خطہ پیرپنچال کے عوام کاوادیٔ کشمیر کے لوگوں سے غیر مشروط محبانہ تعلق ہے ۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ لوگ کشمیر کی آمدورفت کے لئے پیر کی گلی سے گزرتے جو آج اسی شاہراہ کو مغل روڑ میں بدل دی گئی ہے۔ پیر پنچال نے اپنے دامن میں ایک طرف وادی کشمیری کو آباد رکھا ہے اور دوسری طرف راجوری پونچھ کے دو اضلاع کو پناہ دی ہے۔ انگریزوں کے بعد ہندوستان میں بہت ساری تقسیموں کے ہتھکنڈے آزمائے گئے ۔ اسی پالیسی کی وجہ سے اپنے اپنوں سے دور اور جدا ہوگئے ۔ لاکھوں لوگ اسی منفی سوچ سے تشدد کے شکار ہو کر قتل کئے گئے ۔ تقسیم کا یہ بیج کبھی مذہبی بنیادو ں پر بویا گیا ، کبھی رنگ و نسل ،زبان اورور ذات برادریوں کی بنیاد پر ۔ آج بھی آئے دن لوگ تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ اس سے لوگوں کانجی مفاد وابستہ ہے۔ کسی کو اقتدار کی لالچ دے کر بھائیوں میں دوریاں پیدا کی جاتی ہیں اور کسی کو ڈرادھمکاکر آپسی اتحاد کو تباہ کر دیاجاتا ہے ۔ جس طرح منشیات کی وبا سے لگاتار لوگ مارے جا رہے ہیں اسی طرح شکوک وشبہات ا ور نفرتوں سے لوگوں کے باہمی رشتے قتل کرنے کے لئے بہت ساری طاقتیں وجود میںآئی ہیں اوراس کا براہ ِراست بُرا اثر اس وقت جموں کشمیر میںبھی نظرآرہا ہے ۔ کچھ ایسی طاقتیں ہیں جن کا یہ منشور ہے کہ یہاں کے اکثریتی طبقہ کوچھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔ پہلے انہیں مسلکی بنیادوں پر بانٹا گیا کہ کلمہ گوؤں کی مسجدیں الگ الگ ہو گئیںاور کلمہ ٔ وحدت کی بجائے ذات برادریوں کو معبود کا مقام دیا گیا۔ یوں اللہ کے بجائے لوگ سیدوں، گجروں، کشمیریوں اور راجپوتوں کی برادریوںمیں منقسم ہیں۔ یہ سبھی دیکھتے رہے ہیں ،سوچتے رہے ہیں مگرکچھ کر نہیں پارہے ہیں ۔ مشترکہ دشمن اپنی مست چال سے مسلمانوں کے دلوں میں لکیریں کھینچتا چلا جارہا ہے۔ اس کے بعدسیاسی اقتدار کے لیے اپنی اپنی برادری کو جذباتی کر نے کا مذمو م کھیل کھیلا گیا۔ ممبر اسمبلی بننے، پنچ یا سرپنچ بننے کے لئے اس جذباتی استحصال کا خوب استعمال کیا گیا ۔ یہاں تک کہ نا اہل لوگ ان عہدوں پر فائز ہوتے دیکھے گئے جو تقاضائے دین اور فہمِ دنیا دونوں سے دور تھے اورجنہیں شعور ہی نہ تھا کہ قوموں کی تقدیریں کیسے بدل دی جاسکتی ہیںبلکہ یہ صرف آپنے سیاسی آقائوں کوخوش رکھنے کے لیے سر جھکائے ان کی چوکھٹوں پر کھڑے رہتے ہیں۔
دورِ حاضر میں کچھ ایسی باتیں سامنے آئیں ہیں جن سے معلوم پڑتا ہے کہ علاقائیت اور ذات پات نسل زبان کی بنیاد پر ریاست جموں کشمیر کے عوام کے درمیان انقسام کی نئی لکیر کھینچنے کے لئے بڑے پیمانے پر سازشی عناصر سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اور ایک ایسی فضا ہموار کی جارہی ہے کہ بہت سارے مکتب ہائے فکر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوں۔ حالانکہ ان ساشی عناصر باتیں اور دعوے بالکل بے بنیاد ہیں۔ بدخواہ عناصر چاہتے ہیں کہ یہاں کسی بھی طریقے سے گوجر وںاور وادی کی کشمیری برادری میں ایک دوسرے سے علحیدگی ہو جس کا بظاہرسوال پیدا ہی نہیں ہو تا ۔ یہ گھٹیا سوچ ایسی بات ہے کے برابر ہے ایک انسان کے اپنے سائے سے الگ کرنے کی کوشش جائے۔ کشمیری اور گوجر یک جان ودوقالب ہیں ،اس لئے ایسی بداندیش طاقتوں کا یہ مذموم خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ۔ جموں کشمیر کی کشمیری قوم کی بات کی جائے تویہ اکثریتی طبقہ کے جسم کی روح کہلاتی ہے۔ روح سے کسی جسم کا جدا ہونے کے نتائج آپ بہتر طورسمجھ سکتے ہیں ۔ اسلام نے ہمیں وحدت کی لڑی میں ہمیشہ ہمیش کے لئے پرو دیا ہے،اس لئے کوئی یہ سوچے کہ کشمیر کے لوگوں کی سوچ میں اور پیر پنچال یا لسانی بنیادوں پر مشترکہ سوچ میں تبدیلی لا ئی جاسکتی ہے، ایسا سوچنا دیوانے کی بڑ ہے ۔ یہاں ہمیشہ سے ہی کشمیر کی قیادت کو لبیک کہا جاتا رہاہے ، یہاں کبھی علحیدہ قیادت کی بات سامنے نہیں آئی ہا کبھی کسی علحیدہ سیاسی تنظیم اور اجتماعی موقف کو تشکیل نہیں دیا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ جسم کا کوئی حصہ زیادہ کام کرتا ہے اور کوئی حصہ کم کام کرتا ہے، کوئی عضوزیادہ طاقت ور ہوتا ہے اور کوئی عضو ناتواں ہو تا ہے مگر ایک ہی جسم وجان کی بقاء کے لئے تمام اعضاء شانہ باشانہ دل و دماغ کے حکم پر حرکت میں نظر آتے ہیں ،اگر ایک حصے کو چوٹ آئے تو درد پورے جسم میں ہوتا ہے اور اگر جسم کے کسی کمزور یا طاقت ور حصہ کو کوئی ضرب لگے تو آنکھیں یکساں طور آنسو بہاتے دکھائی دیں گی ۔ آج زمانہ تعلیم وتہذیب کا ہے۔ آج اکیسویں صدی کا دور دورہ ہورہا ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کا بول بالا ہے۔ پہلی نسلوں سے کئی زیادہ جدید دور کی نسل ذہانت رکھتی ہے ،اس لئے اسے ذاتی مفاد اور گروہی مقاصدکی خاطر تقسیمی پالیسیاں کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی ہیں ۔ یہ چیز ہمیشہ کے لئے ذہن سے نکال دیں کہ مسلمان برادریوں کو بے وقوف بنا کر کوئی مفاد پرست کرسی حاصل کر لے گا ۔ تاریخ گواہ ہے خطہ پیر پنچال ریاست کا سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ ہے ،جموں نے ہمیشہ اس کے ساتھ سوتیلا برتاؤاور عدم تعاون کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تعمیر وترقی میں جموں کے تمام میدانی علاقے سرفہرست پائے جاتے ہیں، اسی کے پہلو بہ پہلو یہ خطہ ہمیشہ سے ہی پسماندہ رہا ہے ،ہر شعبہ میں اس کا حق آٹے میں نمک کے برابر رہا ہے ۔ تعمیر وترقی سے لے کر شعبہ تعلیم تک اس خطے کو خاطر خواہ مقام نہ دیا گیا ۔ اللہ کی عنایت سے ایک منارۂ نور جو بابا غلام شاہ بادشاہ ٹیکنکل یونیورسٹی کے نام سے مشہور و معروف ہے ، اس خطے کی کل کائنات ہے۔ اس دانش کدے کا قیام ۲۰۰۴ء کو عمل میں لایا گیا ۔ اس سے علاقہ کے پسماندہ طلبہ کو گھر کے دروازے پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم ہوئے، اس کے علاوہ جتنے بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے صوبہ جموں کے لیے منظورکیا گیا، انہیں فرقہ پرستی اور قوم پرستی کے نام پر جموں کے میدانی علاقوں تک ہی محدود رکھا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقہ کی تمام ہمدردیاں اور محبتیں ۵۰؍ کلومیٹر کی مسافت پر وادیؐ کشمیر کے ساتھ دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں۔اس کا توڑ کر نے کے لئے سازشی عناصر جتنا بھی ہمیں بانٹنے کی کوشش کریں ،یہ کبھی ممکن نہیں ہوگا کہ ہم منقسم ہوں کیوں کہ پیر پنچال کو دین و دنیا کی بھلائی نے آپس میں جوڑ دیا ہے ۔
9419170548