جموں ۔سرینگرشاہراہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اور اب حال یہاں تک پہنچ چکاہے کہ شاہراہ پر دوطرفہ ٹریفک کانظام ہی ختم ہوتاجارہاہے ۔اگرچہ پچھلے ایک مہینے سے چھوٹی مسافر بردار گاڑیوں کو دو طرفہ ٹریفک میں چلنے کی اجازت دی جارہی ہے تاہم مال بردار گاڑیوں اور مسافر بردار بسوںکے کو دو طرفہ ٹریفک کو بحال کرنے کے امکانات ابھی دور دور تک دکھائی نہیںدے رہے ہیں ۔ریاست کے دو خطوں کو آپس میں ملانے والی اس شاہراہ پر رام بن ۔بانہال سیکٹر میں فورلین شاہراہ کی تعمیر ، شاہراہ کی خراب حالت اور مختلف مقامات پرروڈ کا تنگ ہوجانا،ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک کا نظام یکطرفہ بنتاجارہاہے اورسب سے زیادہ دشواری پنتھیال کے مقام پر پیش آرہی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں سرینگر شاہراہ پرکئی برسوں سے نومبر۔ دسمبر کے مہینے سے اپریل۔ مئی تک یکطرفہ ٹریفک کا نفاذ رہتاہے تاہم پچھلے سال کے اوائل سے ادہمپور۔ رام بن اور بانہال کے سیکٹر میں فورلین شاہراہ کی تعمیر شروع کئے جانے کے بعد سے ٹریفک جام اور شاہراہ پر پسیوں کے گرنے کے سلسلے میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سال رام بن اور بانہال کے 37 کلومیٹر کے سیکٹر میں پسیوں کے بار بار گرنے سے شاہراہ پر کئی کئی روز تک ٹریفک معطل رہا جبکہ فورلین کی تعمیر کے بعد ٹریفک کا جام ہونا معمول بن چکا ہے۔ شاہراہ پر ٹرکوں اور بسوں کے روزانہ نہ چلنے کی وجہ سے نہ صرف مسافروں ، جن میں زیادہ تر تاجر اور سیاح ہوتے ہیں، کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ بسا اوقات اشیائے خوردونوش کی ضروری سپلائی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ یکطرفہ ٹریفک کی وجہ سے رسل ورسائل کے ذرائع اتنے محدود ہوگئے ہیں جسکا تصور بھی اس جدید دور میں ایک عجوبہ سے کم نہیں اور اسی سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ ریاست میں سڑک روابط کی سہولیات کے دعوئوں میں کس قدر سچائی ہے ۔شاہراہ پر رام بن اور بانہال کے درمیان کئی مقامات پر فورلین شاہراہ کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیا گیا ہے اور اونچے اونچے پہاڑوں کے دامن میں شاہراہ کی کشادگی کیلئے کی جانے والی کھدائی پسیوں اور پتھروں کے گرآنے اور شاہراہ پر یکطرفہ ٹریفک کے نفاز کیلئے سب سے بڑی وجہ بنی ہوئی ہے ۔ شاہراہ پر پنتھیال کے مقام اس سال مارچ کے مہینے میں چٹانوں کے گر آنے کی وجہ سے شاہراہ کے کچھ حصے کو زبردست نقصان پہنچا اور اس جگہ پر دو طرفہ ٹریفک میں بڑی گاڑیوں کا نکلنا تقریباً ناممکن بن کر رہ گیا ہے۔ پنتھیال کے علاوہ ماروگ ، کیلا موڑ ، ڈگدول ، خونی نالہ ، رامسو، ناچلانہ کے سیکٹر وںمیں کئی مقامات پر شاہراہ کی تنگی اور بھاری ٹریفک کی کی وجہ سے دو طرفہ ٹریفک کا نکلنا محال ہوجاتا ہے۔ اس طرح شاہراہ پر ٹریفک جام لگنا ایک معمول بن جاتا ہے۔ ایسے حالات میں ریاست کیلئے متبادل شاہراہ کا ہونا لازمی ہے تاکہ نہ ہی مسافروں کو تکلیف کا سامنا کرناپڑے اور نہ ہی اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہو۔کہنے کو تو پی ڈی پی نے مغل شاہراہ کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرکے اسے ایک خواب جتلایا تھا اور حکمران جماعتوں نے اپنے کم از کم مشترکہ پروگرام میں اس بات کا اعلان بھی کررکھاہے کہ چھتہ پانی سے ززی ناڑ تک ٹنل تعمیر کرکے اس روڈ کو بارہ مہینے آمدورفت کے قابل بنایاجائے گالیکن اس سلسلے میں ماسوائے ڈی پی آر تیار کرنے کی ہدایت کے ابھی تک کچھ بھی کام نہیں ہواہے ۔موجودہ مسائل کو دیکھتے ہوئے مغل شاہراہ پر ٹنل کی تعمیر میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن نہ جانے وہ کونسی غیبی طاقتیں ہیں جو اس پروجیکٹ کی راہ میں حائل ہیں ۔