ،عراق،عربی،غربی اور افریقی ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہمیں امید ہے کہ صدارتی منصب پر دوبارہ براجمان ہوئے حسن روحانی ایران کی ان معاشرتی ، سیاسی ، معاشی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں اپنا کلیدی رول اداکرکے ایران کو قوموں کی برادری میں اعلیٰ سے اعلیٰ تر مقام ومرتبہ دلانے میں مسلسل کو شاں رہیں گے اور وحدتِ اُمت کا خواب پورا کرنے میں ہر کوئی ناگزیر اقدام کریں گے ۔