جموں//ضلع ترقیاتی کمشنر ادہم پور کی طرف سے گزشتہ روز54پٹواریوں کے تبادلے کئے گئے لیکن ان تبادلوں میں حکومت کی طرف سے وضع کردہ ٹرانسفر پالیسی کو نہ صرف پوری طرح سے نظر انداز کر دیا گیا بلکہ رابطہ قائم کرنے پر ڈی سی موصوف نے ریاست میں کسی بھی ٹرانسفر پالیسی ہونے سے لاعلمی کا اظہار کردیا۔ بتایا جاتا ہے زیر نمبر DCU/ARA/66-141مورخہ 2-06-2017جاری اس حکمنامہ کی قریب 75کاپیاں کی گئی ہیں لیکن اتوار کی شام تک یہ آرڈر کسی کو بھی فراہم نہیں کیا گیا تھا حتیٰ کہ ڈی سی ادہم پور سے جب تفاصیل جاننا چاہیں تو انہوں نے بھی اس بات برملا اقرار کر لیا کہ ان کے پاس حکمنامہ کی کاپی نہیں ہے اور وہ موصول ہونے پر ہی اس کے بارے میں کچھ بتا سکیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام قانونین و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کم ازکم 16پٹواریوں کو قبل از وقت تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ حکموت کیتبادلہ پالیسی زیر نمبر 661-GAD of 2010مورخہ 28.07.2010 میں یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی ملازم کو ایک جگہ پر کم از کم 2برس کام کرنے کا موقعہ دیا جائے گاجب کہ زیادہ سے زیادہ وہ 3بر س تک ایک ہی جگہ پر تعیناتی کا حقدار ہوگا۔ ڈویژنل کمشنر جموں کی طرف سے جاری حکمنامہ 101/422/371228مورخہ 26.02.2016میںاسی ٹرانسفر پالیسی کے حوالہ سے جموں خطہ کے تمام ضلع ترقیاتی کمشنران کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی صورت میں اس ٹرانسفر پالیسی کو نظر انداز نہ کریں اور اگر کسی مجبوری کی حالت میں کسی پٹواری کو قبل از وقت تبدیل کرنے کی نوبت آ ہی جاتی ہے توا س کے لئے وجوہات کا خلاصہ کرتے ہوئے متعلقہ وزیر سے تحریری اجازت لینا لازم ہوگا۔ ڈویژنل کمشنر جموں نے تمام ضلع ترقیاتی کمشنروں کو اس حکمنامہ پر سختی سے عملدرآمد کرتے ہوئے کسی بھی عدولی کی صورت میں انضباطی کارروائی کی تنبیہہ دی تھی۔ لیکن ضلع ترقیاتی کمشنر ادہم پور کی طرف سے جاری متذکرہ بالا حکمنامہ میں نہ تو ٹرانسفر پالیسی کا کوئی لحاظ رکھا گیا ہے اور نہ ہی ڈویژنل کمشنر کے سرکیولر کو ہی گھاس ڈالی گئی ہے ۔ ضلع ترقیاتی کمشنر کے ساتھ رابطہ کرنے پر اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ موصوف کو در حقیقت اس حکمنامہ کی تفاصیل کا علم ہی نہیں ہے اور اسے مرتب کرنے میں پس پردہ کوئی اور ہی طاقت ہے ۔ اگر ملازمین کو قبل ازمقررہ معیاد تبدیل کیا گیا ہے اور جان بوجھ کر ٹرانسفر پالیسی اور ڈویژنل کمشنر کے احکامات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں تو اس کے پیچھے کوئی ہیمحرکات کارفرما ہیں ۔ بہر حال اگر حکومت اپنی ہی بنائی پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہو تی ہے اور ان پر عملدرآمد یقینی نہیں بنایا جاسکتا ہے تو ریاست سے رشو ت خوری اور کنبہ پروری کا قلع قمع کرنے کے دعوئے فقط سراب ہی ثابت ہو ں گے۔