اے۔ ایس۔ دُلت ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ (را) کے سابق چیف اور انٹلی جنس بیورو کے سابق افسر ہیں۔ انہوں نے 1980ء کی دہائی میں کشمیر میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے تحت خاصا وقت گزارا ہے۔ وہ وہاں آئی بی کے اسپیشل ڈائرکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں وہ وزیر اعظم کے دفتر میں مشیر برائے کشمیری امور رہے ہیں۔ انہوں نے کشمیر پر ایک چشم کشا کتاب بھی لکھی ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو مسئلہ کشمیر کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں اور اس کو حل کرنے کے لیے قابل عمل تجاویز پیش کرتے رہتے ہیں۔ ا نہوں نے ابھی حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے ’’اس وقت جموں و کشمیر کی صورت حال انتہائی ابتر ہے۔ 1990 سے بھی ابتر۔ اس کی وجہ نوجوانوں میں علاحدگی کے جذبات اور بہت زیادہ غصہ ہے۔ نوجوان کشمیری دماغ بے قابو ہے۔ ان میں مایوسی کی کیفیت ہے۔ وہ موت سے بے خوف ہیں۔ دیہاتی، طلبہ اور یہاں تک کہ طالبات بھی سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ 1990 میں بھی نہیں۔ اُس وقت دہشت گردی تھی، تشدد تھا۔ آج حالات بہت ڈراونے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے ذریعے پتھراؤ کرنا غیر فطری بات ہے۔ آج انہیں پتھرباز ہونے پر فخر ہے۔ کشمیر کے حالات ایسے خراب کبھی نہیں تھے‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’اس مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔ خدا را بات چیت کیجیے۔ اس سے کشمیریوں میں ایک امید پیدا ہوگی کہ شائد کچھ ہو جائے۔ کشمیریوں سے بات کرنا تخریبی عمل نہیں ہے۔ اینٹی نیشنل یا قوم مخالف اقدام نہیں ہے… ہمارا یہ موقف کہ (پاکستان کے ساتھ) بات چیت اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتی بے معنی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہاں اور وہاں کیا ہو رہا ہے ہمیں مذاکرات کرنے چاہئیں‘‘۔
یہ جذبات و احساسات صرف اے ایس دلت کے نہیں ہیں بلکہ ہر اس ہندوستانی کے ہیں جو مسئلہ کشمیر کے تعلق سے تشویش میں مبتلا ہے اور جو اس مسئلے کا کسی نہ کسی طرح حل چاہتا ہے۔ یقیناً آج حالات انتہائی نازک ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے جنوبی کشمیر پلوامہ میں ڈگری کالج کے طلبہ کے خلاف کارروائی کی۔ اس کے بعد حالات بگڑ گئے اور یونیفارم میں ملبوس طلبہ و طالبات سڑکوں پر نکل آئے۔ ابھی تک اسکول اور کالج اس احتجاج سے دور تھے۔ اگر چہ احتجاجوں کے نتیجے میں تعلیمی ادارے متاثر ہوتے رہے اور اسکولوں کو نذر آتش کیا جاتا رہا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ طلبہ بھی میدان میں آگئے ہوں۔ آج والدین کو یہ معلوم نہیں کہ ان کے بچے اس وقت کہاں ہوں گے اور کیا کر رہے ہوں گے اور بچوں کو بھی اس کی کوئی فکر نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا اور پولیس اور سیکورٹی فورسز سے ٹکراؤ کے نتیجے میں ان کو کیا کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ تصویر میڈیا میں بہت زیادہ ہائی لائٹ ہوئی تھی کہ ناراض کشمیری نوجوان وردی پوش پولنگ عملہ کے ساتھ بد تمیزی کر رہے ہیں اور عملہ کے جوان خاموشی سے گزر جا رہے ہیں۔ قوم نے اس کی بھر پور انداز میں مذمت کی گئی لیکن اس کا پتہ لگانے کی بھی ضرورت تھی کہ آخر ایسا کیوں ہوا، اس کے اسباب کیا ہیں۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر کوئی فیصلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دوران وادی کے رائے دہندگان نے پی ڈی پی کے حق میں اور جموں کے رائے دہندگان نے بی جے پی کے حق میں اپنی رائے دی تھی۔ وادی کے عوام کو یہ امید تھی کہ پی ڈی پی ان کے مسئلے کو سمجھے گی اور اسے حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ مفتی سعید نے حالات کو سمجھا تھا اور اسے حل کرنے میں بھی وہ کوشاں رہے لیکن ان کے انتقال کے بعد جب کئی مہینے تک کوئی حکومت نہیں بنی تو صورت حال بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ اس کے بعد گو مگو کی کیفیت سے باہر آکر محبوبہ مفتی نے مخلوط حکومت بنانے پر رضامندی ظاہر کی اور حکومت بنائی بھی لیکن اپنے والد کے مقابلے میں کم تجربہ کار ہونے کی وجہ سے حالات ان کے ہاتھوں سنبھل نہیں پا رہے ہیں۔ ان کے بعض بیانات اور اقدامات نے بھی حالات کو خراب کرنے میں مدد دی ہے۔ وہاں پہلی بار ایسا ہوا کہ بعض اخباروں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ دہلی سے یہ بیانات دیے گئے کہ پاکستان ماحول کو خراب کر رہا ہے اور کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے اُکسا رہا ہے۔ لہٰذا کئی سوشل سائٹوں پر بھی پابندی لگا دی گئی لیکن اس کے باوجود زمینی سطح پر حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ملک کی بعض انتہاپسند تنظیموں اور بعض نیوز چینلوں کے ذریعے جو سخت گیر قسم کے بیانات دیے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے۔ اس قسم کے بیانات نے بھی ماحول کو خراب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر سے باہر کے تعلیمی اداروں میں جو کشمیری طلبہ زیر تعلیم ہیں ان کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ مقامات پر پوسٹرس وغیرہ چسپاں کرکے ان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ (بالآخر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اس بارے میں ریاستی حکومتوں سے کہنا پڑا کہ وہ اپنے یہاں کشمیریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں)۔ سیکورٹی فورسز کے ذریعے ایک نوجوان کو جیپ کے بونٹ سے باندھ کر علاقے میں گشت کرنے، اسے انسانی ڈھال کی مانند استعمال کرنے اور یہ دھمکی دینے سے کہ پتھراؤ کرنے والوں کا یہی انجام ہوگا، ماحول اور خراب ہوا ہے۔ جب کہ مذکورہ نوجوان پتھر باز نہیں تھا۔ اطلاعات کے مطابق وہ ووٹ دے کر لوٹ رہا تھا کہ اسے سیکورٹی فورسز نے پکڑ لیا۔ اس نے بعد میں اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب کبھی بھی ووٹ نہیں ڈالے گا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اس نوجوان کے دل میں جمہوریت مخالف جذبات پیدا کر دیے۔ حالیہ برسوں میں جمہوریت مخالف جذبات لوگوں کے دلوں میں کس قدر پروان چڑھے ہیں ،اس کا اندازہ حالیہ ضمنی انتخابات سے لگایا جا سکتا ہیں جن میں صرف ساڑھے چھ فیصد پولینگ ہوئی اور اننت ناگ اسلام آباد کے الیکشن کو ملتوی کر دینا پڑا۔
اس سے پہلے جب بھی حالات خراب ہوتے تھے تو دہلی کی جانب سے بات چیت کا ہاتھ بڑھایا جاتا تھا۔ اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کی گئی تھیں۔ ا نہوں نے جمہوریت، کشمیریت اور انسانیت کا فارمولہ دیا تھا جس سے کشمیریوں میں ایک اعتماد پیدا ہوا تھا اور انہیں یہ امید ہو چلی تھی کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ لیکن پھر بات بگڑ گئی اور معاملہ جہاں تھا وہیں رہ گیا بلکہ اس سے بھی پیچھے چلا گیا۔ ابھی پچھلے دنوں وزیر اعلی محبوبہ مفتی دہلی آئی تھیں۔ انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اٹل بہاری واجپئی کے زمانے میں جہاں معاملے کو چھوڑا گیا تھا وہیں سے از سر نو آغاز کیا جائے لیکن ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی اور کہا گیا کہ تشدد پر آمادہ کشمیریوں سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ لہٰذا انہوں نے بھی یہ بیان دے دیا کہ پہلے حالات کو بہتر بنایا جائے گا اس کے بعد بات چیت کی جائے گی۔
جموں و کشمیر بار ایسو سی ایشن نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی ہے جس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ کشمیر میں پیلٹ گنوں کا استعمال بند کیا جائے اور کشمیریوں سے بات چیت کی جائے۔ اس پٹیشن پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت علاحدگی پسندوں اور آزادی کا نعرہ لگانے والوں سے کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔ حکومت صرف اور صرف تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں (یعنی نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی) سے ہی بات کرے گی۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ پتھراؤ کرنے والوں سے کوئی گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ چیف جسٹس کی بنچ نے بار ایسو سی ایشن سے کہا کہ وہ ان لوگوں کے ناموں کی فہرست پیش کرے جو حکومت سے بات چیت کر سکتے ہوں۔ اس نے اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا کہ پیلٹ گنوں کا استعمال نہ کرنے کی ہدایت دی جائے۔ عدالت نے کہا کہ بار ایسو سی ایشن پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ پتھراؤ نہیں ہوگا جبھی ایسی کوئی ہدایت دی جا سکے گی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکومت تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں سے ہی بات کرے گی تو سوال یہ ہے کہ کیا اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔ کیونکہ مسئلہ کانگریس، نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ تو سیاسی اور جمہوری عمل میں شامل ہیں ہی۔ مسئلہ کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔ حکومت کو کشمیری عوام سے بات کرنی پڑے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کشمیری عوام کے نمائندے کون ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ منتخب ممبران اسمبلی و ممبران پارلیمنٹ ہیں، دوسرے لوگ یعنی علاحدگی پسند نہیں۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہاں کے عوام کی اکثریت انہیںاپنا نمائندہ سمجھتی ہے۔ اگر سمجھتی تو مسئلہ یہاں تک نہیں پہنچتا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ معاملات کو خراب کرنے میں پاکستان اور علاحدگی پسند رہنماؤں کا ہاتھ ہے، تو پھر حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں سے بات کرے۔ آخر اٹل بہاری واجپئی نے پرویز مشرف سے بات کی تھی یا نہیں؟ ماحول کو خراب کرنے میں جن لوگوں کا ہاتھ ہے ان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگااور ان سے پوچھنا ہوگا کہ آپ بتائیں کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔نئی دہلی کو یہ بھی دکھانا ہوگا کہ ہم صرف کشمیر کی زمین سے محبت نہیں کرتے بلکہ وہاں کے لوگوں سے بھی کرتے ہیں۔
ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ جب بھی بات چیت کی میز سجائی گئی ہے حالات میں بہتری آئی ہے۔ جب بھی بحالی اعتماد کے اقدامات کیے گئے ہیں برف پگھلی ہے۔ حکومت کا یہ کہنا کہ کشمیری عوام بھی ہمارے اپنے بھائی ہیں، بہت اچھی بات ہے تو پھر ان بھائیوں سے بات کیوں نہیں کی جا سکتی۔ اگر ان کو کچھ شکایتیں ہیں تو انہیں کیوں نہیں سنا جا سکتا۔ بہت سے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت جب ناگا باغیوں کے ساتھ بات کر سکتی ہے اور ان کے ساتھ معاہدہ کر سکتی ہے تو پھر کشمیریوں کے ساتھ کیوں نہیں کر سکتی۔ اس سلسلے میں حزب اختلاف کا الزام ہے کہ پاکستان اور کشمیر کے بارے میں حکومت کی کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس الزام میں بڑی حد تک صداقت معلوم ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی بھی اس صورت حال سے تشویش زدہ ہے۔ اس کے ذمہ داروں نے ایک اپیل جاری کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ ’’کشمیر میں تشدد پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر سیاسی مذاکرات شروع کیے جائیں اور کشمیری عوام کی شکایات کو دور کرنے کے لیے جمہوری عمل میں ان کا اعتماد بحال کیا جائے۔ایک ایسے مسئلے کو جو کہ پوری طرح سیاسی ہے حل کرنے کے لیے مسلسل فوج پر انحصار کرنا دانشمندی نہیں ہے‘‘۔ اس اپیل پر دستخط کرنے والوں میں جسٹس ریٹائرڈ اے پی شاہ، یشونت سنہا، وجاہت حبیب اللہ، سلمان حیدر، نروپما راؤ، شیکھر گپتا، رام چندر گوہا، عرفان حبیب، جان دیال اور بھارت بھوشن سمیت متعدد شخصیات کے نام شامل ہیں۔
سیاسی مشاہدین کو اندیشہ ہے کہ حکومت جان بوجھ کر معاملات کو لٹکا رہی ہے تاکہ ریاست میں گورنر راج نافذ کرنے کا ایک بہانہ مل جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس اندیشے میں کتنی سچائی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کی جانب سے خاموشی اور کشمیریوں سے کوئی بات چیت نہ کرنا مسئلے کو سنگین بنانے میں معاون ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے مسائل بات چیت سے حل ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کو بھی اسی طرح حل کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت سیاسی قوت ارادی کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرے۔اور اسی کے ساتھ کشمیر کے بارے میں دیے جانے والے انتہاپسندانہ بیانات کا سلسلہ بند کرائے۔ خواہ ایسے بیانات نیوز چینلوں میں بیٹھ کر دیے جائیں یا عوامی فورموں پر۔