شش جہات نظردوڑانے کے بعد واضح طورپرکچھ ایسے بلیغ اشارے مل رہے ہیں کہ جن سے اس امرکوتقویت مل رہی ہے کہ کشمیرمسئلہ اب زیادہ دیرتک لٹکتانہیں رہے گا۔کیونکہ دنیابڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑرہی ہے اوراس سفرمیں وہ کشمیرجیسے مسائل سے صرف نظرکرنے کی ہرگزروادارنہیں۔چین اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے سپرپاوربننے کی تگ و دومیں وہ ان تمام کانٹوں کانکال باہرکرے گاجن کی وجہ سے اسکی برق رفتاری پرحرف آئے۔ایک طرف کشمیرمیںبے چینی انتہاپرہے تودوسری طرف اسی مشرق جہاں خطہ کشمیرواقع ہے میں مملکت چین اونچی پروازبھررہاہے ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیرمیں بے چینی مسلسل برقراررہے اوراہل کشمیرکے مطالبہ حق پرچین کان نہ دھرے ایساہرگزممکن نہیں۔
14 اور15مئی2017اتواراورسوموارکوبیجنگ میںبیلٹ اینڈروڈ کے عنوان سے ایک بہت بڑی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی ۔اس کانفرنس میں 20 سے زیادہ ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کی۔چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ عالمی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 124 ارب ڈالر کی سکیم کا اجراکیا جو کہ بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے میں صرف کیا جائے گا۔شنگھائی کے تاریخی میوزیم میں کانسی کی ملمع کاری سے ایستادہ ایک ریشم کا کیڑا بھی محفوظ ہے جو زمانہ قدیم میں چینی باشندوں کی طویل جدوجہد کی یاد دلاتا ہے اس لیے چینی صدر شی جن پنگ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ فورم کے موقع پر 100 سے زائد ملکوں کے نمائندہ وفود سے خطاب کرتے ہوئے اس کا ذکر کرنا نہیں بھولے۔ ریشم سازی کو قدیم چین میں صنعت کا درجہ حاصل تھا اور ریشم کے پارچہ جات کو بطور کرنسی بھی استعمال کیا جاتا تھا مگر دِقت یہ تھی کہ چینی باشندوں کو دیگر خطوں تک رسائی حاصل نہ ہونے کے سبب ریشم کی مصنوعات برآمد نہ ہو پاتیں۔ ہر چینی حکمران نے اپنے دورِ اقتدار میں اس اڑچن کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی بالخصوص ہان خاندان نے چینی علاقوں کو افریقہ، ایشیا اور یورپ سے جوڑنے کے لیے پہاڑوں کو کاٹ کر راستے بنانے کے منصوبوں کا آغاز کیا اور ان نئے راستوں کو ریشمی شاہراہیں یا سلک روڈز کہا گیا۔ ان سِلک روڈز کے ذریعے نہ صرف تجارتی ساز و سامان کا تبادلہ ہوا بلکہ ثقافت و تہذیب، علم و فکر اور عقائد و مذاہب کو بھی نئی منڈیاں میسر آئیں۔ آج بھی چینی حکام اپنے آباء واجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نئی منڈیوں تک رسائی کے لیے تجارتی راہداریوں اور ریشمی سڑکوں کا جال بچھانے کے ایک بہت بڑے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا نام ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ہے۔ یہی وہ منصوبہ ہے جس کی کوکھ سے چین پاکستان معاشی راہداری نے جنم لیا۔ ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘(OBOR) منصوبے کے تحت چین تین براعظموں میں انفراسٹرکچر کا جال بچھانا چاہتا ہے ۔ چین اب تک 900 ارب ڈالر کے منصوبوں پر کام کا آغاز کر چکا ہے اور ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ پروگرام کے تحت ہر سال 150 ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ پروگرام کی وسعت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا بھر کی 65 فیصد آبادی، توانائی کے تین چوتھائی عالمی ذخائر اور 40 فیصد جی ڈی پی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ گوادر کی پاکستانی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ ترکی کی تیسری بڑی بندرگاہ تین چینی کمپنیوں کے تصرف میں رہے گی۔ چائنا یورپ ایکسپریس منصوبے کے تحت چینی شہروں کو یورپ سے ملانے کے لیے ریلوے کے 51 نئے ٹریک بچھائے جا چکے ہیں اور ان کی بدولت 27 چینی شہروں سے مال بردار گاڑیاں تجارتی سازوسامان لے کر یورپ کے مختلف شہروں کی طرف جا رہی ہیں۔ چین اور لائوس کے درمیان 418 کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا گیا ہے۔ چین اور تھائی لینڈ کو ملانے کے لیے 873 کلومیٹر کا ٹریک تیار ہے۔ افریقہ میں نیروبی اور ممباسا کو جوڑنے کے لیے 471 کلومیٹر ریلوے ٹریک پر کام جاری ہے۔ انڈونیشیا میں تیز رفتار ٹرین چلانے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ بنگلہ دیش میں چینی کمپنیاں پل بنا رہی ہیں۔ سری لنکا میں 1.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ کمبوڈیا میں صنعتی پارک بن رہا ہے۔ ماسوائے بھارت کے، مالدیپ اور میانمار سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں حتی کہ نیپال جو بھارتی کا بغل بچہ شمار ہوتا ہے نے بھی بھارت کی منشا اور مرضی کے خلاف اس منصوبے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔14,15مئی2017 اتوار اور پیر کو اس منصوبے کی تفصیلات بیجنگ میں ہونے والے ون بیلٹ ون روڈ فورم میں آشکار کی گئیں تو پوتن، اردوان، سوچی اور محمد نواز شریف سمیت 28 ممالک کے سربراہان موجود تھے۔خیال رہے کہ جاپان اور انڈیا نے اس کانفرنس میں شرکت سے دوررہے اس پس منظرمیں بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جو پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے، خود تنہا رہ گئے ۔فاعتبروایااولوالابصارموجودہ چینی صدر شی جن پنگ کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ ہمیشہ نئے راستے دریافت کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں اپنی گفتگو میں چینی کہاوتوں کو ضرور شامل کرتے ہیں۔ ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ فورم کے موقع پر بھی عالمی مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کئی چینی کہاوتوں کا حوالہ دیا۔ کسی بھی بڑے منصوبے کے لیے پہلا قدم اٹھانا کس قدر مشکل ہوتا ہے، اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا کہ ہمارے ہاں چین میں کہا جاتا ہے کہ ایک طویل مسافت اس وقت تک طے نہیں کی جا سکتی جب تک پہلا قدم نہ اٹھایا جائے۔ اسی طرح عربی کی مشہور کہاوت ہے کہ اہرامِ مصر ایک پتھر پر دوسرا پتھر رکھ کر ہی تعمیر کیے گئے۔ آخر میں انہوں نے انگریزی کہاوت کا حوالہ دیا کہ روم ایک دن میں تعمیر نہیں ہو گیا۔
چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ کے لئے جو میلہ سجا یہ میلہ اس قوم نے سجایا جس کی دانش کے حوالے چار ہزار سال پر محیط ہیں اور اس کی دانش کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے ۔ کبھی کٹفیوشس نے اس قوم کو وہ راہ دکھائی تھی جس پر چل کر راہیں بنانا ان کی خارجہ پایسی کا ایسا مستقل جزو بنا کہ پرانے وقتوں میں بھی ان کی دیوار چین سے وہ سلک روڈ نکلی جو دنیا کے طویل عرض تک انہیں رسائی دیتی تھی ۔ راستے انسان کی بنیادی ضرورت ہیں سو جہاں بھی انسان پایا گیا وہاں راہیں ضرور پائی گئیں مگر تاریخ نے دیو مالائی حیثیت صرف سلک روڈ کو ہی دی ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جوراہیں چینی بناتے ہیں وہ ایسے عالمگیر اثرات رکھتی ہیں کہ اسے سنبھالنے کو تاریخ کو باب کے باب رقم کرنے پڑ جاتے ہیں ۔ اپنے تحفظ کے مقابلے میں چینیوں کی سندگی دیوار چین کی عظمت میں دیکھی جا سکتی ہے وہ دیور چین جسے کچی دیواروں والے جدید عالم کا جو بھی انسان دیکھتا ہے ، انگلی دانتوں میں دبانے ہی نہیں، چبانے پر مجبور نظرآتا ہے ۔ دیوار چین کی مضبوطی بتاتی ہے کہ چینی بھی مدتوں سے جانتے ہیں کہ دیوار گر جائے تو لوگ صحن میں رستے بنا لیتے ہیں ۔ چینی ایک بارپھر اس کرہ ارض پر وہ راہیں بنانے جا رہے ہیں جو عالمگیر اثرات مرتب کرینگے ۔ وہ اثرات جن کے احاطے کے لیے تاریخ نے ابھی سے آستین چڑھا لیے ہیں کیونکہ وہ جانتی ہے کہ جب چینی راہیں بناتے ہیں تو صدیوں کو مصروفیت اور تاریخ کو نئے موڑ ملتے ہیں ۔ بیجنگ میں سجنے والے ’’ بیلت اینڈ روڈ فورم‘‘ کا عنوان اس کی کہانی عیاں کر رہاتھا تو روس ، ترکی ، سوئیزرلینڈ ، چیک ریپبلک ، ارجنٹائن ، چلی ، انڈونیشیاء، فلپائن ، لاوس ، ویتنام ،کینیا ، بیلاروس، ازبکستان ، قازقستان ، ازبکستان اور میزبان چین کے صدر اور جبکہ پاکستان، سری لنکا ، سپین ، اٹلی ، سربیا،یونان، ملیشیاء ، فیجی ، پولینڈ ، ہنگری ، کیوڈیا ،ایتھوپیا،منگولیا اور برماکے وزرائے اعظم کی شرکت بتا رہی تھی کہ ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ محض رومانوی طور پر ہی نہیں بلکہ عملاً عالمگیر اثرات والا منصوبہ ہے ۔ اس فورم میں فرانس ، برطانیہ ، جرمنی اور آسٹریلیا سمیت ستائیس ممالک کے وزراء بھی شریک ہوئے جن میں سے تھائی لینڈ کا ڈیلی گیشن پانچ وزراء پر مشتمل تھا جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بیجنگ میں سجنے والا یہ میلہ کوئی عام میلہ نہیں کیونکہ اس منصوبے سے چار ارب سے زائد انسانوں کو براہ راستہ فائدہ پہنچے گا ۔
جدیدچین کے بانی ماوزے تنگ نے کہا تھا ’’ ایک وقت آئے گا جب مشرق کی ہوائیں مغرب پر حاوی ہوجائیں گی ‘‘ آج ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ کے تحت وہ راہیں بن رہی ہیں جو مشرق کی ہوائیوں کو مغرب پر حاوی کر دیں گی اور کون نہیں جانتا کہ مشرق کی ہوائیں ہمیشہ تھنڈی ہوتی ہیں ، یہ ہوائیں جہاں بھی جاتی ہیںراحت ہی ساتھ لے جاتی ہیں ۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا بس پچھلی صدی کی ہی بات ہے جب دوسری جنگ عظیم کے ملبے پر بیٹھ کر ’’ مارشل پلان‘‘ کی وہ دستاویز لکھی گئی جس سے مغرب کی گرم ہوائوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ان گرم ہوائوں نے چار بڑے دھوکے دیتے ہوئے ڈکیتی کو تجارت ، جارحیت کو امن ، دبائوں کو علاج اور عریانیت کو ثقافت قرار دیا ۔ اربوں انسان تاجر اور صنعتکار کے رحم وکرم پر آگئے جس سے امیر امیر تر اور غریب ، غریب تر ہوتے چلے گئے ان گرم ہوائوں کا کہنا تھا کہ ایشیائی ممالک اپنی ہی زمین سے اگنے والا غلہ کس بھائو اپنے شہریوں کو مہیاکریں گے یہ ایشیائی ممالک نہیں ورلڈ اکنامک فورم بتائے گا ۔ یہ ورلڈ اکنامک فورم یعنی استحصال کا وہ ہتھیار جسے بڑے صنعتی ممالک اربوں انسانوں کو لوٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ حد نہیں کہ خود کو شعوری لحاظ سے ترقی یافتہ سمجھنے والوںنے عالمگیر ڈکیتیوں والے اس نظام کو ’’ فری مارکیٹ اکانومی‘‘ کا عنوان دیا۔ یہ اکانومی اتنی ’’ فری‘‘ ہے کہ اس میں پانی تک فری نہیں رہا ۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہوائیں قبض کرنے والے آلات یہ نظام تاحال بنا نہ سکا ورنہ یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ ہوائیں بھی بوتلوں اور سلینڈروں میں فروخت ہو رہی ہوتی ۔ دوسری جنگ عظیم سے آج تک کی جنگوں کا بغور جائزہ لیجئے ، آپ کو ہرجنگ کے پیچھے مغرب نظرآئے گا۔ جارحیت کو ان کی خارجہ پالیسی میں کلیدی کردار حاصل رہا ہے اور اس حوالے سے ’’ مغربی اتفاق‘‘ آپ کو ہربڑی جنگ میں نظر آئے گا ۔ صدام حسین کے ترقی پذیر عراق پر پہلی خلیجی جنگ میں دو درجن سے زائد ترقی یافتہ مغربی ممالک حملہ آور ہوئے ۔ افغانستان کے کھنڈرات اور ہنڈا موٹر سائیکلوں پر پھرنے والے طالبان کو فتح کرنے کے لیے امریکہ کی قیادت میں پینتالیس ممالک میدان میں اترے ۔ پچھلے سو سال کی جنگوں کے ذریعے اپنے دور عروج میں مغربی ہوائوں نے لاکھوں انسانوں کا قتل عام ’’ امن‘‘ کے نام پر ہی کیا۔غرض پچھلے سو سال سے انسانیت جو کچھ بھگت رہی ہے یہ مغربی ہوائوں کے حاوی ہونے کے ہی نتائج ہیں ۔
اقبال نے مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی ۔ مغرب کو آج خود کشی کا مرحلہ درپیش ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ سمجھدار سمجھاجاتا ہے، اس کے وائٹ ہائوس میں ایک مسخرہ براجمان ہے اور امریکی قوم کی حالت دیکھ کر لگتا ہے یہ اردو شعر امریکیوں نے کہہ رکھاہے ؎
وہ آئیں گھر میں ہمارے ، خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
کمیونزم اپنے سب سے بڑے دارالحکومت ماسکو میں فیل ہوا تھا ، کیپٹلزم بھی اپنے سب سے بڑے دارالحکومت واشنگٹن میں اپنی ناکامیوں کے مناظر دیکھ رہاہے اگر دونلڈ ٹرمپ نامی مسخرا ان پر مسط رہتا ہے تو اس کے فیصلے امریکہ کو بڑی تنہائی سے دو چار کرینگے اور اگر وہ اس مسخرے کو نکالتے ہیں تو سوال پیدا ہو گا کہ کیا یہ ہے جمہوریت کی روح ؟ آپ کا تو بنیادی دعویٰ ہی یہ تھاکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں اور حکمرانی عوام کے ووت کے ذریعے ہو گی ۔ عوامی ووٹ کے ذریعے آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی بیدخلی ثابت کرے گی کہ لبرل ڈیموکریسی ہی دنیا کی سب سے بڑی منافقت ہے وہ منافقت جس میں فیصلوں کا اختیار عوام نہیں بلکہ کسی اور کے پاس ہے ، عوام کا تو بس نام استعمال ہوتا ہے ۔ مغرب کی گرم ہوائوں کے نتائج صرف امریکہ میں ہی ظاہر نہیں ہو رہے بلکہ وہ یورپ بھی اسے بھگتنے کو ہے جس کی یورپی یونین کبھی مثالی سمجھی گئی تھی ۔ یورپی ممالک کی اس یونین کو بریکسیٹ کی نظر لگ چکی اور اب ہر ملک انفرادی سوچ اختیار کرتا نظر آرہا ہے ۔ نسل پرست اور انتہا پسند سیاستدان کہیں اقتدار میں آچکے تو کہیں بس آیا ہی چاہتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ نسل پرستی انسانوں کو جوڑنے والا نہیں بلکہ توڑنے والا نظر یہ ہے ۔
یورپی یونین کا حصہ بننے کے لیے منفت سماجت کرنے والا ترکی روس سے سٹریٹیجک تعلقات کا ڈول ڈال چکا اور اب وہ ہر دوسرے روز منتشر ہونے یورپ کو طعنے دیتا نظر آتا ہے ۔ جہاں مغرب میں ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا عمل جاری ہے وہیں مشرق میں چین ابھررہاہے جوخطے کے مسائل حل کرتے ہوئے باہم اتحاد واتفاق کا ماحول فروغ دینے کے لئے کوشاں رہے گا ۔ اس ماحول میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے ’’ون بیلت اینڈون روڈ ‘‘فورم کے منطقی نتائج مغربی بالادستی کے خاتمے کی صورت ظاہر ہوں گی ۔ دنیا کی قیادت کرنے والی ہر عالمی طاقت اپنی سوچ اور فکر کو ہی عالمی چلن بناتی ہے ۔ ہم مغرب کی گرم ہوائوں کا چلن ہی نہیں اس کے نتائج بھی دیکھ چکے ، اب وہ وقت بس آیا ہی چاہتا ہے جب مشرق کی ٹھنڈی ہوائوںکا چلن ہو گا اور یہ مشرقی ہوائیاں مغرب پر حاوی ہو جائیں گی ۔ وہی مشرق جس کے افق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا ؎
کھول آنکھ ، زمین دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذراء دیکھ
سجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے