سرینگر//آزادی پسند قائدین سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے لالچوک میں کریک ڈاؤن کرکے عام شہریوں کو غیر ضروری طور پریشان کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فورسز اور پولیس لوگوں کے وقار، عزت اور شہری حقوق کی کسی خاطر میں نہیں لارہی ہیں اور جب چاہتی ہے، ان کو چوپائیوں کی طرح ہانکتی ہیں اور ہر ممکن طریقے سے انہیں تنگ طلب اور ہراساں کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی جی پی ایس پی وید کے اس بیان پر زبردست حیرانگی اور افسوس کا اظہار کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’’یہ محض ایک گشتی ورزش تھی، میں نے اپنے آدمیوں کو سُست پایا اور انہیں ٹانگوں کو کچھ حرکت دینے کی ہدایت دی‘‘۔ایک مشترکہ بیان میں مزاحمتی قائدین نے کہا کہ تلاشیاں، کریک ڈاؤن اور محاصرے کشمیر میں ایک روز کا معمول ہیں، سرکاری فورسز نہ صرف لوگوں کو گھنٹوں تک بندوق کی نوک پر یرغمال بنائے رکھتی ہیں، بلکہ وہ ان کی اس موقعے پر تذلیل اور توہین بھی کرتی ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کی سرکاری غنڈہ گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور ایسا کرنا انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے زُمرے میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے آپریشن کرنے کا اصولی طور پر کوئی آئینی اور قانونی جواز بھی نہیں ہے اور اس کا سرکاری ظلم و ستم کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ گیلانی ، عمر اور یٰسین نے کہا کہ لالچوک میں کریک ڈاؤن کے بارے میں پولیس سربراہ کا بیان بہت ہی زیادہ مضحکہ خیز اور افسوناک ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری فورسز کی نظروں میں عام شہریوں کی کوئی وُقعت اور کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پولیس سربراہ کو شوق چراتا ہے تو وہ انہیں بغیر کسی ضرورت اور مجبوری کے بھی یرغمال بنانے کے احکامات صادر کرسکتا ہے اور انہیں گھنٹوں تک بندوق کی نوک پر روک سکتا ہے۔ اس سے عیاں ہوجاتا ہے کہ پولیس سربراہ عام شہریوں کو کسی عزت اور وقار کے قابل نہیں سمجھتا ہے۔ انہیں اپنے آدمی سُست نظر آتے ہیں، تو انہیں لوگوں کی تذلیل کرنے کی ڈِرل کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ جہاں ڈی جی پولیس اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کرتا ہے اور اس کو ڈنکے کی چوٹ پر تسلیم بھی کرتا ہے، وہاں تمام شہریوں کے ساتھ ہورہی جبروزیادتیوں کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ مزاحمتی قائدین نے سی آر پی ایف کے ترجمان کے اس متضاد بیان پر بھی سوال اٹھایا، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں لالچوک میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی اور اسی لیے اس آپریشن کو عمل میں لایا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری فورسز کا آپس میں بھی کوئی تال میل نہیں ہے یا وہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ بھی اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ جموں کشمیر میں کوئی آئین یا قانون نافذالعمل نہیں ہے، یہ محض ایک پولیس اسٹیٹ ہے اور اس میں عملاً مارشل لاء نافذ ہے۔ مزاحمتی قائدین نے حقوق بشر کے لیے سرگرم مقامی اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کہ کہ وہ شہریوں کی بلاوجہ تذلیل کرنے کے ان واقعات کا از خود نوٹس لیں اور ان پر روک لگانے کے لیے اپنے اثرورسوخ کو استعمال میں لائیں ۔