سترہویں صدی عیسوی کے بعد مسلم سلطنتیں جوں جوں اندرون خلفشاروں کی بدولت ناپید ہوتی چلی گئیں، یورپ کا تسلط بھی توں توںاِن کے ساتھ ساتھ دیگر کمزورو غریب ملکوں پر بڑھتا چلا گیا۔ اپنے تسلط کو مستحکم کرنے کے لئے یورپ نے ہمیشہ اپنی جابرانہ اور غاصبانہ پالیسیوں کو بروئے کار لایا۔ مغلوب ملکوں سے مال و دولت اور انمول معدنیات کو اپنی عیاشی کے لئے لوٹ کر اپنے اپنے ملک میں لے گئے۔ عوام کو دبایا،اُن کا استحصال کیا اور موقع بہ موقع روشنی کے بجائے انہیں دھکیلااور اگر کہیں مزاحمت ہوئی تو سبز باغ دکھائے۔ قدرت کا قانون ہے کہ ہر رات کے بعد طلوعِ سحر ہوتی ہے اور ان ظالموں جابروں کو بھی اسی قانوں کے تحت آخرکار ممالک محروسہ سے اپنی راہ لینی پڑی لیکن اپنے ناجائز قبضے کے دوران انہیں اپنے ماتحت ملکوں کے اندرو ن کا اچھے سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا،جس کی بدولت یہ آج بھی اپنی سابقہ اقوام کو اپنی غلامی میں کسے ہوئے ہیں۔ ان غاصب قوتوں نے اپنے زیر نگیں ملکوں کا پورا پوسٹ مارٹم کر کے ان کی سوسائٹی، تہذیب و تمدن، افکار و خیالات، خاص کر ان کی کمزوریوں کا سا ئنٹفک مطالعہ کر کے آج تک محکوم ملکوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے بلواسطہ طور رکھا ہواہے۔ غاصب قوتوں نے ان اقوام کے نظامِ معاشرت و معیشت کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے، ان کے سیاسی نظام کو اپنے پنجۂ استبداد میں بالکل ناکارہ کر کے چھوڑا، ان کے تعلیمی نظام کو بے حیائی اور اباحت وفحاشیت میں ڈبو کرر کے رکھ دیا ہے اور عام لوگوں کو حقیقت شناسی سے مکمل غافل کر دیا ہے۔ انہی چیزوںکے شکار مسلم ممالک آج کل فسادات اور خون ریزیاں عروج پر ہیں اور ان کے سابق آقا ان پر اپنی مرضی من وعن چلارہے ہیں۔ حقیقتوں کے ا س خلاصے سے کچھ اہم سوالات ہر سوچنے والے انسان کے دماغ میں گو نج سکتے ہیں کہ اِن غاضبانہ اور جابرانہ قوموں نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے پیچھے اُن کی کون سی مصلحت کار فرما ہے؟ یہ سب کرنے سے ان کو کیا فوائد پہنچ رہے ہیں؟ ان سوالات کے مدلل جوابات انسان کو شاید حقیقت شناس بنا سکتے ہیں۔ہوا یوںکہ اپنے زیرتسلط مظلوم و محکوم ملکوں اور قوموں کے اندر رون کی جانچ پرکھ کر کے انہیں جو بات اندر ہی اندر کھٹکتی رہی وہ ان ملکوں اور اقوام میں اسلامی عقائد، اسلامی ثقافت اور اسلامی تمدن ومعیشت ہے جس سے وہ اپنے لئے خطرہ محسوس کر تے رہے۔ گو کہ ان کے یہاں اسلام بہ حیثیت نظام موجود نہ بھی تھا، لیکن چودہ سو سال قبل قائم ایمان افروز نظام کے اثرات انہیں مقبوضہ ملکوں کے عوام میں کسی نہ کسی صورت میں وحدت ویگانگت پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے سارے معاملے کو گہرائی سے سمجھنے اور اس کا توڑ کر نے کی کا وشیں شروع کیں ۔اس کے لئے ان غالب قوتوں کو اسلام کی تاریخ سمجھنا پڑی، اسلام کے نظامِ زندگی کی چھان پھٹک کرنا پڑی، قرآن و سنتـ کی مقناطیسی کشش کا فہم وادراک کرنا۔ اس مطالعاتی تجزیئے سے جو نتائج انہوں نے اخذ کئے وہ ا ن کے لئے ایک بڑی پریشانی کا موجب بنے۔اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔انہوں نے اسلام کو آفاقی سطح کا ہمہ گیر نظامِ انسانیت پایا، اسلام کے مدمقابل کسی اور نظام اور ازم میں اتنا استحکام و توازن نہ پایا، اسلام کو فطرت کے عین مطابق دیکھااور اسلام کو امن و چین کا گہوارہ قرار پایا۔ انہوں نے اسلام میں معاشی مسائل کے حل کا واحد قابل عمل نسخہ دیکھا ، انہوں نے دیکھا کہ اسلام سیاسیات کی صحیح تعلیم دے کر حقوق البشر اور آزادیٔ فکر کا تمغہ دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر انہوں نے اسلام کو اپنی نا جائزمنافع خوری، جابرانہ تسلط، غاصبانہ آوارہ گردی، منفی پروپگنڈے، تہذینی کھوکھلے پن اور ظلم و جبر کے ساتھ ساتھ اپنے غلط کار فکر ونظریہ کے عین خلاف پایا۔ اس سے ان کے اوسان خطا ہوگئے اور یہ تذبذب کے شکار ہوئے ،اِن کو بے چینی لاحق ہوئی اور وہ اِس سوچ میں پڑگئے کہ اگر ان کے زیر تسلط لوگوں نے اسلام کو پڑھا سمجھا اور نافذ کیا تو ہمارے ظلم و جبر اور ناجائز قبضے کی خیر نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام انسان کی فطرت کو مکمل طور سمجھتا ہے، اس کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور اسے اپنے خالقِ حقیقی کے سوا کسی کا غلام بننے نہیں دیتا بلکہ وہ اپنے اوپر آقائیت کا دبدبہ چلانے والوں کے خلاف غیظ و غضب کے ساتھ ان کے خلاف حق کی بالادستی کے لئے بر سرِپیکار ہونے کی دعوت دیتاہے۔ اس اک حل انہوں نے یہ ڈھونڈا کہ مسلمان کہنے کو مسلمان رہے مگر اسلام سے خالی اور نظام اسلامی سے بہت دور ، ساتھ ہی ساتھ غیر مسلموں کو حقیقت شناسی سے غافل رکھنے کے لئے اسلام کو پر معاملے میں بدنام کیا جائے، مسلمانوں کودنیا کی تما م خرابیوں کی جڑ ہیں ۔ اس گندے کام کے لئے انہوں نے اپنے زرخرید غلام تعینات کئے ہیں، منفی پالیسیاں مرتب کی ہیں، جنگی سازوسامان تیار کر رکھا ہے ، سچائی کے مخالف لٹریچر کا ایک انبار مہیا کررکھا ہے، مستشرقین کی طرف سے اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کی ہوا کھڑا کروا رکھی ہے ، اپنی ذہنی انارکی اور تہذیبی جارحیت کو ترقی اور جدیدیت کا مظہر کہہ کر مسلمانوں کو گمراہ کر رکھا ہے ۔ان سارے اقدمات سے مسلم عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرکے انہیںاپنا مذموم مقاصد کی تکمیل میں کوئی اڑچن نہیں آرہی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے دنیا کے لوگ بالعموم اور مسلمان بالخصوص آج کل شکار ہوتے چلے آرہے ہیں، اِلاّماشاء للہ۔نفسانیت کے غلام اور ابلیسی نظام کے پروردہ مسلم ممالک پر مسلط یہ سابقہ اجنبی حاکم اور جابر مملکتیں چونکہ اکثریت میں چرچ کے متولی و متکلم رہے، ا س لئے انہوں نے ایک اور چال چلی۔ اپنے مکروہ چہرے کو پردہ کرنے کے لئے اِ نہوں نے اپنے مذہب کو بھی قربانی کا بکرہ بنا لیا۔
اس بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کی حقّانیت کے خلاف کتنے سنجیدہ اور منظّم طریقے سے بااثر غیر مسلم قومتیں اور حکومتیںاپنے اوچھے اغراض ومقاصد کے لئے اسلام ا ور مسلمانوں کے بارے میں شکوک و شبہات، جھوٹے پروپگنڈے ، چالبازیاں اور مستشرقین کی طرف سے احمقانہ اعتراضات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری جاری رکھے ہوئی ہیں۔ ان کا اصل ٹارگٹ مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور عقائدو اُفکار کو پراگندہ کرنا ہے۔ اس نظریاتی اور عملی کاتوڑکر نے کے لئے دور ِحاضرمیںمسلمانوںکو جس لائحہ عمل کی اشد ضرورت ہے وہ اس بات پر مر کوز ہو کہ جتنے بھی لادین نظام ہائے زندگی اور ملحدانہ افکار ہمیں گردونواح میں نظر آرہے ہیں، ، اُن کی سنجیدگی کے ساتھ اسٹیڈی کی جائے، اُن پر عمیق ریسرچ کی جائے،اُن پر سوالات اٹھائے جائیں، اُن کی خامیوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے، اُن کے ناکارہ پن کوعوامی ذہنوں پر واضح کیا جائے اور دنیا کے لوگوں کو یہ باور کیا جائے کہ جن خدا بیزار نظاموں کے اندر وہ خواہی نخواہی کسے ہوئے ہیں، اُن کی اصل حقیقت کیا ہے۔ مسلمانوںکوخاص کرکفر اور امامانِ باطل کے مکروہ عزائم کا پورا پورا فہم وادراک ہونا چاہے، کفر کو بیک وقت سمجھنے کے بعد اس کے نقائص اور خامیوںکا جائزہ لے کر اُس کے مد مقابل اسلام کے نقطہ نگاہ کو پیش کر کے حق بات بطریق احسن دالئل کی بنیاد پر واضح کی جائے ۔ یاد رکھئے کوئی بھی باشعور مسلمان ہوا میں کبھی باتیںنہیں کرتا، اُس کی ہر ایک بات کے پیچھے قرآن و سنت اور اصوِل فطرت اور ذہنی بلوغیت کا ٹھپہ ثبت ہوتا ہے ۔ اس کام میں جذباتیت اور ہنگامہ پرستی کا عمل داخل نہ ہو بلکہ جہل کا جواب علم سے اور برائی کا جواب اچھائی سے دینا مسلمانوں کے دین وایمان کا شیوہ ا ور شعار ہوتا ہے۔
دورِ حاضر کے چلینجوں کے تناظر میںضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اسلام کو مسجد کی چار دیواری اور تسیبح ومناجات کے ظاہری الاپ سے باہر نکال کر زندگی کے تمام شعبوں میں پیش کیا جائے اور اُسی نہج کو اپنا یا جو قرآن وسنت کا خاصہ ہے اور فریق مخالف کے دلائل کا جواب دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے جس کا قرآن و سنت مسلمانوں سے تقاضاکر رہا ہے۔ یہ صرف اور صرف اسلام ہی کا اعجاز ہے کہ یہ اپنے آپ کو دنیا کے سامنے اس طرح واضح اور غیر مبہم دالائل کے ساتھ کو پیش کرتا ہیکہ اس کے سامنے ابوجہلوں اور ابولہبوں کو مات کھانی پڑتی ہے۔ وقت کے دجال کوبھی یہ مات دے گا مگر شرط یہ ہے کہ مسلمان علم وحلم اور فہم وتدبر سے سرتا پا لیس ہو ۔ یہ ہوا تو باطل کی تمام سازشیں اور ابلیسی حملے پسپا ہوجائیں گے ۔
رابطہ9622939998