ترال//سیموہ جھڑپ کے دوران فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والااٹھارہ سالہ حافظ قرآن عاقب رشید دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھاجسے عید کے بعد مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے دیو بند جانا تھا۔ 18سالہ حافظ عاقب رشید لون ولد عبد الرشید لون ساکن خانقاہ میڈورہ ترال سنیچر دن کے بارہ بجے جنگجو کمانڈر سبزار احمد ڈار کے جنازے میں شرکت کرنے کی غرض سے نکلا۔لیکن اس سے پہلے اس نے نہایا ،خوشبولگا کراپنے دودوستوں کے ہمراہ رٹھسونہ سے نکلاتھا۔اسکے دوستوں کاکہناہے کہ صبح ہی سیموہ میں سبزار کی ہلاکت کی افواہ پھیل گئی اورہم نے فیصلہ کیاکہ سبزار کے جنازہ میں شرکت کی جائے۔راستے میں ہم نے سناکہ سبزارکی لاش گھر نہیں لائی گئی ہے لہٰذا ہم تینوں سیموہ پہنچے جہاں فورسز اورعام لوگوں کے درمیان تصادم آرائی ہورہی تھی۔وہاں پہنچ کرہم بھی جلو س میں شامل ہوئے لیکن فورسز نے عاقب کو گولی کا نشانہ بنایا۔ عاقب اپنے چھوٹے بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کا واحد سہارا بھی تھا۔جس نے پونچھ میں قائم ایک دارالعلوم سے قران شریف حفظ کیا تھا اور آج کل وادی کے ایک اور دارالعلوم سے مزید دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔ ان کے قریبی رشتہ داروں کے مطابق عاقب کو عید کے بعد مولوی فاضل کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے دیو بند جانے کا ارادہ تھا جس کے لئے تقریباً تمام تیاری کر لی تھی ۔عاقب آج کل اپنے گائوں کی مسجد شریف میں نماز پڑھا تا تھا۔عاقب کا والد سرینگر میں نانوائی کی دکان چلارہاہے جبکہ ان کی دونوں بہنیں زیر تعلیم ہیں ۔ رشتہ داروں کے مطابق حافظ عاقب کو بچپن سے ہی دینی علوم سے زبردست دلچسپی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے کم عمر اور کم وقت میں قران شریف حفظ کیا ۔ عاقب بہت ہی شریف النفس تھا جس کو اللہ تعالی نے کم عمر میں ہی ہدایت سے نوازا تھااور ان کی ہر عمر کے لوگ زبردست عزت کرتے تھے ۔