Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہ

تصادم وتزاحم!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 1, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
 امر یکی صدر ڈونالڈنے ٹرمپ نے اپنی پہلی ہی تقریر میں صاف کر دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کینہ ور ی، بدخواہی اور خبث ِباطن کا آتش فشاں ہیں ۔ انہوں نے بعض مسلم ممالک کے شہریوں پر امر یکہ آنے جانے پر پابندی عائد کر کے اپنے ملک کومحفوظ نہ کیا بلکہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی آبیاری کی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آدم و ابلیس کی کھینچا تانی کے بیچ ہی عالم ِانسانیت کا آغاز ہوا۔حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترتے ہی ابلیس یہاں بھی آن وارد ہوا، اس مشن و مقصد کے ساتھ کہ وہ نسل ِآدم کو گمراہ و بدراہ کرے گا۔چنانچہ مختلف اوقات میں ابلیس نے مختلف حربے آزمائے اور شرک،تکبر،جادو،ناپ تول میں کمی،ہم جنسیت اور فکری و عملی آوارگی کے دیگرذریعوں سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔اللہ تعالی نے ہر موقع پر اپنے انبیا علیہم السلام مبعوث فرمائے جنہوں نے انسانوں کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ایک وقت آیا کہ شیطان اپنے کام میں ماہر ہوگیا تب انسان کو بھی مقابلے کے لیے مکمل سامان،قرآن و سنت کی صورت میں فراہم کردیاگیا۔یہ قرآن و سنت اور تعلیمات انبیائے کرام ؑآج اسلامی تہذیب کی صورت میں موجود ہیں جب کہ ابلیس کے گزشتہ وموجودہ کارہائے نمایاںکو امریکیت اور لامذہبیت نے اپنی چادر میں سمیٹ رکھا ہے۔اسلامی تہذیب نے معاشرے کے سب طبقات کو فرائض کے نام پر اکٹھا کر دیا ہے جب کہ سیکولر مغربی تہذیب نے حقوق کے نام پر سب طبقات کو آپس میں لڑا دیا ہے۔اسلام نے امیراورغریب کو زکو اۃکی ادائیگی اور وصولی میںایک دوسرے کا پاسدار بنایا،ایک محلے کے سب لوگوں کو نماز کی ادائیگی میں یک مصلی کردیا،مظلوموں کو ظالم کے خلاف جہاد کے میدان میں صف آراء کردیااور دنیا بھر کے نمائندہ طبقات کوحج جیسی عبادت واجتماع میں یک لباس کر دیااوررمضان کے روزوں کے دوران غریب کی بھوک میں پورے معاشرے کو میں شریک احساس کر دیا۔اس کے مقابلے میں سیکولرمغربی تہذیب نے حقو ق کے نام پر معاشرے کے تمام طبقات کو باہم لڑا دیا ہے،جمہوریت کے نام پر عوام کو حکمرانوں کے خلاف صف آرا ء کر دیا،لیبر تنظیموں کے نام پر مزدوروں کو مل مالکان سے لڑا دیا،سٹوڈنٹس یونین کے نام پر طلباء کو اساتذہ سے لڑا دیا اور عوام میں فرائض کا شعور بیدار کرنے کی بجائے یہ درس دیا حقوق مانگ کر نہیں بلکہ چھین کر لیے جاتے ہیں۔
اسلامی تہذیب نے فردکو غلام بنانے کی اجازت دی لیکن قوموں کو غلام نہیں بنایاجب کہ سیکولر مغربی تہذیب نے قوموں کو ان کی ناک تک غلامی میں جکڑ لیا۔اسلام نے گردن میں  توحید باری کاطوق تو ڈالا لیکن ذہن اور فکر آزاد رہی اور غلامی کے معانی انسانی اقدار واخوت سے مشروط کر دئے لیکن سیکولر مغربی تہذیب نے بدن اگرچہ آزاد رکھے لیکن قوموں کو اپناذہنی غلام بنا لیا۔ایک ہزار سال اسلامی تہذیب دنیا میں حکمران رہی لیکن مسلمانوں نے کسی دوسری قوم کو تہذیبی و معاشی غلام نہیں بنایا۔ گزشتہ تین سوسال کے عرصہ میں اس سیکولر مغربی تہذیب نے پوری دنیا کی اقوام کو اپنا تہذیبی غلام بنا لیا ہے ،انہیں ہر جگہ اپنا لباس اور ااپنی ہی زبان نظر آنی چاہیے اورپوری دنیا کے وسائل کو ہتھیانے کے لیے سود پر مبنی استحصالی معاشی نظام کے ذریعے اس سیکولر مغربی تہذیب نے عالمی مالیاتی غلامی کانظام مسلط کر رکھا ہے جس میں ہرملک و قوم کے ہاتھ پاں اور گردنیں بری طرح جکڑ دی گئیں،اور اب نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اس تہذیب نے دفاعی غلامی،تعلیمی غلامی اور ٹیکنالوجیکل غلامی سمیت نہ معلوم کس کس طرح کی غلامیوں کے جال انسانوں پر پھیلا رکھے ہیں۔اسلام نے عورت کو ماں ،بہن بیٹی،بہو،بیوی اور معلمہ کے محترم مقامات عطا کیے جب کہ سیکولر مغربی تہذیب نے عورت کی چادر پر گرل فرینڈ،سیکٹری،کولیگ،سنگل پیرنٹ،سٹار،سنگراورماڈل گرل،کال گرل اور سیلز گرل،جیسے داغ لگاکر اس کی نسوانیت اس سے چھین لی۔اسلام نے نکاح کی کوکھ سے خاندان جیسے ادارے کو جنم دیا جس میں وہ مقدس رشتے عورت کو میسر آئے کہ جن کی پاکیزگی اورٹھنڈک سے چاند کی چاندنی بھی شرماجائے اور دامن عصمت و حجاب کے نام پر اسلام نے طہارت فکرونظر کا وہ مینارہ نورمتعارف کرایا کہ جس کی پھوٹتی کرنوں کی تمازت سے آفتاب بھی اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانک لے،لیکن تف ہے اس سیکولر مغربی تہذیب پر جس نے نوخیز وناتواں بچیوں کی مسکراہٹوں کو بھی بازارمیں گاہکی بڑھانے کے لیے مارکیٹنگ کا ذریعہ بنا لیااور عورت کی فطرت کے خلاف اس سے وہ وہ کام لیے کہ شاید جنگل کے جانور بھی اپنی مادہ کا اتنا استحصال نہ کرتے ہوں،عورت سے گھراورخاندان چھین کراسے معاش پر لگادیا،اس کا بچہ اس سے دور کر کے اسے ٹائپ رائٹراور فائلیں تھمادیں،اس کے بستر سے اسے جدا کرکے تو بندوق اس کے ہاتھ میں تھمادی،اس کے شوہر سے محروم کر تو اسے سکرین کی زینت بنا دیا اور حد تو یہ کہ اس کی حیا  وعزت ِ نفس کی رکھوالی کے بجائے اس جسم اور فن کو پبلک پراپرٹی قرار دے دیا،ہوس وجنسیت اور خودغرضی و حیوانیت کوکتنے کتنے خوبصورت نام دے دیے اس ننگ انسانیت سیکولر مغربی تہذیب نے۔سیکولر مغربی تہذیب کی خلاف فطرت انداز فکر یہاں تک پہنچا کہ فطرت نے مرد کو اس کے میدان کارکے تقاضوں کے باعث اسے ستر ڈاھانکتے ہوئے شرافت ،متانت اور معقولیت کے دائرئے میں کم لباسی کی اجازت دی ہے، جب کہ فطرت نے عورت کو معاش سے باز رکھ کر اور اس میں فطری کشش کے باعث اسے زیادہ سے زیادہ جسم ڈھانکنے کی ترکیب کی ہے کہ اسی میں اس کی صحت بھی ہے ، عزت بھی ہے اور نسوانی حسن بھی ۔ سیکولر مغربی تہذیب نے مرد کو سر سے پیر تک مکمل ڈھانپ دیا ہے، وہ ہیٹ پہنتاہے،عینک لگاتاہے،کوٹ اس کی کفوں تک کوچھپادیتاہے اور پتلون کے نیچے جرابیں اور بوٹ بھی اس کے جسم کا کوئی حصہ دیکھنے نہیں دیتیں جب کہ عورت کو اس سیکولر مغربی تہذیب نے جس انداز سے پیش کیا ہے قلم اس کی تصویر کشی کر نے میں شرم محسوس کر تاہے۔
اسلامی تہذیب میں انسان جیسے جیسے عمر رسیدہ ہوتا چلا جاتا ہے وہ قیمتی سے قیمتی تر ہوتا چلا جاتا ہے،جب کہ سیکولر مغربی تہذیب میں انسان بوڑھا ہونے کے ساتھ ساتھ بے کار،بے فائدہ اور بے مقصدہوتا چلا جاتا ہے۔اسلامی تہذیب میں بزرگ لوگ اپنے خاندان کا اثاثہ سمجھے جاتے ہیں ،ہر چھوٹا بڑا فیصلہ اُن کی مرضی کے عین مطابق ہوتاہے اور کیاجاتا ہے۔حتیٰ کہ مذہب جیسی قوت نے بھی جو اس تہذیب کی بنیاد ہے،جنت جیسے مقام کوبزرگوں کے قدموں تلے ڈھیر کر دیا ہے۔یہ حقیقت کہ بزرگوں کی دعائیں تقدیرکارُخ پھیرسکتی ہیں ۔اسلامی تہذیب میں بزرگوں کی شان میں مزید اضافہ کرتی ہے،جب کہ سیکولر مغربی تہذیب کے ہاں اولڈ ہاسزبنے ہیں، جہاں وہ سال میں کسی ایک دن اپنے بزرگوں کو ملنے جاتے ہیں ۔کیا خودغرضی اور شائلاکیت ہے کہ جب تک کوئی چند بے حقیقت سکے کمانے کے قابل رہے تو وہ قیمتی ہے اور جب ذرا ڈھلنے لگے تو وہ بے کار ہوگیا،کیا اس سیکولر مغربی تہذیب کے پاس انسانوں کو تولنے کے لیے انسانیت نام کا کوئی پیمانہ نہیں ہے؟ایک ہزار سال تک اس دنیا میں اسلامی تہذیب کی حکمرانی رہی، اس دوران قوموں کے درمیان آزادانہ تجارت رہی،ایک ملک سے مال آزادانہ طور پرتاجرحضرات دوسرے ملک میں لے جاتے،بین المما لک سفر انتہائی آسان تھااور حکمران ہمیشہ عوام کے درمیان رہتے تھے،کبھی دوقوموں کے درمیان بڑی جنگیں نہیں ہوئیں ،کبھی دوملکوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ نہیں لگی اور طب،تعلیم،صحافت،ادب اور خدمت سب کچھ بلامعاوضہ فی سبیل اللہ ہواکرتاتھالیکن جب سے سیکولر مغربی تہذیب نے اس دنیا میں قدم جمائے ،آج بین الممالک تجارت سب سے مشکل کام ہے،ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے سیروں کے حساب سے کاغذات اٹھانے پڑتے ہیں جن کی تیاری میں مہینوں صرف ہوجاتے ہیں،سالوں گزرجاتے ہیں عوام حکمرانوں کی شکل نہیں دیکھ پاتے ،پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے مکروہ تحفے اسی سیکولر مغربی تہذیب کی دین ہیں اور اسلحے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور قوموں کی تقسیم دوتقسیم سے سینکڑوں ممالک کا وجود اس تہذیب کے وہ شاخسانے ہیں ،جو آج کی انسانیت پر ناروا بوجھ بن چکے ہیں۔کمرشل اِزم اس تہذیب کا وہ مکروہ تحفہ ہے کہ طب تعلیم اور خدمت جو جتنی مجبوری کے کام ہیں وہ اتنے ہی مہنگے ترکر دئے گئے ہیں۔اسلامی تہذیب کم و بیش پوری دنیا میں پہنچی لیکن عربی غلامی کسی قوم پر مسلط نہیں کی گئی،عربی کھانے کسی قوم پرٹھونسے نہیں گئے اور عربی لباس کسی قوم پر تھونپا نہیں گیا۔آج بھی پوری دنیا قرآن ،نمازاورحج وغیرہ عربی زبان میں ہی ادا کرتے ہیں لیکن عربی سے مرعوبیت کہیں نہیں ہے لیکن سیکولر مغربی تہذیب جہاں جہاں بھی گئی اس نے تعلیم کے نام پراپنی تہذیبی روایات کا ٹیکہ ہی لگایااور مقامی روایات و ثقافت کی حوصلہ شکنی کی،اپنے کھانے اور اپنے لباس اور اپنی بودوباش کو مفتوحہ اقوام میں جاری و ساری کیااور ہر جگہ ایک منصوبہ کے تحت ایسے طبقہ کی پرورش کی جس نے اپنوں سے غداری اور بدیسیوں سے وفاداری کا راگ الاپا۔جو علم و فکر سے مرعوب ہو سکا اسے اسی طرح مرعوب کیا اور جو اس طرح دام میں نہ آسکا اسے بندوق سے مرعوب کیا اور ہر صورت میں اپنی جگہ گیری اور بدمعاشی پوری دنیا پر قائم کی اور یہ سب کام انسانیت،جمہوریت،حقوق کی آگاہی اورآزادی افکار کے نام پر کیاجاتا رہا۔
اسلام نے جس جمہوریت کا تصور دیا ہے اس میں انسانوں کو تولا جاتا ہے،ان کی رائے کو ان کی تعلیم،تجربے اور تقویٰ کی بنیاد پر مقام دیا جاتا ہے لیکن سیکولر مغربی تہذیب نے جو تصور جمہوریت دیا ہے ،اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے اور ان میں کسی طرح کی کوئی تشخیص نہیں کی جاتی۔تاریخ اپنے رازوں سے پردے ہٹاتی رہتی ہے جس کے بعد اب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جمہوری نظام دراصل دیگر اقوام میں غداروں کی پرورش کا ایک ذریعہ ہونے کے سوا اور کچھ نہیں۔جہاں انہیں بغیرجمہوریت کے غدار میسر آگئے ،وہاں اس سیکولر مغربی تہذیب نے آمریت،شخصی حکمرانی اور ملوکیت کو بھی قبول کرلیااور جہاں خواہ جمہوریت کے راستے ہی کوئی محب وطن حکمران برسراقتدار آگیا وہاں انہوں نے ایسا تیشہ چلایا کہ کیسی جمہوریت اورکو ن سے عوام؟بس جو جو حکمران اپنی قوم کے خزانے اور فوجی اڈے ان کے لیے کھول دے، وہ بہت اچھا ہے بصورت دیگر ایک لمبی فہرست ہے جنہیں مسنداقتدارسے سیدھا قبرستان پہنچا دیا گیا،کیا مکروہ پلندہ کذب و نفااق ہے یہ سیکولر مغربی تہذیب ۔
دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنا،دلفریب نعروں سے اپنے مکروہ مقاصد حاصل کرنا اور سیاسی و مالی مفادات کے لیے دیگراقوام کی غربت سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے شیشے میں اُتارنااس سیکولر مغربی تہذیب کاخاصہ رہاہے۔آلودگی کا شور مچاکردوسرے ملکوں کی صنعتیں بندکروانا یا ان کی مصنوعات پرآلودگی کم کرنے کے پلانٹ لگاکر ان کی مصنوعات مزیدمہنگی کرواناتاکہ اس ملک کے لوگ یورپ کی ساختہ اشیا ء خریدنے پر مجبور ہوجائیں، کہاں کا انصاف ہے؟اپنے ملکوں میں جانوروں،پرندوں اوردرختوں کی افزائش پر بے پناہ وسائل خرچ کرنا اور دوسرے ملکوں کو کہنا کہ اپنے انسان بھی کم پیدا کروکہاں کی انسانیت ہے؟ہزاروں میل دور دوسرے ملکوں میں اپنی افواج کے ذریعے شہریوں پر اندھا دھندکارپٹ بمباری کرنااور پھر بھی امن پسند کہلانااور اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرنے والوں کو دہشت گرد کہناکہاں کی عقل ہے؟اپنا خاندانی نظام تباہ کر کے تو دوسری قوموں کے درپے ہو جانا اور نعرہ دینا عورت کی آزادی کا اور شور مچانا کہ ہائے عورت بچاری پٹ گئی اورچاہنا کہ ان کابھی خاندانی نظام تل پٹ ہوجائے کہاں کی شرافت ہے؟آزادی صحافت کا نعرہ لگانا اور اپنے خلاف خبریں نشر کرنے والے اداروں پر میزائل فائر کرکے تباہ کر دینا،صحافیوں کو اغواء کرکے قتل کرا دینا،خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے انہیں خوف و ہراس کا شکار کرنا اور بھاری رقوم دے کر ان کی زبان بند کراناکیا کھلا تضاد نہیں؟ چائلڈ لیبر،ہیومن واچ،نشہ سے نجات،وائلڈ لائف اور نہ جانے کتنے کتنے خوبصورت ڈھونگ اس سیکولر مغربی تہذیب نے رچائے جن کے پس پردہ مقاصدپر مورخ جب قلم اٹھائے گا تو اس تہذیب کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگا۔
سیکولر مغربی تہذیب ایک خاص علاقے اورایک خاص رنگ و نسل کی تہذیب ہے جب کہ اسلامی تہذیب عالمگیر تہذیب ہے۔سیکولر مغربی تہذیب ایک زمانے کی پیداوار ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آخری سانس گننے والی ہے جب کہ اسلامی تہذیب ایک آفاقی تہذیب ہے۔سیکولر مغربی تہذیب چند انسانوں کی پیداکردہ ہے جن میں سے کوئی انسان کو جانور کی اولاد کہتاہے،کوئی انسان کومعاشرتی جانور کہتا ہے،کوئی معاشی جانور کہتاہے اور کوئی یہاں تک گر جاتا ہے کہ اس کے نزدیک انسان ایک جنسی جانور ہے جب کہ اسلامی تہذیب انبیا علیہم السلام کا ورثہ و ترکہ ہے جنہوں نے انسان کو خالق کائنات کا نائب اوراشرف المخلوقات کا مقام عطا کیا ہے۔سیکولر مغربی تہذیب خود فراموشی وخدافراموشی کی تہذیب ہے جو انسان کو پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کا پجاری بناتی ہے جب کہ اسلامی تہذیب خود شناسی و خدا شناشی کی تہذیب ہے جو انسان کو ایک خدا کابندہ بناتی ہے۔انسانیت کو بالآخر اسلامی تہذیب کی طرف کی پلٹنا ہوگا،اس دنیا میں امن عالم کاخواب جینوا اکارڈ کے بس کی بات نہیں،دنیا میں امن و آشتی،پیارومحبت اورفروغِ انسانیت صرف ایک ہی ذریعہ سے ممکن ہے اور وہ ذریعہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کاخطبہ حج الوداع ہے۔اسلام شروع میں شریعت تھااور آخر میں حقیقت بن جائے گا،سائنس و ٹیکنالوجی رینگتی ہوئی اسلام کی گود میں ہی آن گریں گی،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ابدی حقیقت بن جائے گی اورقرآن کی حقانیت پوری دنیا پر ثابت ہوجائے گی انشا  اللہ تعالیٰ۔ آج جس بھدی تہذیب کا انجام انسانیت اپنی آنکھوں سے دیکھاچاہ رہی ہے، اُسے تہذیبی تصادم کے پہلے خر د مند مسلم تجزیہ کار نے ان تاریخ ساز الفاظ میں سامنے لایا    ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ ِنازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا 
                  ( اقبال)
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر
امر ناتھ یاترا: لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے افسران کو حفاظتی اقدامات مزید مؤثر بنانے کی ہدایت دی
تازہ ترین
بجبہاڑا میں آوارہ کتوں کے تازہ حملے میں دوسی آر پی ایف اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی
تازہ ترین
سرنکوٹ پونچھ میں ملی ٹینوں کی کمیں گاہ سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد : پولیس
تازہ ترین

Related

اداریہ

نوجوان طلاب سنبھل جائیں

July 4, 2025
اداریہ

مٹھی بھر رقم سے کیسے بنیں گے گھر ؟

July 3, 2025
اداریہ

قومی تعلیمی پالیسی! | دستاویز بہت اچھی ، عملدرآمد بھی ہو توبات بنے

July 2, 2025
اداریہ

! سگانِ شہر سے انسانوں کو بچائیں

July 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?