سرینگر//حریت (ع)چیرمین اور متحدہ مجلس علماء کے امیر میراعظ ڈاکٹر مولوی محمدعمر فاروق نے رمضان المبارک کے مقدس ایام کو بے مثال برکتوں کا حامل اور اس مہینے میں فرض کئے گئے روزوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک بندے کی قربت اور تعلق کا اہم ترین ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ روزہ داری کا مطلب محض بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ تزکیہ نفس اور روحانی لذتوں سے آشنائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ رمضان المبارک کے عشرہ رحمت میںوعظ و تبلیغ کی مجالس کے سلسلے میںمسجد حسنین ناری بل بٹہ کدل میں نماز عصر سے قبل ایک بھاری دینی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ یہ مقدس مہینہ ایک مسلمان کو ایک ایسے ذمہ دار انسان کا کردار ادا کرنے کا پابند بناتا ہے جو ذاتی عبادات کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشرتی سطح پر درپیش مسائل کے سد باب اور ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور ایثار برتنے کا مظاہرہ کر سکے ۔ انہوں نے کہا کہ اس مقدس مہینے میں باقی ممالک میں اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں گر جاتی ہیں لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود اس مقدس مہینے میں ایثار اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے جس طرح سے ذخیرہ اندوزی ، کساد بازاری ، نرخوں میں ہیر پھیر اور اشیائے خوردونوش کی گراں بازاری دیکھنے میں آرہی ہے ایسی حرکتیں ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتی ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف سبزی فروشوں ، قصائیوں اور دیگر اشیائے خوردنی فروخت کرنے والوں نے من مانے بھاو مقرر کر کے کمر توڑ مہنگائی کا بازار گرم کیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک مسلمانوں کو نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد سماجی خرافات سے اجتناب برے کاموں سے دوری ناداروں ، محتاجوں اور مسکینوں کی اعانت اور عبادت الٰہی کا خوگر بنادیتا ہے لیکن رمضان المبارک میں روزہ داروں سے اللہ تعالیٰ کا جو سب سے بڑا تقاضہ ہے وہ یہی ہے کہ عبادات الٰہی کی انجام آوری اور برائیوں سے اجتناب اپنے نفس اور سماج کے تزکیہ کا عمل پورے سال جاری رہے اور محض رمضان کے مہینے میں برائیوں سے اجتناب برتنے سے فلسفہ رمضان کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ۔ میر واعظ نے کہا جس طرح اس عظیم مہینے میں ہماری مسجدیں خانقاہیں اور آستانہ جات عبادت گزاروں سے بھر جاتے ہیں اور ہم سماج کے کمزور لوگوں کی مدد کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ان نیک کاموں کا سلسلہ پورے سال چلتارہے تب جا کر حقیقی معنوں میں ہماری روزہ داری کے الٰہی اور معنوی تقاضے پورے ہو جاتے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ہماری ذات کے علاوہ ہمارا سماج اور ہمارا معاشرہ جو آج کل شدید ترین خرافات کی زد میں آچکا ہے ہماری خصوصی توجہ کا مستحق ہے اور اگر ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی سنور جاتی ہے تو سماج سے برائیاں خود بخود ختم ہو جائیں گی ۔