مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے حالیہ ایام میں ایک سے زائید مرتبہ یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کشمیر مسئلے کو مستقل طور پر حل کریگی۔ ا س حل کے خطوط کیا ہونگے اس کے بارے میں انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ کہنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ یہ مستقبل حل تلاش کرنے میں کیا کسی سے رابطہ کرکے اسکی خدمات حاصل کی جائینگی یا پھر یکطرفہ اور من مانی عمل داری کے ذریعہ حل جتلا یا جائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بھاجپا نے اپنے گزشتہ دو ر حکومت ، جب اٹل بہار ی واجپائی وزیراعظم تھے، سے لے کر آ ج تک مختلف نعروں کے ذریعہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ واجپائی جی نے سرینگر میں انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں حل کا منترا سنایا تھا، لیکن بعد اذاں اس کے نتائج کیا نکلے غالباً اسکی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بھلے ہی بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو اپنے اپنے مواقف پر ڈٹے رہنے سے اپنی عوامی ساکھ برقرار رکھنے میں مدد ملی ہو لیکن جہاں تک جموںوکشمیر کا تعلق ہے، یہ ہر صورت میں خسارے کا ہی شکار رہا ہے۔ اب وزیرداخلہ نے ’’کشمیر، کشمیری اور کشمیریت‘‘ کا نعرہ ایجاد کرکے یہ پر باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ تینوں چیزیں بھارت کا حصہ ہیں۔ ماہرین کا سوال ہے کہ اگر وزیر داخلہ کا یہ ایمان ہے کہ ’’ کشمیر، کشمیری اور کشمیریت‘‘بھارت سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر مستقل حل کے کیا نقوش ہوسکتے ہیں ، اسکی وضاحت کرنے کی ضرور ت ہے۔ کیونکہ مستقل حل اور حتمی حل کے محاوروں کے اردگرد بہت سی چیزیں ہیں کہ یہ حل کیسے تلاش کیا جائے؟ کیا اس میں طاقت کا استعمال بھی شامل ہے؟ اگر ایسا ہے تو ظاہر بات ہے کہ، اس کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے ۔ عمل اور ردعمل کی سیاست میں ایک مثبت اور فائدہ مند حل سامنے آئے، اسکی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی۔ کانگریس کے ایک سینئر قائید منیش تواڑی نے راجناتھ سنگھ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پتے کی بات کہی ہے، کہ تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ ’’ مستقبل حل ‘‘ اور ’’ حتمی حل ‘‘ جیسے محاروں کی کچھ نہایت ہی پریشان کن توجیحات موجود ہیں اور تاریخ ان حوالوں سے کئےگئے اقدامات سے پیدا شدہ نتائج کی گواہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب وزیر داخلہ ’’مستقل حل ‘‘ کی بات کر رہے ہیں تو انکی نظر میں اسکے اندازوں، خطوط اور عمل آوری کے حوالے سے ایک لائحہ عمل ہوگا، جسکی وضاحت کرنے کی اشد ضرورت ہے ، کیونکہ کچھ مرکزی وزراء اور حکمران جماعت کے قائدین کی طرف سے وزیر داخلہ کی بیان کے بین بین کچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں ، جو سخت رویئے اور شدید انداز فکرکی وکالت کرتے ہیں ۔ اسکے ساتھ ہی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کے اس بیان کہ فوج کو کشمیر میں ’’ غلیظ مقابلے‘‘ کا سامنا ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں موقع محل کی مناسبت سے نئی حکمت عملی اختیا ر کرنے کی ضرورت ہے، سے شکوک و شبہات کی فضاء کو تقویت مل رہی ہے، جو نہایت ہی تشویشناک ہے۔ بھارت بھر میں میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے نہایت ہی خوفناک نوعیت کی مہم شروع کی گئی ہے، جسکے اثرات فوری طور پر بیرون ریاست مقیم کشمیری طلاب اور تاجروں کے روزمرہ پر ثبت ہو رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں وزیر داخلہ کی جانب سے کشمیر مسئلہ کے ’’ مستقل حل ‘‘ کی بات کرنا خالی از معنی نہیں ہے۔ اس مرحلےپر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جو ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ برسراقتدارر ہے، پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُس دستاویز کو نافذ العمل کروانے کی کوشش کرکے جسکی بنیاد پر اُس نے اقتدار کے لئے شراکت قائم کی۔ ایجنڈا آف الائنس میں اگر کشمیر حل کے حوالے سے وضاحت کے ساتھ ایک طریقہ کارموجود ہے، تو یہ بانت بانت کی بولیاں کیوں؟ کم از کم پی ڈی پی کو اس مرحلے پر اپنی خاموشی توڑ نی چاہئے تاکہ معاملات کی وضاحت ہوسکے۔