شیخ محمد حسین پہلی دسمبر 1959ء کو شالہ کدل (حبہ کدل) کے شیخ غلام محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بسکو اسکول سے حاصل کی۔جوانی میں ہی پیپلز لیگ سے منسلک ہوئے ۔ 1983ء میں بمنہ کالج سرینگر سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی،1984 ء میں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں داخلہ لیا لیکن ان کو بوجوہ روپوش ہونا پڑا۔ پولیس نے ہر جگہ تلاش ان کی لیکن حسین پولیس کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوئے ۔ ایک دن پولیس نے ان کو گرفتار کرنے کے لئے یہ چال چلی کہ ایک مقامی اخبار میں پولیس کا ا شتہار شائع ہوا جس میں حسین کو فوراً پولیس ہیڈ کوارٹر میں ڈیوٹی پر حاضر ہونے کو کہا گیا۔ حسین نے بی ایس سی کرتے ہی سب انسپکٹر پوسٹ کے لئے درخواست دی تھی ۔ وہ اشتہار کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ انہیں گرفتار ی کے لئے پولیس نے جال بچھایا ہے۔ اشتہار کویکسر نظر انداز کر کے وہ پیپلز لیگ کے چیرٔمین فاروق رحمانی کی قیادت میں خود کو تحریک کے لئے وقف کر گئے۔ اس وقت پیپلز لیگ میں اندرونی خلفشار تھا لیکن حسین نے اس پر دھیان نہ دے کر تنظیم کے شعبہ نشرو اشاعت کو بڑی خوبی سے چلایا۔مسلم متحدہ محاذ کا قیام عمل میں آیا تو حسین نے اس کی بھر پور مخالفت کی ، ان کاماننا تھا کہ انقلابی سیاست میں انتخابات کی کوئی گنجایش نہیں ۔ 1987 ء میںانتخابات کے فوراً بعد حسین سرگرم ہوگئے کہ کبھی کپوارہ میں اور کبھی سوپور میں دیکھے جاتے لیکن اپنی ان سرگرمیوں کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ وہ در اصل ان دنوں شیخ عبدلعز یز کے آس پاس ہی رہتے جو پا کستان جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اسی دوران وہ محکمہ تعلیم میں مدرس مقرر ہوکر کرگل میں تعینات کئے گئے۔ کچھ ماہ وہاں رہے مگر ایک اچھا خاصہ نیٹ ورک تشکیل دیا ۔ یہ جو نہی حکام کی نظروں میں آیاتو حسین ملازمت کو خیرباد کہہ کر وہاں سے فرار ہوئے۔ قبل ا زیں ان کے حق میں جموں کشمیر بنک نے انڈسٹریل قرضہ منظور کیا تھا اور وہ پلوامہ کشمیر میں اپنا کارخانہ لگانے ہی والے تھے کہ ایک دن مسلٔہ کشمیر پر بحث چھڑی۔ حسین نے شیخ محمد عبداللہ کو سخت لہجے میں کوستے ہوئے انہیں کشمیریوں کی حالت ِزار کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس پرمقامی ایم ایل اے اور ان کے حواریوں نے حسین کی زبردست پٹائی کی مگر وہ بال بال بچ گئے۔ مذکورہ ایم ایل اے نے اسی مناسبت سے اسمبلی میں چلّایا کہ سرکار ان لوگوں کو قرضہ دیتی ہے جو شیر کشمیر کو سر عام گ گالیاں دیتے ہیں۔ اس پر حسین کابنک لون کالعدم ہوا لیکن ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا ۔ 1992 ء میں انہیں گرفتار کر کے گوگو لینڈ میں شرمناک ٹارچر کیا گیا مگر انہوں نے زبان نہ کھولی۔تقریباً بیس دن بعد رہائی نصیب ہوئی تو دیکھا گیا کہ پورے جسم پر تعذیب کے نشانات موجود تھے۔ رہائی کے بعد انہوں نے نکاح کیا اور یہیں سے ان کی مشکلات دوچند ہوئیں۔ گرہستی چلانے کے لئے انہیں مزدوری کرنا پڑی لیکن اس مشکل بھرے دور میں بھی وہ تحریک سے منسلک رہے۔6 ؍فروری 1996ء رمضان المبارک کی 17تاریخ یعنی جنگ بدر کے دن وہ کسی تحریکی کام سے مائسمہ گئے تھے کہ علاقے کی ناکہ بندی ہوئی اور حسین کا سامنا ایک فوجی سے ہوا۔ ایک مقامی خاتون کے مطابق ان دونوں میں کچھ گفتگو بھی ہوئی۔ پھر ایک گولی چلی اور حسین نے برسر موقع جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کو کرالہ پورہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ شہادت کے وقت ان کا بڑا بیٹا چند برس کا تھا اور چھوٹاابھی شکم ِمادر میں ہی تھا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648