بھدرواہ //بھدرواہ قصبہ میں سورج چڑھنے سے قبل سحری کے لئے ایلارم رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ موجودہ دور جدید میں بھی سماج کے مختلف طبقہ نگاڑے کو بجانے اور رواعتی شاعری کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ مقامی رضاکاروں نے اس خوبصورت علاقہ میں سحر خوان کی رواعیت کو زندہ رکھا ہے۔صُبح سویرے کے گھُپ اندھیرے میں جب گلیاں اور بازار ویران لگتے ہیں اور لوگ گہری نیند میں سوئے ہوتے ہیں،منظور احمد شاکساز اور اُسکا سحر خوان گروپ رہائشی علاقے کے ارد وگرد گھوم کر نگاڑہ بجا کر اور ’’وقت سحر‘‘ کی آواز دیکر رات کی تاریکی کو توڑ دیتے ہیں ۔شاکساز اور اُسکی پارٹی جو کہ تقریباً ایک درجن سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے ،نعت گا کر اور رواعیتی نگاڑہ بجا کر لوگوں کو سحری کی اطلاع دیتے ہیں۔ سحر خوان کی رواعیت وادی چناب میں اتنی پُرانی ہے جتنی پُرانی اسلام کی آمد ہے۔ جہاں پر وادی کشمیر کے سحر خوان پیشہ وارانہ ہیں اور انہیں ادائیگی کی جاتی ہے کیونکہ وہ سال بھر رات میں چوکیداری کا کام کرتے ہیں۔وہیں وادی بھدرواہ میںیہ سحر خوان رضاکارانہ طور پر یہ کام کرتے ہیں جسکے لئے انکو کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے۔وہ یہ کام ماہ رمضان میں لوگوں کو جگانے کے لئے بغیر کسی اُجرت کے کرتے ہیں۔یہ سحر خوان علل صُبح 1:45 پر جاگتے ہیںاور نگاڑہ بجا کر لوگوں کو جاگنے کا کام شروع کرتے ہیں۔وہ اس دوراں نعت اور شیخ الاسلام کے مصرے گاتے ہیں۔گُذشتہ 35 برسوں سے منظور احمد شاکساز (عمر52سال) دیگر رضاکاروں کے ہمراہ اندھیری گلیوں میںماہ رمضان میں سحری کی آوازدیکر گھومتے ہیں۔اُس کا کام لوگوں کو جگانا ہوتا ہے تاکہ وہ سورج چڑھنے سے قبل کھانا کھاسکیں۔ منظور ، محلہ قلعہ،سعید زین العابدین زیارت سے بوقت 1:45 اپنا سفر شروع کرتے ہیںاور جولائی محلہ ،پاسری ،خطیب محلہ، اور مسجد محلہ کا کم سے کم تین کلو میٹر کا سفر طے کرکے باغبان محلہ چمبہ روڈ میںٹھہرتے ہیں ۔منظور اقتصادی طور سے پسماندہ طبقہ کا ہے۔وہ اپنے پانچ رُکنی کُنبہ کا سال بھر کا گُذارہ محکمہ پائور ڈیولپمنٹ میںبطور ایک ڈیلی ویجر کے کام کرتا ہے۔تاہم اُنکاکہنا ہے کہ سحر خوان کا کام کرکے اُس کودلی سکون ملتا ہے اور وہ اسے ماہ رمضان میںعبادت کا ایک اہم وسیلہ بھی مانتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ہم فقط سحر خوان کی صد یوِں پُرانی رواعیت کو ہی زندہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ ہم اپنے بزرگوں کی طرح یہ رواعیت نوجوان نسل کو سونپتے ہیں۔ شاکساز نے کہا ہے کہ ہم اسے عبادت کا ایک حصہ تصور کرتے ہیں کیونکہ اس سے ہمیں اندرونی تسکین اور کافی تسلی ملتی ہے۔مقامی لوگ بھی ان سحر خوانوں کا خوش آمدید کرتے ہیں اور اُنہیں عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیںاور انہیں سحری کے دوران رواعتی قہوہ (کشمیری چائے)کے لئے مدعو کرتے ہیں۔ایک جواں سال رضاکار اور سماجی کارکُن ناصر کے شاہ نے کہا اگرچہ آجکل کئی الیکٹرانک گیجیٹس اور لائوڈ سپئیکردستیاب ہیں لیکن پھر بھی ہم سحر خوانوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور انہیں اپنے تمدن اور منفرد رواعیت کا ایک حصہ مانتے ہیں۔یقینی طو سے اس میں کُچھ الہامی ہے کیونکہ ہم نماز تراویھ پڑھنے کے بعد 11 بجے سو جاتے ہیں لیکن سحر خوان کے کام کے لئے صُبح 1:30 بجے دوبارہ تر و تازہ ہوتے ہیں۔ اُ س نے کہا ہے کہ بھدرواہ میں نگاڑہ بجانے اور روحانی شاعری گانے کے بغیر ماہ رمضان نامکمل ہے۔