اک کشمکش رہی مرے اندر تمام رات
تڑپا کسی کی یاد میں اکثر تمام رات
پھر بھی مٹی نا تیرگی میرے نصیب کی
وہ چاند بن کے ٹھہرا تھا چھت پر تمام رات
اک جُوئے خوں تھی آنکھوں میں سو وہ بھی بہہ گئی
پیاسا تھا پھر بھی دِل کا سمندر تمام رات
اِک بوند خوں کی پائی نہ داماںِ صبح پر
یوں تو چلے ہیں قلب پر خنجر تمام رات
تب جاکے عطر بیز ہوا ہے تیرا بدن
ہم نے بنائے نیند میں پیکر تمام رات
محسوس تیرا لمس جو ہونے لگا مجھے
سُلگا ہے تیری یاد میں بستر تمام رات
دیکھے تھے دوپہر میں کبھی ہم نے بھیڑیئے
گُزرے نظر سے خوف کے منظر تمام رات
سچ بولنے سے آج میں کترا گیا تھا کیوں؟
بر سے مرے ضمیر پر پتھر تمام رات
کیسے بنا یہ سنگ صنم، سوچتے رہے
تھا مبتلا عذاب میں آذر تمام رات
آزادی بستی نٹی پورہ سرینگر،موبائل نمبر: 9419463487