ترال/سید اعجاز/سیموہ ترال جھڑپ میں مارے گئے دو جنگجوئوں اور ایک عام شہری کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خا ک کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ان کے الگ الگ نماز جنازوں میں شرکت کی جبکہ سبزار کی سات بار نماز جنازہ اداکی گئی ۔اسکے نمازجنازہ میں ایک کمانڈر سمیت کئی جنگجوں نمودار ہوئے ۔سیموہ ترال میں سنیچر کومارے گئے دو جنگجوئوں اور ایک عام شہری کواتوارکے روز سپر د خاک کیا گیا۔سبزارکی لاش رات دیر گئے اسکے لواحقین کے سپردکی گئی جبکہ فیضان کی لاش سنیچرکی شام ہی حوالے کی گئی تھی۔اتوارکی صبح دس بجے کمانڈر سبزار احمد کا پہلانماز جنازہ ادا کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جبکہ بعد دوپہر تک سات بارانکی نماز جنازہ ادا کی گئی۔اگر چہ رٹھسونہ جانے والی تمام راستوں کو فورسز نے دوران شب ہی سیل کیا تھا تاہم جنازے میں شامل ہونے کے لئے ترال کے علاوہ وادی کے اطراف و اکناف سے لوگ خاص کر نوجوان بڑی تعداد میں دشوار گزار راستوں سے پیدل اور گاڑی کے چھتوں پر سفر کر کے جنازے میں شامل ہوئے ۔ جنازے کے دوران مختلف علاقوں میں سرگرم جنگجواچانک نمودار ہو ئے اوراس موقعہ پر لوگ جذباتی ہوگئے اورانہوں نے اسلام اور آزادی کے حق میں زبردست نعرے لگائے۔اذان نامی جنگجو کونوجوانوںنے کندھوں پر اٹھایا تھا جو زبردست نعرے لگا رہا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق کمانڈر ذاکر موسٰی گزشتہ شام جھڑپ ختم ہونے کے بعد وہاں آئے تھے ۔ آج جنازے کے دوران بھی وہاں ایک ہیلی کاپٹر گشت کررہا تھا ۔جھڑپ میں دوسرے جاں بحق ہونے والے کمسن جنگجوفیضان مظفر کی میت پولیس نے قانونی لوازمات پورا کرنے کے بعدسنیچر کی شام ان کے لوحقین کے حوالے کی تھی جس کا نماز جنازہ شام دیر گئے ہی عید گاہ ترال میں انجام دیا گیا۔ ان کے جنازے میں بھی لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی جبکہ حافظ عاقب رشید ساکن میڈورہ خانقاہ ترال کی میت جب گزشتہ رات ان کے گھر پہنچائی گئی تو وہاں کہرام مچ گیا۔ عاقب علاقے کی مسجد شریف میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا، انہیں بھی گزشتہ رات ہی سپر د خاک کیا گیا اور ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی ۔ قصبے میں مکمل ہڑتال کی وجہ سے معمولات کی زند گی بری طرح متاثر ہوئی تاہم ترال بازار میں کسی بھی جگہ فورسز کو حالات خراب ہونے کے پیش نظر تعینات نہیں کیا گیا تھا تاہم رٹھسونہ جانے والے تمام راستوں کو فورسز نے دوران شب ہی سیل کیا گیا تھا جہاں کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی ۔