مسلمان اِس ملک کے حقیقی (بونافائڈ)شہری ہیں۔اس رو سے اگر وہ ہندوستان کی بھلائی کے بارے میںسوچتے ہیں اور اِس کاز کے لئے آگے آتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر قربانی پیش کرتے ہیں تو ان کی ان کوششوں کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی تاریخ کے ہر ہر مرحلے پر ملک قوم کی ترقی اور استحکام میں مسلمانوں کا خاطر خواہ حصہ رہا ہے۔آزادی سے پہلے تو اِن کی کاوشوںاورکارہائے نمایاں (achievements) پر سوالیہ نشان نہیں لگتے کیونکہ انگریزوں سے آزادی دلوانے میں گاندھی جی کے شانہ بہ شانہ عام مسلمانوں بلکہ علماء کی ایک پورے کا پورا قافلہ ٔ سخت جان چل رہا تھا جس نے ہر موقعے پر دیش کے لئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا اور قربانیوں کی بھرمار کردی لیکن تقسیم ِ ملک کے سانحے نے مسلمانوں کو بُری طرح نقصان پہنچاتے ہوئے انہیںمنتشر کر دیا۔۱۹۷۰ء میں پاکستان دو ٹکرے ہونے کے بعدمسلمان تین حصوں میں بٹ گئے ،گویا اُن کی مجموعی طاقت میں پھر سے شگاف پڑ گیا۔ایسامحسوس ہوتا ہے کہ تقسیمِ ملک ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت انجام دیا جانے والا واقعہ تھا( سابق وزیرخارجہ جسونت سنگھ کی کتاب ’’جناح‘‘ ایک آئینہ سامنے رکھتی ہے )کیونکہ اِس تقسیم سے صرف اور صرف بر صغیر کے مسلمانوںہی کانقصان ہوا ۔تقسیم تو انجام پا گئی لیکن اس کے بعد ہونے والے عواقب و اثرات پر نظر دوڑائیں تو مسلمانوں کی جھولی میں قتل و غارت گریاں، فسادات ، تباہیاں، الزام تراشیاں، دشنام طرازیاں کے علاوہ کچھ نہ آیا۔ملک کی تقسیم در تقسیم کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے جن میں ایک خاص وجہ مسلمانوں سے بلا وجہ کی شدید نفرت بھی رہی۔
ان حادثات کے ۷۰؍برس بعد بادل کچھ چھٹتے ہوئے نظر آرہے تھے کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت مرکز میں بر سرِ اقتدار آگئی جو خالصتاً مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر وجود میں آئی ہے۔گزشتہ تین برسوں میں خاص طور پر بی جے پی نے جو سیاسی ترقی کی ہے ،اس کی بنیاد بھی مسلمانوں سے نفرت میں پیوستہ ہے ۔نریندر مودی کی سیاست کا تمام تر محور مسلم دشمنی کے گرد گھومتی ہے اور ان کی سیاست کا دارومدار بھی مسلمانوں سے منافرت پر ہی ہے۔دوسرے لفظوں میں اسے اکثریتی فرقے کی منہ بھرائی کہہ سکتے ہیں ۔ کانگریس اپنے دور میں اس کا عشر عشیربھی کچھ کرتی تو بی جے پی اسے مسلمانوں کی منہ بھرائی کا نام دیتی تھی اور اسے آئین کے خلاف قرار دیتی تھی۔ کئی مواقع پر بی جے پی نے مسلمانوں سے متعلق اس طرح کے قضیوں کو عدالت میں لے جانے میں دلچسپی اور جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ مسلمانوں کا قافیہ تنگ کیا جا سکے اور عدالت سے اسے کامیابی بھی ملی ہے۔اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں بھی بی جے پی اور خاص کر مودی کے خلاف نفرت کا پیدا ہونا فطری اور ناگزیر ہے۔کوئی کتنا بھی کہے کہ مودی کی مسلمان اقلیت سے نفرت وکدورت نہیں ،مشاہدات یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے ۔ چند ایک واقعات اس مضمون میں گوش گزار کئے جائیں گے جن سے اس دلی نفرت کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اب کوئی یہ نہ کہے کہ ہندوستانی مسلمان الگ ہیں اور کشمیری الگ ، میں تو انہیں ایک ہی سکے کے دورُخ سمجھتا ہوں ۔
چند روز پہلے ہی کو جنتِ ارضی کشمیر سے لوٹا ہوں ۔تقریباً ایک ہفتے کے سفر میں مختلف جگہوں اور افراد سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔یہ جان کر بے حد تعجب ہوا کہ مرکزی حکومت کا خفیہ ادارہ یعنی کہ انٹیلی جینس یاتو بُری طرح ناکام ہے یا سب کچھ جانتے ہوئے انجان بنا ہوا ہے۔کشمیر کے تعلق سے باتیںیا تو وہ اپنے پاس ہی رکھتا ہے یا پھرمرکز یعنی مودی جی کو ہی آگاہ کرتا ہے ۔اگر وہ آگاہ کرتا ہے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ مرکزسب کچھ جانتے اور زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے بھی کشمیر کے تعلق سے کوئی امن پرورانہ لائحۂ عمل ترتیب نہیں دے رہا ہے۔کشمیر کے نامساعدحالات کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ وہاں’ مرض کچھ اور ہے اور دوا کچھ اور تجویز کی جا رہی ہے۔‘
کشمیر کے ایک بڑے نقاداور ادیب جوسبکدوش پروفیسرہیں، سے ملنے کے بعد جب تحریرِ نو کے شمارے پیش کئے تو انہوں نے سرِورق دیکھ کر برجستہ کہا : اِس(یعنی مودی) کی تصویر آپ نے کیوں لگائی ؟انہوں نے ’اس‘کے ساتھ ایک لاحقہ بھی جوڑا تھا،جسے ہم تحریر نہیں کر سکتے ۔اُن کے ساتھ فوٹو سیشن میں لی گئی تصویروں میں سے خاص اُس تصویر کو موبائل کیمرے سے اپنی آنکھوں کے سامنے نکلواکرڈیلیٹ کر دیا کہ اگر میں نے وہ تصویر(رسالے پر مودی کے ساتھ اُن کی) کہیں چھاپ دی تو اُن کا کہنا تھا کہ لوگ میرے گھر کو آگ لگا دیں گے۔انہوں نے مجھ سے سوال کیاکہ’’ آپ کیا چاہتے ہیں کہ میرا گھر تباہ ہو جائے؟‘‘اس سے قبل آدھا درجن ملاقات میں وہ ایسا کبھی پیش نہیں آئے جتنا مودی کی تصویر دیکھ کر جز بز ہوئے اور ایسا محسوس ہوا کہ جلد از جلد وہ مجھ سے دور ہو جانا چاہتے ہیں ۔اسی طرح چرارِ شریف میں جب اپنے ایک پروفیسر دوست کے دولت کدے پر جانا ہوا تو اُن کی ماں نے وزیر اعظم کی تصویر دیکھ کر’مودی -مودی‘ تو پکارا لیکن کشمیری میں وہ سب کچھ کہہ دیا جونہ سمجھتے ہوئے بھی میں سمجھ گیا کہ اُن کے اشارات کیا ہیں؟اگرچہ وہ کم پڑھی لکھی معلوم ہو رہی تھیں لیکن مودی سے نفرت میں پڑھا لکھا کیا اور کم پڑھا لکھا کیا؟
وہاں پر تحریرِ نو کے اُسی شمارے کا اجراء عمل میں آنے والا تھا جس کے سر ورق سے میرے کشمیری میزبان بھی تذبذب کا شکا ر تھے ۔بینر پر تو انہوں نے راستہ نکال لیا کہ اس سے قبل کے شمارے کی تصویر چھاپ دی لیکن اجرائے تو اُسی (شمارے) کا ہونا تھا۔بہرکیف اجراء عمل میں آگیااور محفل میں شریک لوگوں کو وہیں کاپیاںبھی دی گئیں لیکن سب کی ناک بھوئیں چڑھی ہوئی پائیں ۔مقررین نے بھی اس پر اپنی نا خوشی کا اظہار کیابلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس تصویر کی بجائے آپ اپنی تصویر دے دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا ۔
ان کے مخصوص رویوں اور ر تاثرات کو دیکھ کر میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کشمیر ی اپنے گھروں میں بھی اُس شمارے کو نہیںرکھنا چاہیں گے اور اگر رکھیں گے بھی تو سر ورق والے صفحے کو پھاڑ کر پھینک دیں گے کیونکہ سرورق کے سوا اس میں کوئی اور بات ان کے نزدیک قابل تضحیک نہیں ۔محفل میں ایسا دیکھا گیا کہ مودی والی سر ورق کو لوگ پلٹ کر رکھتے تھے جس کی وجہ سے میں بھی کچھ دیر کے لئے اندر ہی اندر کچھ احساس ِ جرم میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں مجھ سے کوئی بڑی بھول تو نہیں ہو گئی۔واپسی میں سرینگرہوئی اڈے پر ’ہینڈ بیگ‘ کی تلاشی کے دوران چند شمارے سیکورٹی اہلکار نے رکھ لینے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن کہنے کے باوجود بھی مودی کی تصویر والے شمارے کو لینے سے انکار کر دیا ۔
اُس روز چرارِ شریف جاتے وقت جان بوجھ کر لوکل سواری لی تھی تاکہ لوگوں سے گفتگو کا موقع ملے۔ایک لڑکے نے بتایا کہ صرف ہیلمٹ نہ ہونے کی وجہ سے اُس کی بائک کو کئی مہینوں تک تھانے میں گو یا’’ یرغمال ‘‘رکھا گیا اور خود اُسے بھی لاک اَپ میں بند کیا گیا۔یہ اور بات ہے کہ بعد میں چھوڑ دیا گیا لیکن اس میں وقت اور پیسے دونوں لگے ۔وہ یہ بھی شکایت کر رہا تھا کہ کشمیری ہونے کے ناطے ہمیں ہندوستان کے دوسرے شہروں میں ہراساں کیا جاتا ہے اور گھروں سے نکال تک دیا جاتا ہے۔اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
کشمیر کے زمینی حقائق بہت نا گفتہ بہ ہیں ۔دونوں طرف سے(یعنی حکومت اور کشمیریوں کے درمیان)نفرتوں کا بازار گرم ہے ۔حالانکہ یہ بات دونوں فریق جانتے ہیں کہ نفرتوں کے سایے میں زندگی یا حکومت کتنی دور تک جائے گی ،کچھ نہیں کہا جا سکتا ؟اسی طرح لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ساؤتھ پول اور نارتھ پول یعنی بی جے پی اور پی ڈی پی کی یکجائی ممکن نہیں کیونکہ دونوں کے بنیادی سیاسی نظریات میں بہت زیادہ اختلافات ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود اگر دونوں مل کر حکومت چلائیں گے تو اس کے یہی نتائج بر آمد ہوںگے،جو ہم سب دیکھ رہے ہیں ۔میڈیا،کشمیری امور کے نام نہاد ماہرین اور حکومتی ذرائع خواہ کچھ بھی کہیں لیکن کشمیر کے زمینی حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ وہاں کے حالات ٹھیک نہیں۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883