مرکزی وزراء اور بی جے پی قائدین کی جانب سے کشمیر کے حالات پر جس انداز اور عنوان سے بیانات سامنے آرہے ہیں اُس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کشمیری عوام کے تئیں ہمدردی و خیر خواہی کے جذبات رکھنے کی بجائے مرکزی قیادت ایک مخاصمانہ ماحول کو بھر پور انداز سے فروغ دینے میں مصروف ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اُسکا جواب بہتر طور پر وہی دے سکتے ہیں کیونکہ کشمیر کو بھارت بھر میں مباحثے کا موضوع بنا کر نت نئے دلائیل پیش کرکے نہ صرف کشمیر کے باہر کشمیریوں کو بدنام کرنے کی بھر پور کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ کشمیریوں کے ساتھ سختی برتنے کی کھلم کھلا وکالت کرکے ماحول کو مزید بگاڑنے کی کوششوں کو تقویت پہنچائی جارہی ہے۔ قابل غور بات ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل بپن را وت بھی کشمیر مباحثے سے جُڑ کر نت نئے انداز میں اسے فروغ دے رہے ہیں۔ایک عام شہری کو جیپ سے باندھنے والے فوجی افسر کو اعزاز سے نوازنے کے بعد اب وہ کھلم کھلا کشمیرمیں عسکری ٹکرائو کے ماحول کے خواہاں نظر آرہے ہیں ۔انکا یہ بیان کہ ’’ انہیں خوشی ہوتی اگر نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھرئوں کے بجائے بندوقیں ہوتیں‘‘، اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ ریاست میں ٹکرائو اور تنائو کی صورتحال کے متمنی نظر آرہے ہیں،کیونکہ بقول انکے ایسی حالا ت میں فورسز آزادانہ کاروائی کرسکتی ہیں۔ اُنکا یہ بیان کہ’’ غلیظ جنگ ‘‘میں کچھ بھی جائز ہے ایک نہایت ہی خطرناک بات ہے ، جو قانون کے دائروں سے اُٹھ کر انار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر فوج، جو اپنے ڈسپلن کے اعتبار سے ہی ایک منضبط اور جواب دہ ادارہ مانا جاتا ہے، کے اندر اس نو عیت کے خطرناک کیڑے سرایت کرنے لگیں تو ڈکٹیٹر انہ ذہنیت کے فروغ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ بھارت کو اس بات پر فخر رہا ہے کہ اُسکی فوج دنیاکی منضبط ترین افواج میں شما رہوتی رہی ہے مگر آج اس بات کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ انتہا پسندانہ نظریات کی عمل آوری میں اس ادارے کو بھی کسی نہ کسی طور پر گھسیٹ جا رہا ہے اور اگر ادارے کے سربراہ ہی اس کےلئے تعاون دیں تو اس بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے۔ مرکزی حکمرانوں، خواہ وہ وزراء ہوں یاحکمران جماعت کے قائدین، کی جانب سےبھی اس طرز عمل کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے، جسکی وجہ سے بھارت بھر میں غیر جانبدارا حلقے نہ صرف حیران و پریشان ہیں بلکہ انہیں مستقبل میں ایسے خطرات دکھ رہے ہیں ،جہاں سیکورٹی اداروں کا یہ انداز سیاسی و انتظامی اداروں پر بھاری پڑنے کا اندایشہ ہے ۔ کیونکہ بہرحال آئینی اعتبار سے سیکورٹی ادارے پارلیمنٹ کے سامنے ہی جواب دہ ہیں، لیکن اگر سیکورٹی اداروں کے انتہا پسندانہ انداز کو اسی طرح سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی رہی، جیسا کہ بی جے پی کے عاقبت نا اندیش قائدین کی طرف سے ہورہا ہے، تو آنے والے ایام کشمیر اور کشمیریوں کےلئے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لئے بھی سخت ہوسکتے ہیں۔فوجی سربراہ کے حالیہ بیان کہ کشمیر میں فوج کو غلیظ جنگ کا سامنا ہے لہٰذا اس میں کوئی بھی حرکت جائز ہے، کی مختلف حلقوں کی جانب سے زبردست نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک کے باہر بھی، مختلف حقوق اداروں کی جانب سے اس بیان کو پامالی حقوق کو فروغ دینے کا انداز قرار دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیر کے مباحثے کو ملک بھر میں اس قد رعام کرنا چاہتی ہے تاکہ دیگر مسائل اور معاملات کی جانب سے لوگوں کی توجہ مبذول نہ ہو، جس پر حکمرانوں کو جواب دہ ہونا پڑے ۔بھلے ہی وہ گائو رکھشکوں کی طر ف سے پیدا کردہ طوفانِ بدتمیزی ہو یا اتر پر دیش میں دلت برادری پر ہونے والے حملے یا پھر خواتین کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم ۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت وقتی طور پر اس میں کامیاب ہو جائےگی ۔ لیکن آنے والے وقت میں اس اندازِ حکمرانی کے کیا کیا نقصانات سامنے آسکے ہیں وہ وقت ہی بتائے گا!۔