سرینگر// وادی کے تمام نجی اسکولوں میں مشترکہ نصاب مرتب کرنے کیلئے مصروف عمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے جوائنٹ کمیٹی آف پرائیوٹ سکولز‘ کے سربراہ شوکت احمد چودھری نے کہا کہ کشمیر میں پہلی مرتبہ جامع ایجوکیشن کانکلیوں24مئی کو انعقاد کا جا رہا ہے،جس میں بیرون ریاستوں اور ملکوں کے ماہرین تعلیم اور مدرسین کو مدعو کیا گیا ہیں۔سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران جوائنٹ کمیٹی آف پرائیوٹ سکولز‘ کے چیئرمین شوکت احمد چودھری نے کہا کہ نجی سطح پر کشمیر میں اس طرح کی جامع کانفرنس پہلی مرتبہ منعقد کی گئی ہے،جبکہ اس کانفرنس میں نجی اسکولوں کے منتظمین اور نمائندے شامل ہونگے،جس کے دوران بھارت بالخصوص کشمیر میں تعلیمی شعبے کے موجودہ صورتحال ہر بحث و مباحثہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس کانکلیو میں وادی میں تعلیمی شعبے کا احاطہ کرکے اس کو بہتر بنانے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ شوکت چودھری نے کہا کہ کانفرنس کے دوران کشمیر میں تعلیمی شعبے کے ساتھ امتیازی سلوک، اور درپیش چلینجوں،جو کہ اس خطے میں منفرد ہیں، کیلئے خصوصی سیشن کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانکلیوں میں مختلف ملکوں میں رائج جدید تعلیمی نظام کے ماڈلوں پر بھی بحث کیا جائے گا،تاکہ وادی کے اسکولوں میں بھی ان ماڈلوں کو یا تو مکمل طور پر لاگو کیا جائے،یا ان کے بہترین حصوں کو اسکولوں میں شامل کیا جائے۔شوکت احمد چودھری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فی الوقت وہ تمام نجی اسکولوں میںمشترکہ نصاب تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں،تاہم چند سیریز کا انتخاب بھی کیا گیا ہے،اور انجی اسکولوں کے منتظمین سے کہا گیا ہے کہ وہ ان میں سے ہی نصاب اور کتابیں منتخب کریں۔ چودھری کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ نجی اسکولوں میں مقامی تاریخ اور ثقافت کے علاوہ تہذیب و تمدن کی جھلکیاں نظر نہیں آتی، تاہم جس بھی سریز کو آئندہ اختیار کیا جائے گا،ان سے ناشران سے کہا جائے گا کہ کشمیر کے حوالے سے اس سلسلے میں ایک ،دو باب کا اضافہ کیا جائے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نجی اسکولوں کے منتظمین کو کوئی بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسکولوں سے ہی والدین کو وردیاں اور کتابیں خریدنے کیلئے مجبور کریں۔ انہوں نے کہا کہ بیرون وادی میں نجی اسکولوں کا دائرہ پھیل رہا ہے تاہم کشمیر میں کئی وجوہات کی بنا پر نجی اسکول شعبے کو گوناگوں مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پریس کانفرنس میں انجینئر غلام نبی وار بھی موجود تھے۔