خطہ پیر پنچال کو وادی کشمیر سے ملانے والی واحد مغل شاہراہ سرکاری سطح پر تو ہر اعتبار سے نظر انداز ہے ہی لیکن اس روڈ پر سفر کرنے والوں کیلئے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ڈوگراں پوشانہ سے لیکر دبجن تک انہیں مواصلاتی سہولیات فراہم نہیں ہوتیں۔چونکہ یہ سڑک پہاڑوں کو چیرتے ہوئے گزرتی ہے اس لئے اس پر دوران سفر خطرات بھی بہت زیادہ رہتے ہیں ۔ اس 84کلو میٹر روڈ پر سفر کرنے والوں کا رابطہ پچاس سے بھی زائد کلو میٹر تک گھر والوں اور عزیز و اقارب سے منقطع رہتاہے جس دوران اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو کسی کو خبر تک نہیں ہوگی ۔مواصلاتی سہولیات کی ضرورت پچھلے ہفتے اس وقت محسوس ہوئی جب کچھ افواہ بازوں نے یہ جھوٹی خبر عام کردی کہ مغل شاہراہ پر مانسر کے مقام پر منجاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک نجی سکول کی بس کو حادثہ پیش آیاہے جس کے نتیجہ میں چالیس سے زائد بچوں کی موت واقع ہوگئی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں مزیداضافہ کا خدشہ ہے ۔بعد میں یہ افواہ بالکل غلط ثابت ہوئی اور اس روز ایسا کوئی بھی حادثہ رونما نہیںہوا تھا جبکہ سیر وتفریح کیلئے راجوری کے منجاکوٹ سے پیر گلی گئے ہوئے سبھی بچے بہ سلامت واپس پہنچےتھے لیکن جب تک اس افواہ کی حقیقت کے بارے میں پتہ چلتا تب تک خطہ پیر پنچال میں قیامت صغریٰ برپا ہوچکی تھی اور ہرطرف کہرام ہی کہرام تھا کیونکہ یہ جھوٹی خبربین الاقوامی سطح پر بھی ذرائع ابلاغ میں آگئی تھیں ۔بدقسمتی سے کچھ مقامی افسران نے بھی افواہ بازوں کی ہاں میںہاں ملائی جس سے اس شوشے کو مزید تقویت ملی ۔اس افواہ کی وجہ سے افراتفری کا ایسا عالم برپا ہوا کہ لگ رہا تھا کہ سارا پیر پنچال پیر کی گلی کی جانب دوڑ رہا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو پیدل مارچ کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔ انتظامیہ و پولیس افسران نے بھی پیر گلی کارخ کیا ۔ یہاں تک کہ دونوں اضلاع میں محکمہ صحت کی طرف سے الرٹ جاری کیاگیا اور ہر طرح کے انتظامات کردیئے گئے ۔ جہاں دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنر وں سمیت کئی دیگر افسران حادثے کی خبر سن کر دوڑے وہی سرنکوٹ سے چھ ایمبولینس گاڑیوںکو پیر گلی روانہ کیاگیا ۔راجوری پونچھ میں ایسا منظر ہندوپاک کشیدگی کے دوران بھی نہیں دیکھاگیا ۔اگرشاہراہ پر مواصلاتی سہولیاتیں ہوتیں تو ہر گز ایسی صورتحال پیش نہیں آتی کیونکہ صحیح خبر کی فوری ترسیل سے افواہ بازی پر مشتمل خبر کے تار و پود بکھر کر رہ جاتے ہیں اور صحیح باتیں لوگوں تک وقت پر پہنچ جاتی ہیں جس سے لوگوں کے مشکلات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس روڈ پر مواصلاتی نظام نام کے لئے بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے غلط اطلاعات کی ترسیل کا اندیشہ ہمیشہ موجودرہتا ہے۔پچھلے سال کا ہی واقعہ ہے کہ سرینگر نشاط سے تعلق رکھنے والا ایک تویراگاڑی ڈرائیور کچھ سواریوں کو سرینگر سے راجوری چھوڑنے کے بعد اکیلا واپس چلا توراستے میں اس کی گاڑی حادثے کاشکار ہوگئی جس کے بعد اس کاچھ ماہ تک کوئی اتہ پتہ نہیں چلا۔ بالآخر جب برف صاف ہوگئی تو ایک بکروال چرواہے کو کسی کی لاش نظر آئی جس نے اس کی اطلاع پولیس تک پہنچائی اور لاش کو نکال کر اس کی شناخت کی گئی جس پر یہ پتہ چلاکہ یہ حادثہ چھ ماہ قبل ہواتھا ۔یہ حادثہ بھی حکام کیلئے چشم کشا تھا اور اگر واقعی مغل شاہراہ پر جغرافیائی حالت ایسی ہے کہ حادثہ کی خبر دنوں ہی نہیں مہینوں تک بھی نہیںلگ سکتی ۔ کیا یہ گزرے عہد میں زندگی گزارنے کی بات نہیں ہوئی ؟۔حکومت نے اب ٹنلوں میں بھی مواصلاتی نظام شروع کیا ہے لیکن بدقسمتی سے جس شاہراہ کو متبادل اور قومی شاہراہ کا نام دینے کی باتیں ہورہی ہیں،اس پر ایسی کوئی سہولت نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مغل شاہراہ پر مواصلاتی نظام شروع کیاجائے تاکہ مسافروں کے گھر والوں ان کی خیروعافیت جان سکیں بلکہ کسی حادثے کی صورت میں فوری امدادی کارروائیاں بھی سرانجام دی جاسکیں ۔