وادی کشمیر سے منسلک سیاسی جماعت پی ڈی پی نے جب 2014 ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد بھاجپا کو مخلوط وزارت تشکیل دینے کیلئے اپنا پارٹنر چنا تو یہ عیاں رہا کہ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے متراوف ایک عمل تھا ۔مفتی خاندان کی سر براہی میں پی ڈی پی کیلئے خود دھوکہ دہی کے علاوہ کوئی اور عنوان چنا جائے تو بے جا ہو گا ۔بھاجپا کے رام مادھو اور پی ڈی پی کے حسیب درابو کے مابین طے شدہ سمجھوتہ ( ایجنڈا آف الائنس) کو سیاسی گٹھ بندھن کے واسطے متفقہ لائحہ عمل کا نام دیا گیا ۔ یہ آغازِ کار سے ہی ایک کھوکھلا معاہدہ تھا جس میں بھاجپا نے دوغلی بیاں بازی کیلئے کافی گنجائش رکھی ۔ ایجنڈا آف الائنس بذات خوددھوکہ دہی کے عمل کے متراوف اسلئے تھا چونکہ پی ڈی پی کیلئے یہ عیاں ہونا چاہیے تھا کہ کشمیر کے ضمن میں دہلی نے کبھی اپنے وعدوں پہ عمل نہیں کیا بلکہ سچ تو یہ ہے منجملہ کسی بھی معاہدہ کے کسی بھی حرف پہ کبھی عمل در آمد نہیں ہوا۔ یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جسے ریاستی سیاست کا وہ دھارا جسے مین اسٹریم کے نام سے جانا جاتا ہے جان بوجھ کے فراموش کرنے پہ ہر آں آمادہ نظر آتا ہے اور فراموشی کی اِس کیفیت میںکتنے ہی معاہدوں، ایکارڑوں اور ایجنڈوں کو منظر عام پہ لایا گیا۔
معاہدوں، ایکارڑوں اور ایجنڈوںکے کھوکھلے پن کے باوجود ہر سیاسی گٹھ بندھن کے بعد اِن کی گونج ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں سنائی دیتی ہے البتہ تاریخی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو حالات و واقعات کے تجزیے میں یہ حقیقت عیاں رہتی ہے کہ ہر بار اور ہر گام پہ معاہدوں، ایکارڑوں اور ایجنڈوں کی تشہیر مین اسٹریم احزاب خاصکر علاقائی تنظیموں کیلئے دہلی سرکار کے تابع رہنے اور اِس سرکار کے ہر حکم کو عملیانے کو ایک اخلاقی چہرہ دینے کے متراوف ہوتا ہے ۔ ایک اور عیاں حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ کوتاہ مدت کیلئے ہنگامی حالات سے گذرنے کے نسخوں کے علاوہ کوئی اور معنی کوئی اور مفہوم نہیں رکھتے۔تاریخی تجزیے میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ پنڈت نہروکے رائے شماری کے ضمن میں وعدے سے لے کے نریندرا مودی کے زمانے کے ایجنڈا آف الائنس تک کسی بھی معاہدے، ایکارڑ یا ایجنڈے پہ عمل نہیں ہوا ہے چاہے وہ 1952ء کا دہلی ایگریمنٹ ہو، 1975 ء کا اندرا عبداللہ ایکاڑ ہویا 1986/87کا فاروق راجیو ایکارڑ بلکہ دیکھا جائے تو اِن کھوکھلے پیمانوں کے پیش منظر میں سیاسی تلخیاں تلخ تر ہوتی گئیں اور مسلہ کشمیر گوناگوں اُلجھنوں میں اُلجھتا گیا۔ معاہدوں، ایکارڑوں اور ایجنڈوںکا قیام مین اسٹریم کیلئے سیاسی آماجگاہ کی تلاش کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مین اسٹریم لغت انگلیسی میں اصلی دھارے کو کہتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ مین اسٹریم کی اصلیت ہمیشہ ہی مشکوک رہی ہے ۔حکومت سازی کیلئے معاہدوں، ایکارڑوں اور ایجنڈوںسے کام تو لیا جاتا ہے لیکن چونکہ نام کے اِس اصلی دھارے کی اصلیت مشکوک ہے لہذا حکومت کو چرخانے کا عمل دشوار بن جاتا ہے ۔عوامی حمایت سے محروم رہنے کے سبب جموں و کشمیر کا مین اسٹریم عوام کی ترجمانی کے بجائے ریاست میں دہلی کا ترجمان بن جاتا ہے تاکہ حکومت بنی رہی۔ یہ ایک سیاسی حقیقت ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی ایک اپنی شناخت ہے بنابریں تقابل نسبت میں اِسے کسی اور بھارتی ریاست سے قابل مقایسہ قرار نہیں دیا جا سکتا پھر بھی اگر خالص بھارتی سیاسی دائرے میں پرکھا جائے تو یہاں کسی بھی مین اسٹریم حکومت میں یہ دم خم نہیں رہا ہے کہ بنگال کی ممتا بنر جی مانند دہلی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکے ۔بنگال کی ممتا بنرجی یا تامل ناڈو کی وزیر اعلی اسبق جے للتا بھر پور عوامی حمایت کی حامل رہی ہیں جبکہ یہاں کے حکومتی ایوان عوامی حمایت سے مبرا ہیں اور موجودہ حکومت کی سر براہ محبوبہ مفتی کو ممتا بنرجی کے ساتھ ایک ہی پلڑے میں رکھا جائے تو نا میزانی کی کیفیت عیاں ہوتی ہے چہ پدی اور چہ پدی کا شوربہ!
جموں و کشمیر میں ریاستی طاقت کا منبہ دہلی کا تشکیل شدہ ہے اور اِس ریاستی طاقت میں عوامی حمایت سے بے بہرہ مین اسٹریم کی کچھ بھی حصہ داری نہیں لہذا مین اسٹریم کی نگاہیں دہلی پہ ٹکی رہتی ہیں گر چہ گاہ بگاہ ایسے بیانات بھی منظر عام پہ آتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ عوامی جذبات کی ترجمانی ہو رہی ہے لیکن یہ اُسی حد تک ہوتی ہے جو دہلی کیلئے قابل برداشت رہے۔دیکھا جائے تو اِن بیانات کو دہلی کے حکومتی ایوان بھی اُس حد تک برداشت کر لیتے ہیں جس حد تک اُس رسی کی لمبائی ہو جس میں مین اسٹرین جکڑا رہتا ہے ۔جہاں بھی معینہ حد سے تجاوز ہو وہاں رسی کھنچ لی جاتی ہے ۔اِس ضمن میں فاروق عبداللہ کے زمام حکومت کے دوراں جموں و کشمیر اسمبلی کی اُس قرار داد کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جس میں ریاستی اٹونومی کا دہلی سرکار سے تقاضا ہواجس کو بے دردی سے رد کیا گیا۔ فاروق عبداللہ کو نرسہما راؤ بیاں ’سکئے از دی لمٹ‘ یعنی آزادی سے کم آسماں کی حد تک رعائتیں دی جا سکتی ہیں سے یہ ضم ہونے لگے کہ دہلی سچ بولنے پہ اتر آئی ہے لیکن جلد ہی دہلی کی زباں اِس حد تک آشکار ہوئی کہ پھر کسی بھی مین اسٹریم سیاستداں نے گستاخی کی جرات نہیں کی۔اِس واقعہ کے پیش منظر میں از اینکہ پھر کوئی مین اسٹریم سیاستداں معینہ حد کو پار کرنے گستاخی نہ کرے مین اسٹریم میں دراڑ لائی گئی چناچہ جہاں نیشنل کانفرنس تک و تنہا نظر آتی تھی وہاں اِس قدیمی تنظیم کے ساتھ پی ڈی پی بھی نظر آنے لگی۔
پی ڈی پی کہاں سے جنمی اور کیسے پنپنے لگی اِس بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں منظر عام پہ آنے لگیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے البتہ اِس سیاسی حادثے کے پیش منظر میں کیا سیاسی تبدیلیاں پیش آئیں وہ تجزیہ کاروں کے نشانے پہ رہیں بھی ہیں بلکہ آج بھی ہیں۔اِس کے پیش منظر میں حکومت سازی کے عمل میں نہ ہی نیشنل کانفرنس اور نہ ہی پی ڈی پی اپنی جماعت کے انتخابی نتائج کے بل بوتے پہ حکومت سازی کے قابل رہی لہٰذا اُنہیں 2014 ء تک کانگریس کی حما یت پہ اکتفا کرنا پڑا جس سے یہ علاقائی تنظیمیں محلی سیاسی و اقتصادی مسائل کی ترجمانی کرنے کے قابل نہیں رہیں ۔ کانگریس ایک آل انڈیا تنظیم ہے بنابریں اِس تنظیم کی ریاستی شاخ کیلئے ریاستی مسائل کی ترجمانی بھارت کے ملکی مسائل کے تابع رہی اور جہاں بھی ریاستی مسائل بھارت کے ملکی مسائل سے ٹکرائے وہاں ملکی مسائل کو فوقیت رہی ۔نیشنل کانفرنس حکومتی جماعت رہی یا پی ڈی پی دونوں کی حالت ایک بال و پر کٹے ہوئے پرندے کی مانند رہی اور دن بدن یہ عیاں ہوتا رہا کہ ریاستی احداف کی ترجمانی کے بجائے اُن کا حدف فقط و فقط کرسی سے چپکنا ہے بھلے ہی یہ ایک ایسی کرسی ہو جو حقیقی طاقت سے محروم رہی اور آج کے حکومتی دور میں طاقت سے محرومی کی کیفیت جس حد تک عیاں ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔
2014 ء کے اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوراں پی ڈی پی نے ہر گام پہ یہ دہرایا کہ بھاجپا کے انتخابی مارچ پہ روک لگانا اَس علاقائی تنظیم کے بنیادی احداف میں شامل ہے ۔قارئین کو یہ یاد ہی ہو گا کہ بھاجپا کے احداف میں جموں کے میدانی اضلاع کی منجملہ سیٹوں کے علاوہ اُس کی نظریں جموں ڈویژن کے پہاڑی اضلاع سے ہر ممکنہ سیٹ پہ تھیں۔اِس کے علاوہ وادی کشمیر سے کم از کم پانچ سیٹیں شامل احداف میں شامل رہیں ۔ پھاجپا کے اعلان شدہ احداف پہ روک لگانے پہ پی ڈی پی کی الیکشن مہم استوار ہوئی اور اِس بہکاوے میں آ کے معصوم وؤٹروں کی ایک خاصی تعداد نے پی ڈی پی کو وؤٹ دیا۔انتہائی مہم کے برعکس جب پی ڈی پی نے بھاجپا کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تو ریاستی عوام میں مایوسی کی ایک لہر دھوڑ گئی۔اِس مایوسی سے نبٹنے کیلئے ایجنڈا آف الائنس کا ڈرامہ رچایا گیاجہاں دہلی نے اپنے بھاجپائی لباس میں حسب المعمول کچھ وعدے کئے۔بھاجپائی لباس کو واجپائی رنگوں میں رنگا گیا جہاں اتل بہاری واجپائی جی کے انسانیت،کشمیریت و جمہوریت کے رنگ نمایاں رہے۔
ایجنڈا آف الائنس کے واجپائی رنگوں کے پھیکے پن کو معروف کالم نگار عبدالغفور نورانی اپنے کئی کالموں میں عیاں کر چکے ہیںجن میں سے سب سے نمایاں کالم کچھ ہی دن پہلے گریٹر کشمیر میں نظر آیا ۔اِس کالم نے اِس حقیقت کو اجاگر کیا کہ واجپائی جی کے تلوں میں در اصل وہ تیل ہی نہیں تھا جو مسلہ کشمیر کے حل کا سبب بن سکے لیکن نہ جانے واجپائی جی کی چھاپ کشمیر کے سیاستدانوں پہ کیسے اِس حد تک پڑی کہ اُنکے نام کی مالا جپنے لگے اور اُنکے پجاریوں میں مفتی خاندان سب سے پیش پیش نظر آتا ہے۔پنڈت نہرو سے لے کے ڈاکٹر منموہن سنگھ تک جب بھی جہاں بھی کانگریسی لیڈر اں مسلہ کشمیر کے ضمن میں کوئی قدم اٹھاتے ہوئے نظر آئے اُس کا حدف خط متارکہ کے وجود کو حرف آخر منوانے کے سوا کچھ نہ رہا بہ اصرار اینکہ سرحدوں کو نہیں بدلایا جا سکتا ہے۔واجپائی جی نے یہی بات شاعرانہ انداز میں کہی اور انسانیت کو اُس کا دائرہ قرار دیا۔مودی جی بھی جہاں انسانیت،کشمیریت و جمہوریت کی واجپائی مالا جپتے رہے وہی اُنہوں نے یہ احتیاط برتی کہ خالی خولی نعروں کے سوا وہ برائے نام بھی مسلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں کوئی بات نہ کریں۔
ایجنڈا آف الائنس کا کھوکھلا پن 7نومبر 2015ء کے اُس عوامی جلسے میں صاف نظر آیا جہاں شہر سرینگر کے کرکٹ سٹیڈم میں مفتی محمد سید کی اِس پیشنہاد کو کہ مودی جی کو پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھانا چاہیے کا جواب وزیر اعظم ہند کی جانب سے یہ ملا کہ اُنہیں اِس ضمن میں کسی نصیحت کی ضرورت نہیں۔محبوبہ مفتی کو یہ بات بھلے ہی یاد نہ رہی ہو لیکن سچ تو یہ ہے کہ اُس دن ایجنڈا آف الائنس کو پاؤں تلے روندا گیا۔محبوبہ مفتی کو اگر کوئی بات یاد ہے تو وہ یہ کہ مودی جی نواز شریف کو جنم دن پہ بدھائی دینے کیلئے 25دسمبر 2015ء کو لاہور پہنچے جہاں وزیر اعظم پاکستان کی نواسی کی شادی کی تقریب کی خوشیاں بھی میاں صاحب کے جنم دن کی خوشی میں شامل تھیں ۔ خوشیوںکی یہ محفل شریف خاندان کے جاتی عمرہ نامی ذاتی محل میں آراستی تھی جوکہ لاہور کے مضافاتی علاقے رائے ونڈ میں واقع ہوا ہے۔ نریندر مودی کا پدھارنا محبوبہ جی مودی جی کی دریا دلی سمجھتی ہیں جس کا پاکستان نے مثبت جواب نہیں دیا جبکہ در حقیقت یہ ایک علامتی دورہ تھا جس کے پایے کسی سفارتی تیاری پہ استوار نہیں تھے ۔ ہند پاک رشتے ہلکے سے یخ پہ دھوڑ لگانے کے متراف ہیں جہاں یخ کا ٹوٹنا ہلکے سے جھٹکے سے یقینی ہوتا ہے چونکہ اِن رشتوں کی زمیں محکم نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ رتیلی ہے اسلئے پٹھانکوٹ جیسے نا مناسب واقعات کے بعد رشتوں کا بھونچال کی کیفیت سے دو چار ہونا یقینی ہوتا ہے۔
ایجنڈا آف الائنس میں پاکستان سے تعلقات میں ہمواری اور کشمیر کی مقاوتی رہبری سے ہمکناری کے بارے میں جو واضح اشارات تھے اُن پہ عمل در آمد بھاجپا کی کلچرل نیشنلزم کی سیاست میں سما سکے یہ ناممکنات میں ہے۔1947ء کے بعد کے حالات و واقعات کی تاریخ گواہ ہے کہ نہ ہی کانگریس کے نام نہاد سیکولرازم نہ ہی بھاجپا کے کلچرل نیشنلزم میں وہ وسعت رہی جس میں مسلہ کشمیر کا حل سما سکے۔ معاہدے، ایکارڑ اور ایجنڈے خالی حرف رہے جن کو عملیانے کی کبھی نیت ہی نہیں رہی۔انجام کار سپریم کورٹ میں بھارت سرکار کی جانب سے علنناََ یہ اعلان ہوا کہ علحیدہ پسندوں سے کوئی بات نہیں کی جائے گی ۔ایسا یہ یاد رکھے بغیر کہا گیا کہ جو کبھی جڑے ہی نہیں اُنہیں علحیدہ پسند کیسے کہا جا سکتا ہے؟
سپریم کورٹ میں اعلانیہ کے ثبت ہونے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ رام مادھو جی نے ایک ٹیلی ویژن مذاکرے میں یہ کہا کہ ا یجنڈا آف الائنس کی بر آوری کے ضمن میں کوئی بات ہونی ہے تو وہ ریاستی سرکار کے ساتھ ہونی ہے۔رام مادھو جی سے کوئی پوچھے کہ بے دست پا طاقت سے محروم ریاستی سرکار سے کوئی بات کرنے پہ آمادہ ہو بھی جائے تو کیا کسی مثبت نتیجے کی امید کی جا سکتی ہے اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی صحنہ میں جہاں ریاستی سرکار کا وجود پہ ایک سوالیہ لگا ہوا ہے؟ رام مادھو کے بیاں کے کچھ ہی دن بعد ارون جیٹلی کا سرینگر میں دیا ہوا بیاں منظر عام پہ آیا جس میں کہا گیا کہ بات چیت کے ضمن میں جب بھی فیصلہ لیا جائے گا تب معلوم ہو جائے گا فیلاََ وہ اِس بارے میں وہ کچھ کہنا نہیں چاہتے۔ اِس سے یہ عندیہ لیا گیا کہ بات چیت کے امکانات ہیں جبکہ در اصل جو کچھ سپریم کورٹ میں کہا گیا یا جو رام مادھو یا ارون جیٹلی نے کہا وہ کسی ٹھوس سیاست پہ مبنی نہیں بلکہ کشمیر کو کو تاہ مدت کے مرحلہ وار کوتاہ بین منصوبوں کے وسیلے چرخایا جا رہا ہے جن کی زمین رتیلی ہے اور جس نے بر صغیر ہند و پاک کو ایٹمی جنگ کے دہانے پہ کھڑا کیا ہے ۔ظاہر ہے اِس جنگی کیفیت کا ایندھن آر پار کے غریب عوام کا خوںپسینہ فراہم کر رہا ہے جن کے درد کا مداوا دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔رہے جموں و کشمیر کے بد نصیب عوام وہ سیاسی و سفارتی غلط کاری میں دن بدن پسے جا رہے ہیں۔اللہ نگہباں!
یار زندہ صحبت باقی
Feedback on: [email protected]