نئی دلی // فوج کے سربراہ جنرل بپِن راوت نے کہا ہے کہ کسی کو انسانی ڈھال کے بطور استعمال کرنا فوج کا قاعدہ نہیں البتہ فوج کا کوئی بھی آفیسر صورتحال کی مناسبت سے انفرادی سطح پر کوئی بھی فیصلہ لینے کا اختیار رکھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تشدد اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور کسی بھی قسم کے بامقصد مذاکرات کیلئے تشدد پر قابو پانا ضروری ہے۔ این انٹر ویو میں جنرل راوَت نے یہ بات دہرائی کہ وادی کی صورتحال اس قدر خراب نہیں جیسا کہ میڈیا کی طرف سے ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انسانی ڈھال کے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے فوجی سربراہ نے کہا’’کسی کوانسانی ڈھال کے بطور استعمال کرنامعمول کا قاعدہ یا ضابطہ نہیں ہے، ایک عمل کے بطور اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن یہ صورتحال پر بھی منحصر کرتاہے، میجر(گگوئی) نے مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادانہ طورفیصلہ لیا، وہ اُس وقت اعلیٰ حکام کے احکامات کا انتظار نہیں کرسکتے تھے،میرا ماننا ہے کہ اُس نے اپنی حکمت کے مطابق یہ عمل انجام دیا‘‘۔جنرل راوت نے اُن پر کی جارہی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’اگر کسی کے پاس اس طرح کے حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی اور حکمت عملی یا خیال ہے تو وہ ہمیں بتا سکتا ہے ، ہم اس پر غور کریں گے‘‘۔ سی پی آئی ایم لیڈر پرکاش کرت کے اس الزام کہ فوجی سربراہ پتھر بازوں کو بندوق اٹھانے کیلئے اُکسا رہے ہیں، کے جواب میں جنرل بپِن روات نے کہا کہ اس بارے میں ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔انہو ں نے اس معاملے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا’’درپردہ جنگ جیسی صورتحال میں دشمن کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، اُس نے کوئی وردی نہیں پہن رکھی ہوتی ہے کہ اسے ایک دہشت گرد سمجھا جائے اور نہ ہی اس کی کوئی مخصوص شناخت ہوتی ہے، جب وہ گولی چلاتا ہے تو آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کے حالات میں آپ کو کیا کرنا ہے؟ فوج پتھرائو کے جواب میں پتھرائو نہیں کرسکتی‘‘۔ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ مستقل فوجی حل کے بارے میں پوچھے جانے پر فوجی سربراہ نے کہاکہ کوئی بھی حل اجتماعی ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا’’فوج کا کام تشدد کی سطح میں کمی لانا ہے، ہمارا کام جموں کشمیر کے لوگوں کیلئے امن قائم کرنا ہے کیونکہ تشدد سے غریب انسان متاثر ہوتے ہیں ، جیسے کہ ڈیلی ویجر، مرکبان،شکارا والا، ہوٹل والے اور سیاحت پر انحصار کرنے والے دیگر لوگ ، طلباء بھی متاثر ہورہے ہیں کیونکہ اسکول اور کالج بند پڑے ہیں‘‘۔انہوں نے گزشتہ برس کی بے جینی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا’’کشمیری عوام نے پہلے ہی سیاحت کا ایک بہت ہی برا سیزن دیکھا ہے، ایک اور برا سال انہیں بری طرح سے متاثر کر ے گا ،ہم کیا کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں؟ہم صرف واد ی میں قیام امن کیلئے سب کچھ کررہے ہیں‘‘۔انہوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ ریاست بالخصوص وادی کے لوگ فوج کے خلاف اور اس سے ناراض ہیں۔اس بارے میں ان کا کہنا تھا’’مجھے نہیں لگتا کہ جیسا میڈیا میں دکھایا جارہا ہے، لوگوں میں فوج کے تئیںاس طرح کا کوئی غصہ پایا جارہا ہے، ہاں! لوگ بیروزگاری جیسے مسائل کو لیکر ناراض ضرور ہیں لیکن اس کیلئے آپ بندوق نہیں اٹھاسکتے، دیکھئے نوجوان بھاری تعداد میں فوج میں کس طرح شامل ہورہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ برہان وانی جیسے جنگجو ئوںکی ہلاکت ایک معمول کی بات ہے ۔برہان وانی کی ہلاکت کیلئے فوج کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، پردے کے پیچھے کچھ ہورہا ہے ، کوئی ہے جو لوگوں کو اُکسا رہا ہے‘‘۔ چیف آف آرمی سٹاف نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت کیلئے تشدد کا خاتمہ ضروری ہے۔انہوں نے کہا’’اگر آپ تشدد پر نہیں اُتر آتے تو ہم بات چیت کریں گے، اگر لوگ مذاکرات چاہتے ہیں تو مذاکرات اور تشدد ایک ساتھ نہیں چل سکتے،ایسا نہیں کہ بندوق کی گھن گرج جاری ہے اور اس دوران بات چیت بھی کی جائے ، امن کا قیام ضروری ہے، تبھی بات چیت ہوسکتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کے حالات عنقریب معمول پر آجائیں گے۔