بارہ بنکی صوبۂ اتر پر دیش کا چھو ٹا ضلع ہو تے ہو ئے بھی بڑی اہیمت کا حامل رہا ہے یہاں بڑے بڑے صوفی بزرگ دانش ور علمی شعراء ڈاکٹر س، انجینئر س اور و کلانے اپنے فن میں عروج حاصل کیا ہے ضلع بارہ بنکی میں قصبہ کر سی مردم خیز ہو نے کے ساتھ ساتھ بڑا نامور قصبہ رہا ہے ، کون جا نتا تھا کہ دن۸؍نومبر ۱۹۳۱ء میں حکیم محمد نسیم عثمانی کا لخت جگر اور حضرت شاہ نجات اللہ ؒ کے نواسے کی شکل میں پیدا ہونے والا نونہا ل ایک دن مثل مہر درخشاں بنکر دنیا ئے شعروادب کو اپنی ضیاء فہم ولیاقت سے منور کر دیگا، اس بچے کا نام محمدعبدالعلیم عثمانی رکھا گیا جو اس جہاں کی کئی بہا ریں دیکھنے کے بعد ڈاکٹر علیم عثمانی بن گیا، علیم کے معنی ہی ہو تے ہیںجانکار ،علم والا ،یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لفظ علیم کا اثر جادو بنکر ایسا چھایا کہ بفضل ربیّ جناب ڈاکٹر علیم عثمانی نے جس طرف بھی اپنے قدم بڑھا ئے فتح وکا مرانی نے بڑھ کر ان کے قدم چومے۔ اس میں ان کی محنت کے ساتھ ان کے بزرگوں کی دعائوں کا فیض بھی شامل رہا،طب میں نام کمانے کے ساتھ شعروسخن میںجب قدم رکھا تو غزل بھی انکی جاںنثا ر بن گئی ، ان کا کلام بلاغت نظام سے بھر پور اور تغزل کا آئینہ دار ہوا کرتا تھا انھوں نے جو بھی کہا خوب کہا ۔ غزل اور نعت پاک کا ہر رنگ آپ کو ان کے کلام میں بخوبی نظر آٗے گا، انکی آواز میں بلا کا جادو تھا غزل پیش کرنے کا اندازہ نرالااو ر اچھو تا تھا انھیں میرؔ کے رنگ میں غزل کہنے کا ہنر آتا تھا نمونے کے طور پر شعر ملا حظہ فرما ئیں ؎
ہم دعا امن کی مانگتے ہیں مگر
آپ بھی اپنی پا ئل کو سمجھائیو
حال دل ہم سناتے ہیں ہنستے ہو تم
ہم نہیں بولتے تم سے اب جائیو
انکے یہاں ہر رنگ بخوبی نظر آتا ہے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں ؎
اب خون دل سے کون لکھے گا غزل علیم
زندہ ہے طرز میرؔ تمھارے کلام سے
میری رنگ میں لکھ کے غزلیں علیم
دھیر دھیرے نہ تم میرؔ بن جا ئیو
روایتی غزل کے دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا نہیں تھا کہ حالات زمانے پر ان کی نظریں نہیں تھیں زمانے کے حالات کا درد ان کے کلام میں جھلکتا ہے ؎
بغیر تیغ اٹھا ئے گذرنہیں ہوگا
یہ دور وہ ہے قلم کا اگر نہیں ہوگا
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں وہ قلم کی طاقت سے ا ٓگاہ نہیں تھے، وہ فرماتے ہیں ؎
ہم اہل قلم امن پسندوں میں ہیں
ورنہ تلوار سے کیا کم ہے قلم جنگ وجدل میں
تشبیہات کا استعمال بھی دیکھئے ؎
اشک یوں گر نے لگے آتشیں رخساروں پر
جس طرح مینھ برنے لگے انگاروں پر
سہل ممتنع کا رنگ بھی ملا حظہ فرمائیں ؎
کہہ دوں میں دل کی بات مگر ایک شرط ہے
وعدہ کرو کہ تم کو پسینے نہ آئیں گے ،
قسمیں یہ خدا کی تم کس واسطے کھا تے ہو
متروک ہے اس سن میں جب نام خد ا لینا
ا نہوں نے باقاعدہ شاعری کب شروع کی یہ تو میں نہیں جا نتا ،نہ یہ ہی جانتا ہوں کی شرف تلمذ کس سے حاصل کیا لیکن میری جب جب ان سے مشاعروں میںملاقات ہو ئی میں نے انہیںبڑے والہانہ انداز میں غزل پڑھتے دیکھا ، یہ ان کا بڑپن تھا کہ وہ اکثر کہا کر تے تھے کہ میں تو روائتی شاعری کو ہی بہتر سمجھتا ہوں اور اسی رنگ میں غزل پیش کرتا ہوں، دبستان عزیز جب قائم ہو ئی تو اس میں تشریف لا ئے بڑے خوش تھے خاکسار کو مبارک باد دی اور کہا کہ یہ اچھا کام کیا ہے اسے جا ری رکھنا، انہیںحضرت عزیز بارہ بنکوی مرحوم سے بہت لگا ئو تھا،وہ ان کی بڑی عزت کر تے تھے، تبھی تو استاد اشعراء حضرت عزیز نے ان کے بارے میں لکھا تھا ،عزیزم ڈاکٹر علیم عثمانی سے میرے دیرینہ خوشگوارتعلقات ہیں ،بزم افقر کے مشاعروں میں زیادہ ر شرکت فرماتے ہیں، خدا کے فضل سے ان کی مشق سخن کافی ہے، اشعارتمام نقائس سے پاک وصاف ہیں، پا بند شریعت ہونے کی وجہ سے نعت پاک میں بھی ایک خاص جذیہ کے ساتھ شعر کہتے ہیں جو سامعین کے دل پر اثر انداز ہو تے ہیں ۔میں نے جو اشعار پڑھے ہیں ان میں ایک خاص قسم کا جذبۂ عشق رسولؐنمایا ں ہے۔ اگر چہ مجھ سے چھوٹے ہیں مگر میں ان کا احترام کرتا ہوں یہ ان کی سعادت مندی ہے کہ مجھ کو پرانا بزرگ تسلیم کر تے ہیں، ا س کی وجہ سے مجھے بڑی تقویت حاصل ہے ،قرب وجوار میں اپنی محنت سے شاعری کو زندہ کئے ہو ئے ہیں ۔خدا کرے ان کا مجموعہ نعت پاک جلد ازجلد شائع ہو کر منظر عام پر آئے اور تمام احباب اس سے لطف وانداز ہوں میں ہر حال میں ان کا خیر اندیش ہوں اور ان کے لئے دست بدعاہوں ۔
ان کے ہم عصر شاعروں میں جناب صائم سیدن پوری ،کشفی لکھنؤی ،ہمسر قادری ،حیات وارثی، حفیظ سلمانی، تسنیم فاروقی، عاصی مہونوی، اور عاجز ماتوی کا نام آتا ہے جن سے انکے قریبی دوستانہ مراسم تھے۔ انہوں نے ادب کی خدمت کرتے ہو ئے قصبہ کر سی میں بزم بہار سخن قائم کی جس میں خاکسار کو بھی جا نے کا موقع ملا۔ بزم بہار سخن کے تحت عرصۂ دراز تک ماہانہ نشستوں کا انعقاد ہوتا رہا جس میں مقامی شعراء کے علاوہ لکھنو اور بارہ بنکی کے حضرات بھی شرکت فرماتے تھے۔ قرب جوار میں جو ادبی سرگرمیاں ہیں یہ سب ان کی بدولت ہیں ان کے شاگردوں کی لمبی فہرست ہے، ان کی خدمات کو بھلا یا نہیں جاسکتا ،انہیں بزم عزیز کی طرف سے اوارڈسے نوازہ گیا ۔ان کی غزلوں کا مجموعہ کلام دیوار،۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آیا جسے مقبولیت حاصل ہو ئی،ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ متاع مغفرت کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے ، اور دستیاب غزلوں، قطعات اور نظموں پر مشتمل تین مجموعات بام و در ، نقش اول ا ور حرفِ آخر کے نام سے زیر ترتیب ہیں۔ بہرحال شعرو ادب کایہ خادم ۱۰مئی ۲۰۱۳کو اپنے معبود حقیقی سے جاملا ۔ خدا جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)
رابطہ :جنرل سیکریٹری ۔ دبستان عزیز۔بارہ بنکی