سرینگر// حریت (گ) نے جیل میں نظربند حریت پسند رہنما آسیہ اندرابی،فہمیدہ صوفی، محمد رستم بٹ، ماسٹر علی محمد، شیخ محمد یوسف، عبدالسبحان وانی، غلام محمد تانترے اور مشتاق احمد ہرہ کی صحت ناسازی¿ کے باوصف انہیں رہا نہ کرنے پر اپنی گہری تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی ریڈکراس کمیٹی (ICRC)کے سرینگر میں تعینات ذمہ داروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بیمار قیدیوں کی حالتِ زار کا نوٹس لیں اور انہیں مناسب علاج ومعالجہ بہم پہنچانے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔حریت کے مطابق حکومت آزادی پسندوں کو جیل کے اندر بھی سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنارہی ہے اور قیدیوں کے حوالے سے ریاستی آئین اور جیل قوانین کو کسی بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے۔ حریت ترجمان ایاز اکبر نے کہا کہ خاتون راہنما آسیہ اندرابی کئی عارضوں میں مبتلا ہیں۔ اس پر انہیں امپھلہ کی گرم جیل میں رکھا گیا ہے، جہاں درجہ حرارت 40ڈگری کو بھی پار کرگیا ہے۔ ان کی حالت جیل میں تشویشناک بنی ہوئی ہے اور وہ دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آسیہ جی کو کوئی گزند پہنچی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جن کے لیے کُلّی طور پر حکومت ذمہ دار ہوگی۔ 2016ءسے جیل میں ڈالے گئے حریت لیڈروں اور کارکنوں کے بارے میں ایک تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے حریت ترجمان نے کہا کہ آج بھی 500سے زائد افراد کالے قوانین کے تحت پابندِ سلاسل ہیں اور ان میں سے بیشتر اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور جموں کی جیلوں میں رکھے گئے ہیں۔ قیدیوں میں نوجوانوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے اور آزادی پسند جماعتوں میں سے سب سے زیادہ نظربند تحریک حریت سے وابستہ ہیں۔ ترجمان کے مطابق 150کے لگ بھگ ایسے قیدی ہیں، جن پر عائد پہلے سیفٹی ایکٹ کو عدالتِ عالیہ نے کواش کیا ہوا ہے اور انہیں دوسری بار اسی ظالمانہ قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ 100سے زائد ایسے ہیں، جن کے تمام کیسوں کی ضمانت ہوگئی ہے، البتہ انہیں پھر بھی رہا نہیں کیا جارہا ہے اور انہیں دفعہ 107اور 151کے تحت احتیاطی نظربندی کے نام پر حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ جن قیدیوں کے کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، انہیں اکثر اوقات تاریخ پیشی پر حاضر نہیں کیا جاتا ہے اور اس طرح سے ان کی غیر قانونی نظربندی کو طول دیا جارہا ہے۔ حریت ترجمان نے کہا کہ 2016ءسے نظربند قیدیوں میں سے 80کے لگ بھگ ایسے ہیں، جن کی عمر 50سال سے زائد ہے اور 150 کے قریب ایسے ہیں، جنہوں نے ابھی 25کو بھی کراس نہیں کیا ہے۔ 20قیدیوں کی عمر 70سال کو بھی پار کرگئی ہے اور وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے اکثر بیمار رہتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ قیدیوں کو حراست کے دوران میں بھی سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں ہر ممکن طریقے سے تنگ اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ جموں کی جیلوں میں قیدیوں کو جو غذائیں فراہم کی جاتی ہیں، وہ کسی بھی حیثیت سے معیاری نہیں ہوتی ہیں۔ سینکڑوں قیدیوں کے لیے جہاں لنگر پر کھانا تیار کیا جاتا ہے، وہاں صاف صفائی کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور گرمی کے اس موسم میں اس وجہ سے قیدی اکثر بیمار ہوجاتے ہیں اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ حریت بیان کے مطابق جیلوں میں بیمار قیدیوں کے علاج ومعالجے کے لیے بھی کوئی مناسب انتظام دستیاب نہیں ہے اور جموں کے جیلوں کی حالت اس حوالے سے زیادہ ابتر ہے۔ ماہر ڈاکٹر کبھی کبھار ہی یہاں کا چکر لگاتے ہیں اور بیشتر اوقات نرسنگ آرڈرلی لوگوں سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔ معیاری ادویات بھی میسر نہیں ہیں اور ہر بیماری کے لیے زیادہ تر درد مٹانے والی پین کِلر (Pain Killer)ہی قیدیوں کو دی جاتی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ گرمی کے موسم میں جموں کے جیلوں کی حالت کچھ زیادہ ہی ناگفتہ بہہ ہوجاتی ہے اور یہ کسی بھی طور کسی انسان کے رہنے کے قابل نہیں رہتی ہیں۔ گرمی سے بچاو¿ کا کوئی خاطر خواہ سسٹم ان جیلوں میں نہیں ہے اور نہ ٹھنڈا پانی بہم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے۔ بیان کے مطابق آزادی پسند جماعتوں کے جو ذمہ دار 2016ءسے جیلوں میں مسلسل نظربند ہیں، ان میں مسرت عالم بٹ، محمد رستم بٹ، امیرِ حمزہ شاہ، میر حفیظ اللہ، محمد یوسف فلاحی، رئیس احمد میر،محمد شعبان ڈار، عبدالغنی بٹ، دانش ملک، مشتاق احمد ہُرہ، محمد رفیق گنائی، شوکت احمد حکیم، طارق احمد گنائی، محمد یوسف بٹ شیری، محمد امین آہنگر، عبدل حمید پرے، سرجان برکاتی، محمد شفیع وگے، مشتاق احمد کھانڈے، شوکت احمد، محمد شفیع خان، اسداللہ پرے، منظور احمد بٹ، سلمان یوسف، مفتی عبدالاحد، غلام حسن شاہ، حاکم الرحمان، منظور احمد کلو، غلام محمد تانترے، پرویز احمد کلو، عبدالخالق ریگو، عبدالعزیز گنائی، غلام حسن ملک، بشیر احمد بٹ، مشتاق احمد میر، محمد اشرف بیگ، محمد رمضان میر، سراج الدین، محمد صدیق، سفیر احمد لون، شوکت احمد ڈار، شکیل احمد یتو، جاوید احمد فلے، نذیر احمد مانتو، مفتی ندیم، محمد امین پرے، محمد امین آہنگر، امتیاز احمد، بشیر احمد صوفی اور معراج الدین نندہ شامل ہیں۔ مذکورہ ذمہ داروں میں سے بیشتر کے پی ایس اے کو عدالتِ عالیہ نے کواش کیا ہے، البتہ ان پر دوسری بار اور تیسری بار سیفٹی ایکٹ عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ حریت کانفرنس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور حقوق بشر کے لیے سرگرم دیگر مقامی اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیری نظربندوں کی غیرقانونی حراست کا سنجیدہ نوٹس لیں اور ان کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے اپنے اثرورسوخ کو استعمال میں لائیں۔