’’ اور عورتو ں کے لیے بھی ویسے ہی حقوق ہیںجیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کےساتھ‘‘۔(البقرہ۲۲۸)وجود زن کے بغیر خوبصورت اور پاکیزہ انسانی معاشرے کا سوز درون ناممکن ہے۔سماج کا ایک اہم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کو اللہ تعالیٰ نے گھر کی زینت اوردلی سکون کے لئے پیدا کیا ہے۔اس عورت کو مختلف پاک رشتوںسے نوازا گیا ہے جیسے ماں، بیٹی، بیوی وغیرہ۔ اسلام عورت کو بلند مراتب بخش کر کس قدرجائز اور اصل مقام دیتا ہے یعنی جہاں تک ماں کی عظمت کا تعلق ہے تو خداوند کریم جب انسان سے اپنی محبت کا دعویٰ کرتاہے تو اس کیلئے ماں کو مثال بناتا ہے ۔ماں وہ ہستی ہے جس کی تڑپ اللہ تعالیٰ سے دیکھی نہیں گی اور ایک ریگستان کو زمزم کی سیرابی عطا کی،جس کے پیروں تلے جنت اورجسک کوایک نظر پیار سے دیکھنے پر ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔ عظیم مفکر جبرانیؔ نے کیا خوب کہا ہے کہ’’ انسان کے لبوں سے ادا ہونے والے تمام الفاظ میں سب سے خوبصورت لفظ’’ماں‘‘ ہے اور حسین ترین تخاطب ’’میری ماں ہے۔‘‘جوایک طرف اپنے مضبوط اخلاق سے وقت کا اسماعیل ؑ خلق کر سکتی ہے تو دوسری طرف مصائب کی تپتی دھوپ میں اپنے تمام بچوں کو اپنی ممتا کے نرم سا ئے تلے چھپا کے رکھتی ہے یعنی کسی بھی شکل میں اس کا نعم البدل نہیں’’جب میں دنیا کے ہنگاموں سے تھک جاتی ہوں، اپنے اندر کے شور سے ڈر جاتی ہوںتو پھر میں اللہ کے آگے جھک جاتی ہوں یا پھر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے جی بھر کے رو لیتی ہوں۔‘‘ (رابعہ بصریؒ)عورت کے دوسرے روپ یعنی بیٹی کے بارے میں نبی کریمﷺ نے والدین سے مخاطب ہو کر فرمایا:جس کے یہاں بیٹیاں ہوں،پھر وہ ان کے ساتھ نیکی کرے تو وہ قیامت کے روز جہنم سے ان کی آڑ ہوں گی(صحیح بخاری)۔ جب کہ اپنے تیسرے روپ نے شریک ِحیات بن کر مرد کا ہر قدم پر ساتھ دیا،اس کی ضرورتوں کو اولین ترجیح دی اور ہر ناپسندیدہ بات میں شوہر کا ساتھ دیااور اسلام کے مطابق ایسی عورت جنت میں اپنے من پسند دروازے سے داخل ہو سکتی ہے۔
اسلام نے گر چہ عورتوں کو مردوں کی نسبت خصوصی اعزازات سے نوازا ہے مگر افسوس کہ اس ذات کو زندہ دفنانے کی رسم دور جاہلیت کے اختتام کے ساتھ مٹ نہ سکی اور آج کے جدید ترین نام نہاد سائنسی دور میں بھی ہمیںمختلف صورتوں میں یہ وحشیانہ رسم زندہ جاویدنظر آتی ہے۔اس کی ایک صورت جہیز کی لین دین ہے جس کو سماج کی ایک رسم سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے مگر کیا ہم نہیں جانتے کہ اس رسم نے لاکھوں لڑکیوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے اور اسی رسم سے ان کے تمناؤں، آرزوںاور رنگین خوابوں کو روندکر انہیں ان اندھیری وادیوں میں چھوڈ دیا جاتا ہے جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن نظر آتا ہے۔
اسلام میں شادی یا نکاح کا عمل آدھا دین ہے ۔اگرنکاح کے عمل کواسلام کے مطابق کیا جائے تونہ صرف دنیا درست ہو جائے گی بلکہ آخرت بھی آسان ہو گی۔اسلام میں نکاح کا سادہ اور آسان عمل یہ ہے:
۱۔لڑکی والا خواہ غریب ہو یا امیر نکاح کے سلسلے میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرے گا۔
۲۔لڑکا اپنے طاقت کے مطابق خرچ کرے گا۔
۳۔نکاح سے پہلے لڑکااپنی ہونے والی بیوی کے لئے کپڑے،زیورات اور دیگر سازوسامان حتیٰ کہ خوشبو تک لڑکی والوں کے ہاں پہنچائے گا۔
۴۔لڑکے کی حسب حیثیت حق مہر کی ادائیگی نکاح کے موقعے پر ہوگی۔
۵۔نکاح میں لڑکا اکیلے بھی آجائے تو کسی قسم کی خامی یا کمی شمار نہیں ہوگی۔
۶۔اگر لڑ کا اپنی بیوی کو بغیر بارات کے گھر نہیں لانا چاہتا ،تو اپنے حالات اور ضرورت کے مطابق جتنے افراد لانا چاہتا ہے لا سکتا ہے،مگر اس بارات میں شامل افراد لڑکی کے گھر میں نہیں بلکہ مسجد میں تشریف رکھیں ۔
۷۔اسلامی طریقے سے نکاح کے بعد اس جوڑے کے لئے دعا کریں۔
۸۔نکاح کے بعد لڑکا اکیلے یا اگر بارات کے ساتھ جانا چاہیں،بغیر کچھ کھائے پیئے لڑکی کو اپنے ساتھ لیں اور اپنے گھر چلے جائیں۔
۹۔اگرکچھ کھانے کی ضرورت پڑے تو لڑکے والے خود اس بارات کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرے کیونکہ نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے ہاں کھانا پینااسوئہ اسلام سے ثابت نہیں ہے۔
۱۰۔نکاح کے اگلے دن لڑکا حسب حیثیت دعوت ولیمہ کا انتظام کرے اور اس موقعہ پر کسی بھی مہمان سے کوئی لین دین والا تحفہ،سلامی دست بوسی( کشمیری میں گل میوٹھ یا ورتاؤ)وغیرہ کے نام پرقطعا ً قبول نہیں کی جائے ۔
۱۱۔ولیمہ کے بعد دولہا دلہن جب چاہیں آئیں جائیں،مکلاوہ(کشمیری میںتریم، ستم،پھرُ)وغیرہ کے نام پر نہ کوئی فوج انہیں لینے جائے گی ،نہ کوئی فوج چھوڑنے جائے گی۔
نبی پاکﷺ کی چار صاحبزادیوں کی شادیوں پر جہیز نام کی کسی چیز کا زکر نہیں ملتا۔اس لئے جہیز سوائے رسم بد کے اور کچھ نہیں۔آج اسی رسم بد کی شکار لڑ کیاں زندہ لاشیں بنی ہوئی ہیں۔ اب کس سیارے سے اُتر کر وہ فرشتہ صفت انسان اس لڑکی کو ایک جوڑا لباس میں قبول کرنے کے لئے زمین پر قدم رکھے گا کہ زمانہ حاضرہ میں ایک بھی فرشتہ نہیں۔ نہ جانے ہمارے سماج میں عورت کو جہیز کی مادی چیزوں سے تول کر کیوں ذاتِ ذرہ بے نشا ن بنا دیا جاتا ہے؟کیا عورت بذات خود ایک بلند مرتبہ ہستی نہیںجس کا ساتھ پاکر انسان دنیا کی سب سے بڑی نعمت حاصل کر سکتا ہے۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب اسی کے شعلے سے ٹوٹا یہ افلاطون جہیز کے لین دین کو سماج کی رسموں میں گنوا کر جہیز حاصل کرنا جائز قرار دیتا ہے۔ہمارے سماج کا ایسا Highly qualified کہلانے و الا طبقہ نوجوان طبقہ خوامخواہ اپنے بے پناہ علم پر نازاں ہے کہ اتنا علم حاصل کرنے کے باوجود جہیز کی بھیک پر اپنا حق جتلاتا ہے،جب کہ یہی نوجوان جہیز کی لالچ اپنے دل سے نکال کر بنا جہیز شادی کرنے میں سب سے اہم اور سب سے بڑارول ادا کر سکتا ہے۔سرسید احمد خان اپنے مضمون’’رسم ورواج‘‘ میں لکھتے ہیں’’آپ بری روایت ہٹا کر اچھی روایت لاکر دیکھیں،اگر نئی روایت میں جان ہوگی تو وہ خود بہ خوداپنے آپ کو منواتی جائے گی۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ آہستہ آہستہ آپ کی تقلید میں نکل کھڑے ہوں گے ۔‘‘کیا ہوا کہ ہم اکیلے ہی چلیں جانب منزل اگر ، شعور والے لوگ راستے میں آجائیں گے اور انشااللہ ہو جاے گا جادہ پیما پھر کارواں ہمارا۔کیا ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم وتربیت ہے ،تو پھر اس نیک عمل میںدیرکیوں؟معاشرے کو جہیز جیسی بُری رسموں سے پاک کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے تاکہ کوئی بیٹی بن بیاہی نہ رہ جائے اور کوئی مفلس باپ اس بات کی حسرت لئے اس دنیا فانی سے رخصت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی لخت جگر کی شادی کا فرض ادا نہ کر سکا۔
رابطہ :ریسرچ اسکالر۔۔۔اقبال انسٹی ٹیوٹ،کشمیر یونیورسٹی